تحریک انصاف نہیں بلکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے کل شام سرکاری اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے لوگو! تم پر آج کے دن بیرونی قرضوں کا بوجھ 74 کھرب روپے ہو چکا ہے۔ جب آپ نے2013ء کے انتخابات میں میاں محمد نواز شریف کو کامیاب کرایا تھا تو اس سے پہلے بیرونی قرضے64 کھرب47 ارب روپے تھے۔ ان تین برسوں میں مسلم لیگ نوازکی حکومت نے11ارب ڈالرکا مزید قرضہ آپ کی گردنوں پر لاد دیا ہے۔ اب یہ سوچنا کس کا کام ہے کہ یہ 74 کھرب روپے جو امریکی ڈالروں میں 72 ارب 98 کروڑ بنتے ہیں،کہاں سے اورکیسے ادا کئے جائیں گے؟ آپ سب کو یہ قرضہ بن مبارک ہو۔
ابھی نیلم جہلم کے جبری ٹیکس سے پاکستانی قوم کو نجات نہیں ملی تھی کہ خیر سے مسلم لیگ نواز کی عوامی حکومت نے سندھ سے پنجاب تک ٹرانسمیشن لائن کے نام سے پاکستانی عوام پر ایک نیا پاور بم یہ کہہ کر گرا دیا ہے کہ بجلی استعمال کرنے والے ہر گھر سے اگلے پچیس سال تک اس ٹرانسمیشن لائن کو بچھانے کے اخراجات پورے کرنے کے لئے فی یونٹ 70 پیسے مع ٹیکس وصول کیے جاتے رہیںگے۔ اس طرح ایک عام گھرانے کو تین سو یونٹ کے ماہانہ بل پر اوسطاًََ چار سو روپے سے زائد کی ادائیگی کرناہو گی۔ اس پاور بم کے کمرشل ریٹ کا شکار کوئی دکاندار، صنعتکار، ڈیلر، تاجر یا مشینی خدمات انجام دینے والا نہیں ہوگا، یہ تمام بوجھ گھریلو صارفین پر ڈالا گیا ہے۔ اس قرضہ بم اور پاور بم کے بعد حکومت نے صحت کا میزائل بھی گرایا ہے جس سے ملک کی بھاری اکثریت کے زیر استعمال رہنے والی ادویات کی قیمتوں کو اتنا بڑھا دیا گیا ہے کہ عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ان ادویات کی تعداد 256 ہے۔ وہ دوائی جس کی قیمت پہلے تین ہزار روپے تھی اب سات ہزارکر دی گئی ہے۔ وہ دوائی جوکمزور حاملہ خواتین کو طاقت اور خون کی کمی دور کرنے کے لئے تجویز کی جاتی ہے اس کی قیمت 269 روپے سے بڑھا کر658 روپے کردی گئی ہے۔
اگر وزیر اعظم ہائوس کا میڈیا سیل چاہتا ہے کہ تحریک انصاف بھی قرضہ بم، پاور بم اور ہیلتھ میزائل جیسے کام کر کے دکھائے تو یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ تحریک انصاف اس طرح کے کارنامے سر انجام دینے کی بجائے کچھ نہ ہی کرے تو بہتر ہے! کے پی کے کے وزیر تعلیم کا کرک جانے کے لئے وزیر اعلیٰ کا ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کو میرا سلطان کا میڈیا بہت اچھال رہا ہے۔ حضور والا! میاں حمزہ شہباز سے لے کر پنجاب کے وزیر خوراک بلا ل یاسین تک کس کس کا نام لیا جائے، ایک لمبی فہرست ہے جس میں نواز لیگ کی نہ جانے کتنی شخصیات حکومت پنجاب کے ہیلی کاپٹر سے مستفید ہو رہی ہیں۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں ہیلی کاپٹروں کا کھلا استعمال کیا گیا۔ اسلام آباد سے مری پکوانوں کی ترسیل کے لئے ہیلی کاپٹرکا استعمال عام ہو چکا ہے۔ ہیلی کاپٹرکے علاوہ تحریک انصاف پر بد گوئی کے الزمات لگانے والے اگر کبھی دانیال عزیز اور عابد شیر علی کے ٹویٹ دیکھ لیں تو ان کی نظریں شرم سے جھک جائیں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ الزمات کی بارش کرنے والوں کو اپنے محسنوں کی آنکھ کا شہتیر دیکھنے کی صلاحیت سے بھی محروم کر دیا گیا ہے، وہ خود کو سونپے گئے ٹاسک کے مطابق عمران خان کو رگڑا دینا ہی اپنا دین و ایمان سمجھتے ہیں۔ سب حیران تھے کہ میرا سلطان کے میڈیا سیل کو وزیر تعلیم کے کرک جانے کے لئے ہیلی کاپٹر ہی نظر آیا ہے؟
وہ لوگ جو تیس سال سے ملک پر حکومت کر رہے ہیں، ان کی جانب انگلی بھی نہیں اٹھائی جاتی اور وہ جنہیں ابھی حکومت میں آئے تین سال ہوئے ہیں ان کے لیے ہر ایک کا منہ کھلا ہے اور مطالبہ ہے کہ کچھ کر کے دکھائو۔کیا وہ بھی دنیا کے ہر بینک اور ساہوکار ادارے سے بھاری قرضے لے کر صوبے کو گروی رکھ دیں؟ پی ٹی آئی والے کہتے تو ہوں گے' ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام!‘۔ لیکن اس میں بھی قصور تحریک انصاف کا ہی ہے کہ خیر سے ان کا میڈیا سیل'' ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘ کے مصداق ہے۔ ابھی تو 2016ء ہے، جیسے ہی اکتوبر2017ء آیا نواز لیگ کا میڈیا سیل اپنے اتحادیوں کے ہمراہ تحریک انصاف کا وہ حال کرے گا کہ اس کی بیوروکریٹ کلاس کو لگ پتا جائے گا! لیکن ان کا کیا بگڑنا ہے، ان سب نے تو کافی کی پیالوں کی بھاپ میں ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر قہقہے لگاتے ہوئے ادھر ادھر ہو جانا ہے۔
مسلم لیگ نواز کے میڈیا سیل کا کمال ہے کہ وہ اپنے ہر داغ کو منٹوں میں تحریک انصاف کے چہرے پر پینٹ کر دینے کی مہارت رکھتا ہے اور تحریک انصاف کو اس وقت پتا چلتا ہے جب چھینٹے اڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، ابھی چند روز پہلے پاکستان کے سب سے معتبر ٹیلی ویژن کی سکرین پر تحریک انصاف کی ایک مشہور رکن کے بارے میں سٹکر چلا دیئے گئے کہ وہ ہیروئن سمگل کرتے ہوئے گرفتار کر لی گئی ہیں۔ وہ معزز خاتون اور ان کا پورا خاندان گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سوشل میڈیا پر میڈیا کی یہ کارستانی منٹوں میں چار سو پھیلا دی گئی۔ وہ خاتون اپنے موبائل پر صٖفائیاں دیتی رہ گئی۔ متعلقہ میڈیا ہائوس الگ پریشان ہوا۔ کیا حکومت اس شرمناک حرکت کے خلاف سائبر کرائم قانون کے تحت کارروائی کرے گی؟
تحریک انصاف بہت بھولی بھالی جماعت ہے جو کچھ بھی نہیں کرتی لیکن حکمران جماعت اور اس کے اتحادی اکٹھے ہو کر اس کا پوسٹ مارٹم شروع کر دیتے ہیں۔ جیسے ہی خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں ہر گھر کو مفت علاج کا صحت کارڈ جاری کرنے کی سمری منظور کی تو ہر جانب بے چینی پھیل گئی کہ یہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ اس سکیم کے تحت کارڈ ہولڈر پانچ لاکھ چالیس ہزار روپے تک اپنا اور اپنے گھر والوں کا علاج مرضی کے ہسپتال سے کرا سکے گا۔ اس پر اسلام آباد کا میڈیا سیل حرکت میں آ گیا اور اگلے ہی دن لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں پرچی سسٹم ختم کرنے کی بڑی بڑی خبریں میڈیا کی زینت بننا شروع ہو گئیں۔ ساتھ ہی کئی زبانیں وہی راگ الاپنا شروع ہو گئیں کہ کیا یہی ہے وہ تبدیلی جس کا عمران خان کی جانب سے شور مچایا جا رہا تھا۔
مسلم لیگ نواز کے میڈیا سیل کی جانب سے اپنی جماعت اور تمام اتحادی جماعتوں کی ان شخصیات کو مواد فراہم کیا جاتا ہے جنہیں ٹی وی چینل پر بیٹھ کر حالات حاضرہ پر بات کرنی ہوتی ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ عمران خان اور اس کی جماعت کوکس طرح ہدف تنقید بنانا ہے بلکہ پروگرام کے دوران بھی ان کو واٹس ایپ کے ذریعے فیڈ کیا جاتا ہے۔