"MABC" (space) message & send to 7575

جہلم سے گگو منڈی

ابھی پی پی 232 بوریوالہ کے ریٹرننگ آفیسرنے ضمنی انتخاب کے نتائج کا اعلان ابھی نہیں کیا تھا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی جانب سے مسلم لیگ نواز کے امیدوار یوسف کسیلہ کو مبارکباد کے ٹکر ٹیلی ویژن چینلز پر چمکنے لگے۔ یہ سلسلہ دو گھنٹے جاری رہا۔ 2013ء کے انتخابات کی رات دس بجے ماڈل ٹائون والی رہائش گاہ کی بالکونی میںٹی وی کیمروں کے سامنے کھڑے ہو کر''دل مانگے اور‘‘ کی صدا لگانے سے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی جانب سے زبردست تعاون کا کمال ان کے سامنے تھا۔
مسلم لیگ نواز نے بوریوالہ کی ایک بیٹی عائشہ نذیرکی کامیابی کو زبردستی چھین کر اپنی طور پر خوشیاں منانے کی بھر پور کوششیں کیں لیکن کیا کیجیے کہ ان کے اندر سے نکلنے والی آوازیں اس وقت ان کے حلق میں ہی گھٹ کر رہ جاتی رہیں جب اصل نتائج ان کے منہ چڑانا شروع ہو گئے۔ جہلم اور بوریوالہ کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے یہ ضمنی انتخابات اس لئے بھی اہمیت حاصل کر چکے تھے کہ ایک حلقہ اگر پوٹھو ہار سے ملحق جی ٹی روڈ پر ہے تو دوسرا جنوبی پنجاب کے دل میں۔ ان کے نتائج نے پاکستان اور پاکستان سے باہر عوامی مقبولیت مانیٹر کرنے والوں کو مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت کا نیا پیمانہ بھی دیا ۔ سرکاری طور پر جاری کئے گئے انتخابی نتائج حاصل کرنے کے بعد انہیں دنیا کو دکھاتے ہوئے مسلم لیگ نواز اگر سمجھتی ہے کہ وہ سرخرو ہو گئی ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی بھول ہے کیونکہ پاکستان کے اندر بیٹھے ہوئے اندرونی اور بیرونی اداروں نے عمران خان اور تحریک انصاف کی تازہ عوامی مقبولیت کا اچھی طرح سے اندازہ کر لیا ہے۔
پی پی 232 بوریوالہ کے انتخابات کی شفافیت چیک کرنے والے ایک غیر ملکی ادارے کی خاتون رکن سے جب میں نے سرکار کی جانب سے جاری کئے گئے انتخابی رزلٹ کے بارے میں سوال کیا تو وہ ایک زبر دست قہقہہ لگاتے ہوئے بولی '' دو نمبر‘‘۔ پنجاب کی انتظامیہ اور ریٹرننگ افسرکس کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ اس حلقے میں ایک دو نہیں بلکہ پانچ لاکھ سے زیادہ آنکھیں انتخابی عمل کو دیکھ رہی تھیں اور جب نتائج کا اعلان کیا جا رہا تھا تو دنیا ٹی وی کے مقبول پروگرام مذاق رات کے اداکارافتخار ٹھاکر کے کہے ہوئے وہ الفاظ کانوں میں گونجنے لگے جو وہ پروگرام میں شریک مسلم لیگ نواز کے لیڈروں سے پوچھتے ہیں۔۔۔۔''پی ٹی آئی کو ڈالے جانے والے ووٹ مسلم لیگ نواز کے کھاتے میں کیسے نکل آتے ہیں؟‘‘ شاید وہ یہ نسخہ کیمیا حاصل کرکے چاہتے ہوں گے کہ امان اﷲ کو ملنے والی ویلیں ان کی جیبوں سے نکال لیا کریں۔
ان دو انتخابی نتائج نے تحریک انصاف کو یہ بھی باور کرا دیا ہو گا کہ''الیکٹیبل‘‘ کسے کہتے ہیں؟ شاید یہی وجہ تھی کہ دسمبر 2015ء سے مئی2016ء کے درمیانی عرصے میں میاں نواز شریف نے بلا جھجک مشرف کی مسلم لیگ، قائد اعظم مسلم لیگ اور پی پی پی کے ہر اس شخص کو اپنے ساتھ ملا لیا جس کے بارے میں پنجاب کی پولیس اورانتظامیہ رپورٹ دے رہی تھی کہ یہ جیت سکتے ہیں۔ باقی کا تڑکا ریٹرننگ افسروں اور نجم سیٹھی کی تعینات کی گئی انتظامیہ اور پولیس نے لگا کر اسلام آباد اور پنجاب کا تخت ان کی پلیٹ میں رکھ دیا۔
کل تک کہا جا رہا تھا کہ عمران خان کی مقبولیت کم ہو چکی ہے اور یہ دہائیاں کوئی اور نہیں بلکہ مسلم لیگ نواز کے وزراء اور اراکین اسمبلی کے علاوہ سرکار سے فیض یاب ہونے والے اینکرز بھی دے رہے تھے۔ لیکن جہلم اور گگو منڈی نے ان کے یہ دعوے جھاگ کی طرح بٹھا دیے۔ اگرتحریک انصاف کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی جہلم اور بوریوالہ میں ایک ہفتہ موجود موجود رہتے اور سرکاری مشینری پر کڑی نظر رکھتے تو ہو سکتا ہے انتظامیہ گھبرا جاتی اور من مانی نہ کر پاتی لیکن تحریک انصاف نے ایسا کوئی انتظام نہ کر کے اس کا خمیازہ بھگت لیا۔
این اے63 جہلم سے چوہدری فواد اور پی پی232 بوریوالہ سے عائشہ نذیر جٹ کو وفاقی حکومت اور پنجاب کی راجدھانی نے شکست سے ہمکنار تو کر دیا ہے لیکن مسلم لیگ نواز کے کامیاب قرار دیے گئے دونوں امیدواروں کو ہر لمحے ضمیر میں لگنے والے کچوکے جتلا رہے ہوں گے یہ سب ''مال مفت دل بے رحم‘‘ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کاکوئی ایم این اے یا ایم پی اے جب وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف سے اپنے کسی کام یا من پسند افسر کی پوسٹنگ کے لئے ضد کرتا ہے تو وہ اسے ڈانٹتے ہوئے یہ کہہ کر بھگا دیتے ہیں کہ ''رکن اسمبلی تم بنے نہیں بلکہ بنائے گئے ہو‘‘۔ 
میجر جنرل کے عہدے کے فوج سے ریٹائر ہونے والے افسر سے جب کبھی ملاقات ہوتی ہے تو وہ ملکی سیا ست پر گفتگو شروع ہوتے ہی بڑے دکھ بھرے لہجے میں کہنے لگتے ہیں: '' زندگی میں پہلی دفعہ ووٹ ڈالنے کے لئے میرا بیٹا مجھے صبح صبح اپنے ساتھ پولنگ اسٹیشن لے کر گیا جہاں ایک لمبی قطار تھی جس پر واپس آ گیا، شام چار بجے دوبارہ گئے تو اسی طرح قطاریں بنی ہوئی تھیں لیکن اس بڑھاپے میں بھی قطار میں لگ کر کھڑا رہا اور وہاں جس سے بھی بات ہوئی سب تحریک انصاف کی رٹ لگا رہے تھے۔ جب طویل انتظار کے بعد ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد گھر آئے تو صبح ٹی وی چینلز سے گرجدار آوازوں میں دوسرے لیگی امیدواروں کی طرح ہمارے حلقے سے بھی سرکاری امیدوار کی کامیابی کا اعلان کیا جا رہا تھا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں