یوم دفاع پاکستان کے موقع پر راولپنڈی میں ہونے والی خصوصی اور عالیشان تقریب میں آرمی چیف نے جو کچھ کہا اور جس لب ولہجے میں کہا اس نے پاکستانی قوم کو ایک حوصلہ اور ولولہ دیتے ہوئے باور کرا دیا ہے کہ وہ اکیلے اور لاوارث نہیں ہیں، انہیں خوف کے جو سائے دکھا کر ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے, ان کی کوئی حقیقت نہیں اورنریندر مودی آئے دن اسلحہ کی فراہمی اور فوجی معاہدوں کا شور برپا کرتے ہوئے پاکستانیوں کے مورال اور اعصاب کو کمزور کرنے کی جن کوششوں میں صبح شام مصروف تھا چھ ستمبر کی رات اپنے خطاب میںجنرل راحیل شریف نے نریندر مودی کی ان تمام گیدڑ بھبھکیوں کو ہوا میں اڑا کر رکھ دیا۔ اس نظریئے کی حامل فوج اور عزم کے سپہ سالار کو شالا نظر نہ لگے ۔
یوم دفاع پاکستان کی اس ایمان افروز طویل تقریب اور خطاب کے بعد جنرل راحیل شریف اپنی رہائش گاہ آرمی ہائوس نہیں گئے بلکہ رات گیارہ بجے سے دو بجے تک آرمی چیف جنرل راحیل شریف راہ حق اور ضرب عضب میں شہید ہونے والے فوجی جوانوں کے بچوں، ماں باپ اور بیوائوں سے ان کے برا بر ہی ایک عام سی کرسی پر بیٹھ کر ان کے مسائل اور تکالیف بارے پوچھتے رہے اور ایک ایک شہید جوان کے لواحقین کی داد رسی کے موقع پر ہی احکامات جا ری کرتے رہے۔ ان سب کو دلا سا دیتے ہوئے ان کے بیٹوں، بھائیوں اور شہید شوہروں کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوتے رہے، شہداء کے بچوں اور مائوں کو گلے لگا لگا کر ان سب کو دلاسہ دیتے ہوئے یقین دلاتے رہے کہ میری یہ وردی اور فوج میں لیا گیا حلف ان شہداء کی یاد سے غافل نہیں رہنے دے گا۔
جب ضرب عضب میں شہید ہونے والے ایک صوبیدار کی ماں نے جنرل راحیل شریف سے مخاطب ہوتے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ آپ کا تعلق بھی میجرراجہ عزیز بھٹی اور میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر جیسے گھرانے سے ہے اور آپ سے بہتر کون جوانی میں ہی شہیدہوجانے والے جوانوں کے گھروں کے مسائل کو سمجھ سکتا ہے تو جنرل راحیل کی آنکھوں میں آئی ہوئی نمی موتی جیسے قطروں کی صورت میں آنکھوں کے کناروں پر آ گئی اور یہ منظر شہدا کے وارثان نے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا جس پر سب آبدیدہ ہو گئے ۔
6 ستمبر یوم دفاع کی تقریبات اور اپنی فوجی اور سرکاری مصروفیات کے سلسلے میں صبح کو بیدار ہوکر میدان عمل میں کودنے والے جنرل راحیل اشرف کی آنکھوں میں رات کے دو بجے بھی نیند اور تھکا وٹ کا دور دور تک شائبہ تک نہ تھا ۔دور دراز کے دیہات اور قصبوں سے آئے ہوئے ملک کے کونے کونے کے شہداء لواحقین جنرل راحیل سے اس طرح اپنے گھریلو مسائل اور تکالیف بیان کر رہے تھے جیسے اپنے خاندان کے کسی بڑے یا سربراہ سے بات کی جاتی ہے۔ اس وقت محمودو ایاز کا فرق مٹ چکا تھا بہت سی مائیں اور بچے تو ان سے اس طرح شکوے کر رہے تھے جیسے گائوں کا کوئی عام آدمی ان کے سامنے بیٹھا ہو۔ایک ایک کر کے وہاں آنے والے شہداء کے وارثوں کے مسائل سننے اور انہیں نہایت ادب اور احترام سے رخصت کرنے کے بعد رات کا ایک بج چکا تھا۔۔۔۔جب جنرل راحیل شریف وہاں سے سیدھے ضرب عضب میں زخمی ہونے والے جوانوں اور افسروں سے ملاقات کرنے کیلئےAFIRM پہنچے، وہاں ان سے گپ شپ لگائی اور زخمی جوانوں کی فرمائش پر ان کے ساتھ سیلفیاں بنوائیں، ان کی صحت اور ان کے گھروں کے مسائل پر بات کی اور جس کسی نے اپنا کوئی مسئلہ بتایا اس کے بارے میں اسی وقت احکامات جا ری کر دیئے۔۔۔اور جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ فوج میں حکم کا مطلب فوری بر وقت اور مکمل تکمیل ہے جب ضرب عضب میں زخمی ہونے والے فوجی جوانوں اور افسران سے ملاقات کے بعد وہاں سے واپس سیدھے ان مزدوروں کے پاس جا پہنچے جو چھ ستمبر کی تقریب کیلئے تیار کی جانے والی سٹیج اور دوسری عارضی طور پر تیار کی جانے والی تعمیرات کو گرانے اور ان کا ملبہ اٹھا رہے تھے جنرل راحیل نے ان سب مزدوروں کو اپنے ہاتھوں سے سووینئر پیش کئے اور سب سے ہاتھ ملاتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ بھی تصاویر بنائیں۔
رات کے ڈھائی بج چکے تھے لیکن جنرل راحیل شریف وہاں سکیورٹی فرائض انجام دینے والے جوانوں سے مسکراتے ہوتے ہوئے مل رہے تھے انہیں احساس دلا رہے تھے کہ ملک و قوم کی خاطر اگر وہ اب تک جاگ رہے ہیں تو ان کا سپہ سالار بھی ان کے ساتھ ہی جاگ رہا ہے ۔ وہاں موجود افسران اور جوانوں میں سے ہر ایک کی زبان پر ایک ہی لفظ تھا اس قدر انسان دوست اور ان تھک سپہ سالار بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں وہاں موجود سابق فوجی افسران بڑی حسرت سے کہتے سنے گئے کاش کہ ہم نے کچھ عرصہ ان کی کمان میں بھی کام کیا ہوتا اتنا ہمدرد اور بے خوف کمانڈر انچیف جس کی رگ رگ میں وطن سے محبت اور شجاعت رواں دواں رہتی ہے جو دشمن کو اس کی زبان سے بھی سخت لہجے میں جواب دینے کی ہمت اور قدرت رکھتا ہے۔ وہاں موجود بہت سے ریٹائر افسران کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا افسوس رہتاہے کہ دشمن ملک کے وزیر اعظم کی دھمکیوں کے مقابلے میں قوم کا حوصلہ بلند کرنے کیلئے اپنی مسلح افواج کا مورال بلند اور مضبوط کرنے کیلئے وہ بات جو ملک کی سیا سی قیا دت کو کرنی چاہئے وہ ان کی خاموشی اور بے حسی کی وجہ سے فوجی قیا دت کو کرنی پڑ رہی ہیں جس سے دنیا بھر میں یہ تاثر پیدا ہونے لگا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم کو بھارت کے وزراء اور نریندر مودی کی پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات اور پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کی دھمکیوں جیسے بیانات پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ یہ تو بھارت دشمنی میں مبتلا پاکستان کی فوج ہی ہے جو جوابی وار کر رہی ہے۔
لیکن آسمان نے کل ایک عجیب منظر دیکھا کہ ابھی جنرل راحیل شریف کے یوم دفاع پاکستان پر کئے جانے والے خطاب کے الفاظ فضا میں ہی گردش کر رہے تھے کہ نریندر مودی کی مدد کیلئے سینیٹ اٹھ کھڑی ہوئی اور وہ الزامات سینیٹ کے اراکین کی زبانوں سے خرافات کی صورت میں یہ کہتے ہوئے بہنے لگے کہ ''دہشت گرد تنظیموں کا اداروں سے گٹھ جوڑ کب ٹوٹے گا؟ نیشنل ایکشن پلان کو ملیا میٹ کرنے کیلئے کہا گیا کہ'' دہشت گردی سے کرپشن کا گٹھ جوڑ ثابت نہیں ہوا؟۔اور کہا گیاThere is no proof of nexus between terrorism and corruption where as strong evidence has surfaced showing nexus between Pakistan Army and millitants '۔۔۔۔۔ یہی کچھ پاکستان کے خلاف امریکی تھنک ٹینکس اور بھارت کاوزیر اعظم کہتا ہے ۔۔۔جنرل راحیل شریف کو یوم دفاع کے خطاب کا جواب دینے کیلئے سینیٹ میں ہی کھڑے ہو کر کہا گیا'' جنگجو تنظیموں اور ریاستی اداروں سے تعلقات کے ثبوت سامنے آ چکے ہیں اس لئے اب پاکستانی فوج دہشت گردی کی ذمہ داری بھارت کی خفیہ ایجنسی را پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتی؟۔۔۔۔کیا ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کی جانب سے کہے جانے والے وہی الفاط نہیں کیا یہ وہی وہی زبان اور لہجہ نہیں کیا یہ وہی زہر آلود انجکشن نہیں‘ حکومت کے سب سے بڑے اتحادی محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کہے ؟۔
'' شالا پاکستان کے محافظوں اور ان کے سپہ سالار کو نظر نہ لگے‘‘....!!