"MABC" (space) message & send to 7575

کاش

کاش! اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف مقبوضہ کشمیر کے شمالی حصوں کپواڑہ، بانڈی پورہ اور بارہ مولا سے ملنے والی ان اجتماعی قبروں کی بھی نشاندہی کر دیتے جن میں2900 کشمیریوں کو کفن کے بغیرالٹا سیدھا کر کے پھینک دیا گیا تھا۔کاش ! وزیر اعظم جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں بھارتی نیوی کے گرفتارکمانڈر( لیفٹیننٹ کرنل) کلبھوشن یادیو کا تذکرہ بھی کر دیتے جسے بھارتی حکومت نے کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والا نیٹ ورک سونپ رکھا تھا ۔ کاش!وزیر اعظم نریندر مودی کی پندرہ اگست کی اس تقریر کا حوالہ بھی دیتے جس میں اس نے پاکستان کو دھمکیاں دیتے ہوئے بڑے فخر سے اقرار کیا کہ وہ بھارت ہی تھا جس نے مکتی باہنی کے بھیس میں اپنے فوجی مشرقی پاکستان بھیجے۔ کاش !میاں نواز شریف جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اقوام عالم کو یہ بھی بتا دیتے کہ نریندر مودی نے بلوچستان، گلگت اور کراچی میں بنگلہ دیش کی طرح دہشت گرد بھیج کر عالمی امن کو تباہ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔لیکن یہ باتیں نہیںکی گئیں اور کشمیر پر مذاکرات کی وہی باتیں دہرائی گئیں جو ہم برسوں سے کہے جا رہے ہیں۔ کیا ہماری وزارت داخلہ اور خارجہ کو علم نہیں کہ ہزاروں کشمیریوں کو ان کے گھروں ، سکولوں ، کالجوں اور دفتروں سے بھارتی فوج اور اس کے سکیورٹی اداروںنے اٹھا کر غائب کر دیا ہے۔ کاش! ان غائب کئے گئے افراد میں سے 2900 کشمیری نوجوانوں کی بر آمد ہونے والی اجتماعی قبروں کی ویڈیوز دنیا کو دکھا کر کشمیر میں بھارتی تسلط اورظلم و ستم کاپردہ چاک کیا جاتا ۔کاش! میاں نواز شریف دنیا کو ان 2900 نو جوانوں کی اجتماعی قبریں دکھاتے ہوئے کشمیر پر قابض سات لاکھ بھارتی فوج اور پانچ لاکھ سے زائد سکیورٹی فورسز کی سفاکیت اور بربریت دکھاتے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے بتاتے کہ یہ تو وہ لاپتہ کشمیری ہیں جو اجتماعی قبریں ملنے سے سامنے آئے ورنہ خدا جانے کشمیری مائوں کے کتنے لعل مقبوضہ کشمیر کے دس سے زائد اضلاع کی وادیوں اور ندی نالوں میں پھینک دیئے گئے ہیں ۔
جولائی سے اب تک 105کشمیری بچے آزادی کا حق مانگنے کے جرم میں بھارتی فوج کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں اور شدید زخمی ہونے والوں کی تعداد پانچ سو سے زیا دہ ہو چکی ہے۔ ہر سال کی طرح 13 ستمبر2016 ء کی بقر عید بھی بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو غم و الم کے سوا کچھ نہ دے سکی۔ ہر گھر سے مائوں ، بہنوں اور کمر خمیدہ بوڑھے باپ زندگی بھر کیلئے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہونے والے اپنے بچوں کو دیکھ دیکھ کر رو تے رہے۔ یہ عید بھی محکوم اورمجبور کشمیریوں کو بے بسی اور بے چارگی کے رنج و الم کی سیاہ گھاٹیوں سے باہر نہ نکال سکی ۔کسی نے سچ کہا ہے کہ لٹے ہوئے قافلے عید نہیں بلکہ اپنی بے مائیگی پر ماتم کرتے ہیں۔ یہی سماں اس عید پر مقبوضہ کشمیر کے ہر گھر پر طاری تھا۔ ہمارے حکمران شائد بھول گئے ہیں‘ اجمل قصاب کے نام کو بھارت نے دنیا کے ہر چینل،ہر کالج اور یونیورسٹی کی لائبریری، ہر اخبار، میگزین کا حصہ بنا دیا تھا۔ بھارت کے دنیا بھر میں موجود ہر چھوٹے بڑے ڈپلومیٹک کائونٹر پر اجمل قصاب کی تصویریں اور ممبئی حملے کی من گھڑت تٖفصیلات پر مشتمل کتابیں رکھی گئی تھیں۔ لیکن ہمارے پاکستان کی گنگا ہی الٹی ہے کہ بھارتی فوج کا حاضر سروس نیوی کمانڈر کلبھوشن اپنے پورے نیٹ ورک کے ساتھ پکڑا جاتا ہے لیکن اس کا نام لیتے ہوئے نہ جانے ہمارے حکمرانوں کوکیوں شرم آ رہی ہے۔بلوچستان سے اب تک 17 کے قریب لاشیں مختلف پہاڑی سلسلوں سے بازیاب ہوئی ہیں لیکن بلوچستان کی این جی اوز، غیر ملکی تنظیمیں اور ان کا ہمنوا میڈیا ان لاشوں کے نام پر دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہے ۔اس 
ضمن میںبھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کا مخصوص میڈیا بھی اپنی آواز شامل کر رہا ہے لیکن ہمارے ہاں کسی کو توفیق ہی نہیں ہو رہی کہ ہلکا سا احتجاج کرتے ہوئے شمالی کشمیر سے2900 کشمیری نو جوانوں کی اجتماعی قبریں ہی دکھا دے ۔افسوس ! ترقی پسندی اور لبرل کہلانے کے جنون میں مبتلا پاکستان کے میڈیا کا مخصوص گروہ بلوچستان کے ما ما قدیر کو اپنا اصلی ما ما قرار دیتے ہوئے اس کی شان میں قصیدے پڑھ کر خوشی سے جھومتا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کے ان'' سوتیلے بھائیوں‘‘ کی بات کرتے ہوئے نہ جانے کیوں اس کی زبان لڑکھڑاجاتی ہے۔ پاکستان نے تو آواز نہیں اٹھائی لیکن انٹرنیشنل پیپلز ٹربیونل برائے انسانی حقوق و انصاف نے دنیا بھر سے مطالبہ کیا ہے کہ اجتماعی قبروں سے ملنے والی ان تشدد زدہ لاشوں پر بھارت کی فوج کے شرمناک ظلم کا سخت نوٹس لیتے ہوئے عالمی برادری بھارت کا بائیکاٹ کرے اور اسے فوجی سامان مہیا کرنے سے انکار کر دے ۔
دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فرعونیت کے حالیہ ظلم و ستم سے بلبلا اٹھی ہیں۔پانچ سے پندرہ سال تک کے درجنوں کی تعداد میں بچوں کی آنکھوں کی بینائی بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں نے چھین لی ہے۔ ان کی تصویر یں ہر '' انسان‘‘ کو رلائے دے رہی ہیں ۔ برطانیہ کی خاتون
جرنلسٹ حال ہی میںچند دن کشمیر میں گذار کر واپس آئی تو وہ چیخ چیخ کر دنیا کو بتا رہی تھی کہ اس قدر سفاکیت کو ہٹلر کی نازی فورس بھی دیکھ کر شرماجائے ۔ معصوم بچے اور بچیاں بھارتی پیلٹ گنوں سے زندگی بھر کیلئے اندھے ہو چکے ہیں۔ ان کے جسموں میں پیلٹ گنوں کے ایک دو نہیں بلکہ درجنوں سوراخ ہو چکے ہیں۔ ہسپتالوں میں ان کی چیختی چلاتی زندگیاں اور ان کی بلبلاتی ہوئی مائیں دیکھی نہیں جاتیں۔ برطانوی خاتون صحافی کہتی ہیں کہ جب سے مقبوضہ کشمیرسے واپس آئی ہوں ایک نفسیاتی مریضہ بن کر رہ گئی ہوں۔ غذا کا ایک نوالہ بھی میرے حلق سے اترنے کا نام نہیں لیتا۔ایسا لگتا ہے کہ بھارت کے زیر تسلط کشمیری انسان نہیں اور نہ ہی اس بھری دنیا میں کوئی انہیں انسان سمجھتے ہوئے ان کا دکھ بٹانے والا ہے۔ میرے ملک برطانیہ سمیت دنیا کو تہذیب کا درس دینے والی قومیں، دہشت گردوںسے آہنی ہاتھوں سے نبٹنے کی باتیں کرنے والی قومیں، انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر دنیا کے ہر ملک میں مداخلت کا حق جتانے والی قومیں کشمیر کا نام آنے پر اس طرح خاموش کھڑی ہیں جیسے اندھی، بہری اور گونگی ہو چکی ہوں۔دنیا کی پچاس سے زائد مسلم ریا ستوں کی خاموشی اور طرز عمل انتہائی شرمناک ہے۔ بجائے بھارت کا ہاتھ روکنے کے یہ اس سے دفاعی معاہدے اور اس کی گردن میں اپنے ملک کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سجا رہے ہیں۔ اپنی پریس بریفنگ کے آخر میں یہ کہتے ہوئے وہ آبدیدہ ہو گئیں ''kasmiris we love you'' 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں