"MABC" (space) message & send to 7575

نقشوں میں تبدیلی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پاکستان میں جو بھی جماعت اقتدار میں ہو، اس کا سربراہ عالمی ادارے کے اس فورم پر کشمیر کے بارے میں وہی رٹی رٹائی تقریرکرکے واپس آ جاتا ہے اور اس کے حواری و درباری کئی کئی دن اس کے کامیاب دورے پر اسے مبارکباد کے پیغامات دیتے رہتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس بھارت کشمیر کے بارے میں بین الاقوامی طور پر جو کچھ کرتا ہے اس پر پاکستانی حکمران آنکھیں بند کئے رہتے ہیں۔ اس خاموشی کو ذاتی دوستی کہا جائے یا مجرمانہ خاموشی؟ لندن سے شائع ہونے والے مشہور نیوز میگزین ''اکانومسٹ‘‘ نے کشمیر کو ایک متنازعہ حصے کے طور پر شائع کیا تو بھارت نے سیخ پا ہو کر اس کے پبلشر کو خط لکھ کر وضاحت طلب کی کہ نقشے میں کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھانے کی بجائے ایک متنازعہ علا قے کے طور پر کیوں پیش کیا گیا ہے؟ اکانومسٹ پر بھارتی چڑھائی پر ان کی مدد کو آنے کی بجائے'ہم‘ خاموش رہے اور بھارت بازی لینے میں کامیاب ہوگیا۔ شاید ہمارے ملک میں کسی کواحساس نہ ہو سکا کہ برطانیہ سمیت دوسرے ممالک کے اشاعتی ادارے بھی کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اکانومسٹ لندن کے بعد معروف ٹی وی چینل ''الجزیرہ‘‘ کی نشریات کو نریندر مودی نے پانچ دن کے لئے بھارت میں بطور سزا یہ کہتے ہوئے بند کرا دیا کہ اس نے اپنے پروگرام میں کشمیر کو پاکستان اور بھارت کا متنازعہ حصہ کیوںکہا۔ 
کیا پاکستان کا فرض نہیں تھا کہ وہ الجزیرہ اور اکانومسٹ کی مدد کو آتے ہوئے بتاتا کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر، پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک حقیقی متنازعہ علا قہ ہے۔ مودی کا حوصلہ مزید بڑھنے لگا اور اس نے اگلا قدم گوگلکی جانب بڑھا تے ہوئے اسے بھی مجبورکر دیا کہ وہ اپنے نقشوں میں کشمیر، گلگت بلتستان، K2 اور نانگا پربت کی چوٹیوںکو بھارت کے حصے کے طور پر دکھا ئے۔ اس سے زیادہ پاکستانی سرحدوں پر حملہ اور کیا ہو سکتا ہے، لیکن اسلام آباد کا وزیر اعظم ہائوس اور اس کا میڈیا سیل عمران خان کی کردار کشی میں اس قدر مصروف ہے کہ اسے کشمیر، کے ٹو، گلگت بلتستان اور نانگا برپت جیسے معاملات کی جانب توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں مل رہی۔ 
گوگل کے بعد مودی کا حوصلہ مزید بڑھا اور اس نے فیس بک پر حملہ کرتے ہوئے اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مارک زگربرگ کو قانونی کارروائیوں کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے اس کی پوسٹ سے ان نقشوں کو Delete کرا دیا جن میں کشمیر کو بھارت کا حصہ نہیں دکھایا گیا تھا۔ امریکہ میں رہنے والے با اثر پاکستانیوں نے امریکہ میں پاکستانی سفیر کو بار بار یادداشتیں پیش کرتے ہوئے آنکھیں کھولنے کوکہا، اسلام آباد میں وزیر اعظم ہائوس اور وزارت خارجہ کو جھنجھوڑنے کی کوششیں کیں لیکن کوئی بھی ٹس سے مس نہ ہوا، اوور سیز پاکستانی سر پیٹتے ہوئے رہ گئے۔ جب کوئنز لینڈ یونیورسٹی نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے دوران آزاد کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیا تو مودی سرکار نے اسے تبدیل کرا دیا۔کس کس کا ذکرکریں، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس گھرکو اپنے ہی چراغ سے آگ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک جانب بھارت کوکھلا میدان دیا جاتا رہا کہ وہ بگلیہار ڈیم کی طرح کشمیر پر بھی اپنے مقاصد حاصل کر لے۔ بھارت نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے Whatsapp اور پھرUber پر دبائو بڑھایا کہ وہ کشمیر کو بھارت کے حصے کے طور پر اپنے نقشوں میں شامل کریں جس میں وہ ہماری مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے کامیاب ہو گیا۔ 
کس سے شکوہ کریں، آنکھیں میچ کر سوئے ہوئے کو کیسے جگائیں! اسے ذاتی ایجنڈہ کہیں یا وزارت خارجہ کی ناکامی جس کے انچارج وزیر کوئی اور نہیں بلکہ وزیر اعظم میاں نواز شریف خود ہیں۔ بھارت نے تمام بین الاقوامی اداروںکو دھکمی آمیز خطوط ارسال کر رکھے ہیںکہ اگر انہوں نے کشمیر کو بھارت کا حصہ نہ دکھایا تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے
لئے بھارت نے ایک قانون منظور کر رکھا ہے کہ جو بھی کشمیر کو بھارت کا حصہ نہیں دکھائے گا اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اسے پاکستان کی وزارت خارجہ کی ناکامی کہا جائے یا جان بوجھ کر چشم پوشی کا نام دیا جائے، بھارت کی اس دھونس اور چالبازی کا مقابلہ اور سد باب تو دور کی بات اس کا کہیں ذکر ہی نہیں ہونے دیا جا رہا اور نہ ہی پاکستانی عوام تک یہ خبر پہنچائی جائی رہی ہے کہ بھارت دنیا بھر کے میڈیا سمیت سوشل میڈیا اور اطلاعاتی مراکز سے شائع ہونے والے مواد سے ان نقشوں میں زبردستی تبدیلی کرواتا جا رہا ہے جن میں کشمیر کو متنازعہ حصہ کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔ دنیا کے ہر فورم پر بھارت کی یہ گردان رکنے میں ہی نہیں آ رہی کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا کا بھی ناک میں دم کیا جا رہا ہے کہ وہ کشمیر کو بھارت کا حصہ سمجھتے ہوئے ہی سوال کیا کریں۔ اب تو بھارتی حکومت وزیر اعظم مودی کی سطح پرکشمیرکو بھارت کا حصہ دکھانے کے لیے انتہائی اقدام کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہی۔ نریندر مودی کی لال قلعہ دہلی میں کی جانے والی حالیہ تقریر کے بعد گلگت بلتستان کو بھی بھارتی حصے کے طور پر دکھانے کے لئے سفارتی دبائو بڑھانا شروع کر دیا گیا ہے اور اس کے لئے اشاعتی اداروں اور ملکوں کو عدالتی کارروائیوں کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ وہ ان نقشوںکو فوری
طور پر تبدیل کر کے ان علاقوں کو بھارت کے حصے کے طور پر دکھائیں۔ لیکن اس پر احتجاج کی بجائے پاکستان نے مجرمانہ چپ سادھ رکھی ہے۔ 
بھارت میں جنتا پارٹی کی حکومت ہو یا کانگریس کی ان سب کا منشور ہندوتوا کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، یہ ظاہری طور پر پاکستان سے تعلقات اور امن کی آشا کے جتنے چاہیں گیت گائیں لیکن پاکستان دشمنی ان کی گھٹی میں رچ بس چکی ہے جبکہ ان کے مقابلے میں ہمارے فوجی حکمران ہوں یا سیا سی شہنشاہ بجائے اپنے گھوڑے تیار رکھنے کے ہر وقت بھارت کی خوشامد میں جتے رہتے ہیں تاکہ امریکہ اور مغرب کو دکھا سکیں کہ حضور والا دیکھیں آپ کے اسرائیل کے بعد دوسرے لے پالک بھارت کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لئے ہم اس کے گرد کس طرح اچھل کود رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اپنے معمول کے سالانہ خطاب میں کشمیر کی آزادی کا ذکر تو کیا لیکن اقوام متحدہ کو اس کی کشمیر کے تنازعہ کو رائے شماری کے ذریعے حل کرانے والی قرار دادوں کا حوالہ نہیں دیا۔کیا آپ کو کسی نے بریف نہیں کیا کہ بھارت کے دبائو پر انٹرنیشنل ویب سائٹس اور نیوز چینلز کو اپنے پروگراموں میں گلگت بلتستان اور کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ جناب والا! نیند سے جاگیں، مودی کی محبت کے سحر سے نکل کر دنیا بھر کے ہر ادارے کو اقوام متحدہ کی ان تمام قرار دادوں کا حوالہ دیتے ہوئے مجبور کریں کہ وہ کشمیر اور گلگت کو بھارت کا حصہ دکھانے سے باز رہیں ورنہ پاکستان ان کے خلاف کارروائی کا حق رکھتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں