پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوسرے دن نواز شریف مری تشریف لے گئے اور 446 کے ایوان میں صرف اور صرف86 اراکین پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت کیلئے موجود پائے گئے اس سے اس اجلاس کی سنجیدگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جس کا بائیکاٹ کرنے پر وزیر اعظم اور میرا سلطان نے تجوریوں کے منہ کھولتے ہوئے اپنے پارٹ ٹائم ملازمین کو ٹیب تحفے میں دے کر عمران خان کے پیچھے لگارکھا ہے ۔ چند فیض یاب ہونے والے حضرات سے ملنے والی انتہائی معتبر اطلا ع کے مطا بق میرا سلطان کی جانب سے ان کو بھیجے جانے والےtheme کی ہیڈ لائن ہی یہی ہے کہ عمران خان کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کے فیصلے کو ایکسپلائٹ کیا جائے اور ساتھ ہی انہیں کچھ نکات بھجوائے گئے ہیں اب ظاہر ہے کہ یہ مشقت بغیر معاوضے کے تو نہیں کی جا رہی ہو گی اور شائد یہی وہ خفیہ فنڈز ہیں جن کا کسی کو حساب کتاب دینے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اﷲ چونکہ الحق ہے ا سلئے ایک دن بعد ہی بلاول بھٹو کے تھیلے سے بلی یہ کہتے ہوئے باہر آ چکی ہے کہ '' الطاف حسین غدار نہیں ہے اور وہ جو مودی کے یار اور غدار کے نعرے تھے وہ نواز شریف کیلئے نہیں بلکہ ویسے ہی خیالی تھے؟‘‘۔ اب وہ لکھنے والے جو ابھی عمران خان کو لتاڑنے کے عوض داد وصول کر رہے تھے ایک دوسرے سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ اور جو کچھ عمران خان نے ان دونوں جماعتوں کے بارے میں کہا تھا اور جن کے بارے میں چند دن پہلے اپنے آرٹیکل'' حسین حقانی اور جان نیگرو پونٹے‘‘ میں تفصیل سے ذکرکرچکا ہوں کہ
لندن میں ان دونوں جماعتوں کے درمیان طے کیا پانے والا میثاق جمہوریت در اصل امریکی سی آئی اے نے کرایا تھا اور اس کے خدو خال نیگرو پونٹے نے جو اس وقت امریکی انٹرنیشنل انٹیلی جنس کونسل کے سربراہ تھے ‘ درست کرنے کے بعد حسین حقانی کے حوالے کئے تھے جن میں آئی ایس آئی کے پر کاٹنا اور نیوکلیئر صلاحیتوں سمیت افواج پاکستان کی تعداد میں کمی شامل ہے۔اب پاکستان کے عوام خود ہی فیصلہ کر لیں کہ کیا عمران خان بھی بلاول بھٹو کی طرح الطاف حسین اور مودی کے یار کو ایک تصوراتی بیان سمجھ کر ان کے ساتھ چلنا شروع کر دے؟۔عمران خان کو پھر کہہ رہا ہوں کہ ٹی او آرز کی بتی کے پیچھے بھاگنے کی دوبارہ کبھی کوشش نہ کریں کیونکہ آصف زرداری نواز شریف کو بچانے کیلئے اب ایک نئے روپ میں سامنے آ رہے ہیں جس میں چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملانے کا ڈرامہ کرتے ہوئے پاناما سے متعلق بل پاس کرانے کا تاثر دیتے ہوئے عمران خان کو ان کی پارٹی میں موجود سول خفیہ ایجنسی اور نواز شریف کے آدمیوں کے ذریعے اس اتحاد میں گھسیٹنے کی کوشش کریں گے ۔ سب نے دیکھا کہ جب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ ہوا توپریشانی اور کرب کی کیفیت پی پی پی کے ہر رکن کے چہرے پر دیکھنے والی تھی ٹی وی چینلز دیکھیں تو پی پی پی کی بڑی لیڈر شپ آستینیں چڑھا چڑھا کر عمران خان کی جانب لپک رہے ہیں اور ان کے مقابلے میں نواز لیگ حسب معمول لے دے تو کر رہی ہے لیکن نہ جانے وہ کون سی طاقت ہے جو پی پی پی کے ایک ایک لیڈر کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ٹی وی چینلز پر یہ کہہ کر بھیجے جا رہی ہے کہ دیکھو موقع ہے عمران خان کو اس طرح رگڑو کہ لوگ اس کے رائیونڈ جلسے کے حاضرین کی ریکارڈ تعداد کو بھول کر اس کے پارلیمنٹ اجلاس کے بائیکاٹ کی مذمت کرنا شروع کر دیں اور اس کا اڈہ پلاٹ کا پاناما مارچ اس گرد میں گم ہو کر رہ جائے تاکہ اس دھول میں کسی کو ہمارے اکائونٹس کی طرف بڑھنے کا رستہ ہی نہ ملے ۔
اس پارلیمنٹ نے جسے وجود میں آئے تین سال سے زائدکا عرصہ گزر چکا ہے‘ عوام کیلئے اب تک کیا خدمات انجام دی ہیں۔ ملک سے بجلی، پانی اور گیس کی کمی کو دور کر دیا ہے؟۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عوام کی پہنچ میں لے کر آئے ہیں۔۔۔کسی بھی سرکاری دفتر میں اس ملک کے عوام کی رسائی کو آسان اور ان کے مسائل کے جلد حل کیلئے کوئی سکیم تیار کی ہے؟ہر روز لوگ اپنے ہی گلی محلوں شہروں، سڑکوں اور بازاروں میں دن دہاڑے لوٹے جا رہے ہیں کیا ان کی جان و مال کی حفاظت کا کوئی سخت قانون منظور کیا ہے؟۔ ملک قرضوں کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے کیا اس کو روکنے کیلئے اس پارلیمنٹ نے حکمران جماعت کے ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی ہے؟۔ کیا پارلیمنٹ کا مقصد ان کے نزدیک یہی رہ گیا ہے کہ حالت جنگ میں ملک کی مسلح افواج کی کردار کشی کو اپنا فرض اولین بنالیا جائے؟۔ کیا اس قبیل کے میڈیا سے متعلق لوگوں کے نزدیک اس پارلیمنٹ کا وقار محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمن ، غلام احمد بلور اور اسفند یار ولی خان ہیں؟ کون نہیں جانتا کہ محمود خان اچکزئی کے حامد کرزئی، عبد اﷲ عبد اﷲ اور افغان نیشنل ڈیفنس سروسز سے کس نوعیت کے خفیہ اور گہرے تعلقات ہیں اور یہ بھی کوئی الزام نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں کے سامنے مولانا فضل الرحمن نے بھارت کو خوش کرنے کیلئے اور دنیا بھر کے میڈیا میں پاکستان کی کشمیر پر پوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے کہہ دیا کہ'' مقبوضہ کشمیر سے بد ترین صورت حال تو فاٹا کے عوام کی ہے اور پاکستان کی فوج نے ضرب عضب میں سوائے فاٹا کے لوگوں کو تنگ کرنے کے کسی دہشت گرد کو ہاتھ بھی نہیں لگایا‘‘ کاش کوئی ان سے پوچھے کہ مولانا پھر یہ جو اب تک ہمارے کرنل ، میجر اور کئی کیپٹن اور لیفٹیننٹ اور جوان اس آپریشن میں شہید ہو ئے ہیں اگر وہ تحریک طالبان پاکستان اور اس کی اتحادی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید نہیں ہوئے توپھر کیا انہیں آپ کے لوگوں نے مارا ہے؟۔ لیکن ان سے کوئی نہیں پوچھے گا کیونکہ ان کے مرکز میں تین اہم وزیر ہیں اور وہ خود کئی سالوں سے کشمیر کمیٹی کے چیئر مین بنے بیٹھے ہیں اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پی پی پی اور نواز لیگ کی حکومتیں کشمیر کے بارے میںکتنی سنجیدہ ہیں؟نیشنل عوامی پارٹی آپ کی اتحادی ہے جس کے اسفند یار ولی خان اور شاہی سید نے جو خیر سے ایک دوسرے کے سمدھی بھی ہیں اپنے اپنے قدموں کو آگے بڑھاکر پختونوں کے پاکستان مخالف جذبات کو ابھارنے کیلئے ان سے اپنے کراچی اور پشاور میں علیحدہ علیحدہ خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ پنجابستان مت بنائو؟۔ کیا میڈیا کے چند لوگوں پر جی جی بریگیڈ کا ہراول دستہ بھول گیا ہے کہ پنجابستان کا نعر ہ ہی دراصل پاکستان مخالف نعرے کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم کے فاروق ستار گروپ کو اس وقت حکومت کی چھتری کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اس لئے ان کیلئے مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کی خدمت کیلئے صف بستہ اور با ادب حاضر خدمت رہنا مجبوری بن چکا ہے۔ رہی جماعت اسلامی تو اس کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی کافی ہے۔۔ سندھ کی حکمران پیپلز پارٹی جو پارلیمنٹ میں خورشید شاہ کی شکل میں آپ کے گھر کی لونڈی کی طرح خدمات انجام دے رہی ہے اور جن کے بارے میں ملک کا وزیر داخلہ قومی اسمبلی کے فلور پر کہتا ہے کہ ان کی کرپشن کی فائلیں دکھا دوں تو یہ کسی کو شکل دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں؟