امریکہ، بھارت اور افغانستان کے موجودہ گٹھ جوڑ (Nexus) کے ذریعے کوئٹہ پولیس ٹریننگ سنٹر پر کرائے جانے والے حالیہ حملے، افغانستان میں افیون کی دن بدن بڑھائی جانے والی پیداوار اور بھارت کی ببانگ دہل براہمداغ بگٹی کی سرپرستی ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس وقت دنیا کی چار طاقتیں اور خون آشام ایجنسیاں۔۔۔۔ را‘ موساد‘ سی آئی اے اور این ڈی ایس پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ اس میں تو اب شک نہیں رہا کہ کالعدم لشکر جھنگوی اب بلوچ لبریشن آرمی سے مل کر کام کر رہی ہے۔ امریکہ، بھارت اور افغانستان کی مثلث اور اسرائیل کی مدد کا سب سے پہلا نشانہ سی پیک ہے۔ اسی منصوبے سے گوادر کے خیال نے جنم لیا تھا اور گوادر ڈیپ سی پورٹ وہ دو دھاری تلوار ہے جو امریکہ اور بھارت کے سروں پر لٹکی ہوئی ہے۔ ایسے وقت میں کہیں درپردہ تو کہیں کھلے عام ملک کی سلامتی کے اداروں کو ہتک آمیز طریقے سے بدنام کرنے میں مصروف ہیں۔ ملک کے سکیورٹی اداروں کو آج اتنا نقصان باہر سے نہیں جتنا اندر سے پہنچ رہا ہے ‘ وہ کس کا اعتبار کریں کیونکہ اب تو سیرل المیڈا کی شکل میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انہوں نے کسی اہم ترین شخصیت سے ملکی سلامتی کے بارے میںجو بات کی ہے وہ نہ جانے کون سے ''المیڈا‘‘ تک پہنچ چکی ہوگی۔ آپ یقین جانئے کہ ملک کے حساس اداروں کو اب دفاعی انتظامات کے سلسلے میں کسی دوسرے کو کچھ آگاہ کرتے ہوئے سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ المیڈا کے ذریعے باہر آنے والی خبر کے بعد وہ اب کس پر اعتبار کر سکتے ہیں؟ وزیر اعظم کے سب سے بڑے اتحادی مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی ہیں اور ان کی تمام افرادی قوت کوئٹہ پولیس کیڈٹ کالج کے قریبی علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں بیٹھے ہوئے افغانی ہیں جو مہاجروں کے بھیس میں آئے دن نت نئے لوگوں کو اپنے اندر سمیٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہی لوگ بلوچستان کے دہشت گردوں کی جائے پناہ اور سیف ہائوس ہیں۔ لیکن کوئی انہیں روکنے والا نہیں، اس لئے ضروری ہو چکا ہے کہ ملکی سلامتی سے متعلق اداروں کا کوئی نیا ضابطہ کار بنا کر دشمن کی سازشوں اور تخریبی منصوبوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے فول پروف سسٹم اپنایا جائے۔
امریکہ سمجھ چکا ہے کہ گوادر کو چین کے ہاتھ سے چھیننے کے لئے بھارت اور افغانستان اس کی بھر پور مدد کر سکتے ہیں کیونکہ دونوں ہی پاکستان دشمنی میں ایک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی انتظامیہ نے بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سول نیوکلیئر سپلائی کی رکنیت کے ساتھ یہ وعدہ بھی کر رکھا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم کی طرح بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ بھی امریکی صدر کی ہر سال ملاقات ہوا کرے گی۔ علاوہ ازیں امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کے درمیان ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے جب چاہیں باہمی رابطہ ہوا کرے گا۔ اگر لوگ بھولے نہیں تو وہ عبد اﷲ محسود کے نام سے واقف ہوں گے جس کو 2004 ء میں امریکہ نے گوانتانامو بے سے رہا کرتے ہوئے گوادر پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی ماہرین کو اغوا اور قتل کرنے کا فریضہ سونپا تھا۔ امریکہ جانتا ہے کہ گوادر صرف ایک پورٹ نہیں بلکہ آبنائے ہرمز پر دنیا کی سب سے گہری بندر گاہ ہے۔ مصر کی نہر سویز سے یورپ کو روزانہ چالیس لاکھ بیرل تیل پہنچتا ہے جبکہ گوادر سے روزانہ ساٹھ لاکھ بیرل تیل کی ترسیل ہواکرے گی جس سے چین کو سالانہ20 ارب ڈالر کی صرف تیل کے اخراجات میں بچت ہو گی اور پاکستان کو اس راہداری سے صرف تیل کی ترسیل میں سالانہ پانچ ارب ڈالر آمد نی ہو گی۔ اس راہداری سے جسے ٹول پلازہ کہا جا سکتا ہے‘ پچیس ارب سے زائد آمدن متوقع ہے۔ چین کے بعد اب گرم پانیوں کے متلاشی روس کی بھی خواہش ہے کہ وہ پاکستان کی گوادر پورٹ سے مستفید ہو، کیونکہ وہ اگر ایران کی چاہ بہار کی سہولت حاصل کرتا ہے تو اس کی گہرائی گیارہ ہزار میٹر سے زائد نہیں جبکہ اس کے مقابلے میں گوادر کی گہرائی سب سے زیا دہ ہے۔ گوادر بندرگاہ کے ساتھ ہزاروں کلومیٹر ریل، موٹر وے، لاجسٹک سہولتوں کا ایک طویل سلسلہ جڑا ہوا ہے جو امریکہ ‘ بھارت اور اسرائیل کو کسی طور ہضم نہیں ہو رہا۔ چین کے لئے گوادر کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اسے روزانہ 50 لاکھ بیرل تیل کی برآمد کے لئے بارہ ہزار کلومیٹر سے زائد فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے اور چین جب گوادر پورٹ استعمال کرے گا تو یہ فاصلہ صرف 3 ہزار کلومیٹر تک
رہ جائے گا۔ امریکی سی آئی اے سے یہ کسی طرح چھپا ہوا نہیں کہ امریکہ نے جنرل مشرف کو عدلیہ کی آزادی کے بھیس میں چلائی جانے والی تحریک کے نام پر اپنے مہروں کو کس طرح استعمال کرتے ہوئے فارغ کرایا تھا۔ اب اسی تناسب میں بھارت کی وزارت داخلہ کا جاری کردہ حالیہ فرمان انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں ڈیڑھ ماہ سے نئی دہلی میں مقیم 1200 اسرائیلی کمانڈوز کو سری نگر‘ مقبوضہ کشمیر جانے کی اجا زت دی گئی ہے۔ یہ وہ کمانڈوز ہیں جو براہ راست اسرائیل کی خفیہ ایجنسی'' موساد‘‘ کے تحت کام کرتے ہیں۔ یہ کمانڈوز بھارت سے کئے جانے والے تکنیکی معاہدے کی آڑ میں مقبوضہ کشمیر میں ابھرنے والی حالیہ آزادی کی تحریک کو '' دہشت گردی‘‘ کا نام دے کر کچلنے کے لئے بھارتی فوج کے ساتھ مل کر کام کریں گے جس کا معاہدہ بھارت کی وزارت دفاع نے 2015ء میں کشمیر میں ہونے والی '' دہشت گردی‘‘ کے خاتمے کے لئے ایک ایم او یو کے ذریعے اسرائیلی حکومت سے کیا تھا۔ اس کے بعد 2016ء میں دہلی میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان ایک دستاویز پر دستخط ہوئے اور پھر اسی دستاویزی معاہدے کی روشنی میں اسی ماہ اکتوبر2016ء میں نئی دہلی میں بیٹھے ہوئے ان اسرائیلی کمانڈوزکو مقبوضہ کشمیر میں داخلے کی با قاعدہ اجا زت دے دی گئی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کی موساد سے متعلق یہ کمانڈوز کیا ڈیڑھ ماہ سے نئی دہلی میں ہی بیٹھے ہوئے تھے؟ کیا 45 دنوں پر محیط اس طویل عرصے کا ان کمانڈوز کی نقل و حرکت کا بھارت کے پاس کوئی ریکارڈ موجود ہے؟ ان 1200 اسرائیلی کمانڈوز کو دہلی میں کہاں کہاں ٹھہرایا جاتا رہا؟ بھارت اور اسرائیل کے درمیان دستخط کی جانے والی دستاویز کے مطا بق ان کمانڈوز کا بھارت اور اب مقبوضہ کشمیر میں عرصہ قیام کتنا ہو گا؟ اور کیا ہماری وزارت خارجہ اور تمام خفیہ ادارے ان کی بھارت میں موجود گی سے بے خبر تھے؟ اگر تھے تو اس پر احتجاج کیوں نہیں کیا؟ موساد کے ان کمانڈوز کی بھارت آمد اور 17 اکتوبر کو بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے مانڈی مدھیہ پردیش کے جلسہ عام میں کی جانے والی تقریر کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ اپنی اس تقریر میں مودی نے بڑے فخر سے کہا کہ '' سرجیکل سٹرائیک کرنے میں بھارت اور اسرائیل کی فوجوں کا دنیا میں کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا اور بھارتی عوام کو فخر ہونا چاہئے کہ ان کی فوج اور اسرائیل کی فوجی مہارت اب ایک جیسی ہو چکی ہے اور شجاعت وبہادری کی وہ داستانیں جو کبھی صرف اسرائیلی کمانڈوز کے بارے میں مشہور تھیں، اب ان کا ذکر بھارتی فوج کے ساتھ بھی شروع ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کل تک بھارت کی دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں انگلیاں اٹھانے والے دنیا بھر کے سفارتی اور دفاعی ادارے اب بھارتی سینا کے سورمائوں کی صلاحیتوں کا بھی اسی طرح اعتراف کرنے لگے ہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل سے بھارتی فوج کا موازنہ اس سے پہلے کبھی کیوں نہیں ہوا؟ نریندر مودی کے بیانات اور تقریروں میں یہ یک دم تبدیلی اور مماثلت کیا پس منظر لئے ہوئے ہے؟