"MABC" (space) message & send to 7575

پُش اَپس اور سلیوٹ

کرکٹر پش اپس اور سلیوٹ سے کسی کو کیا پیغام دیتے ہیں یہ ہے وہ سوال جو مسلم لیگ نواز کی حکومت نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں سے پوچھا ہے۔۔اگر پش اپس اور سلیوٹ نہیں تو کیا یہ لوگ اپنی قومی ٹیم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ میچ جیتنے کی خوشی میں بڑھکیں مارنا شروع کر دیں؟۔ نفرت اور ناپسندیدگی کا اندازہ کیجئے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں سے کوئی بھی کھلاڑی جب سینچری سکور کرتا یا قومی کرکٹ ٹیم کوئی بھی ون ڈے، ٹی ٹونٹی اور ٹیسٹ میچ جیتتی تو وہ گرائونڈ کے اندر پش اپس لگاکر سینچری بنانے یا مخالف ٹیم سے میچ کی جیت کی خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ یہاں تک تو حکومت برداشت کرتی رہی لیکن پش اپس کے فوری بعد ٹیم کے کھلاڑیوں کا کھڑے ہو کر با ادب سلیوٹ پر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئوں کی بھنوئیں تننے لگیں کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے بآ دب کھڑے ہو کر سلیوٹ مارنے سے شاہی خاندان اس قدرپریشان تھا کہ آخر تنگ آ کر دربار شاہی سے حکم صادر ہو ا کہ بند کرو یہ پش اپش اور سلیوٹ کیونکہ ا س سے قوم کو یہ تاثر پہنچ رہا ہے کہ ان لوگوں نے چونکہ فوج کی کاکول اکیڈیمی سے جسمانی تربیت حاصل کی ہے اس سے قوم تک یہ تاثر پہنچتا ہے کہ ٹیم کی کامیابیوں کا سہرا فوجی تربیت کی وجہ سے ہے اور حکومت کا کوئی نام ہی نہیں لیتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر ٹیم فوج کی طرح سلیوٹ کرنے لگ جائے تو جمہوریت کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس چھوٹی سی بات سے آپ سیرل المیڈا کی خصوصی خبر کا پس منظر بھی بآسانی سمجھ سکتے ہیں؟۔اگر صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آپ کو اپنے ہی ملک کی فوج کی کامیابی یا اس کے بارے میں کسی کا بھی اظہار پسندیدگی اچھا نہیں لگتا تو پھر اس ملک کا دفاع کس طرح ممکن ہے؟۔اگر ملکی فوج کے کسی حصے کو اس کی بہترین کارکردگی پر خراج تحسین پیش نہ کیا جائے تو شائد آپ نہیں جانتے کہ ان کے مورال پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے موجو دہ کھلاڑی تو حیران ہوئے ہی ہیں لیکن سابق کھلا ڑی بھی یہ خبر سنتے ہوئے دم بخودرہ گئے ہیں کہ کرکٹ بورڈ کا کام اب یہی رہ گیا ہے کہ کھلاڑیوں نے میچ جیتنے کی خوشی میں یا کوئی بڑ ا انفرادی ا سکور کرنے کے بعد اس کا اظہار ایسے نہیں کرنا بلکہ ایسے کرنا ہے؟۔ کرکٹ ٹیم کے ایک کھلاڑی سے دوبئی میں جب بات ہوئی تو اس نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر کہاــہمیں انتہائی غصے سے پوچھا جاتا تھا'' یہ لڑکے کس کو سلیوٹ کرتے ہیں‘‘اس سے یہ بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ انہیں اصل مسئلہ اس سے ہے اور گرائونڈ میں کھڑے ہو کر جب براہ راست یہ منا ظر دنیا بھر میں دیکھے جاتے ہیں تو شائد اس سے انہیں الرجی ہو جا تی ہے اور شائد یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ جس پر تنگ آ کر مسلم لیگ نواز نے اپنے زیر اثر اور محتاج کھلاڑیوں کو اس سلیوٹ سے روک دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا طاقتور حکمران ان کھلاڑیوں کے دلوں سے بھی پاکستان کی فوج کا احترام ختم کر سکیں گے؟۔
مجھے پاک فوج کے ایک لیفٹیننٹ کی کوئٹہ میں کہی ہوئی وہ بات کبھی بھی نہیں بھولے گی'' تم ہمیں احترام دو ہم بدلے میں اپنی جان دیں گے‘‘ آپ ایک آواز دیں ہم سر کے بل چل کر آپ کی ڈھال بنیں گے۔۔۔لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے جب یہ خبر کیپٹن روح اﷲ شہید کے گھر والوں تک پہنچی ہو گی جب یہ خبر لائن آف کنٹرول پر ہر وقت بھارت کی گولہ باری کا سامنا کرنے والے جوانوں اور افسروں کو ملے گی جب یہ خبر سیا چن کے سرد ترین اور جسم کو منجمد کرنے والی سردی میں وطن عزیز کی حفاظت کرنے والوں تک پہنچے گی تو وہ سوچیں گے کہ اگر'' ان سے ہمارے حترام میں ایک سلیوٹ گوارا نہیں تو اگر ہم اپنی جانوں پر کھیل کر پاک وطن کی خاطر ان کے محلات اور سونے کی کرسیوں کو بر قرار رکھنے کی خاطر اپنے بچوں کو یتیمی کا داغ، اپنی گھر والیوں کو بیوگی کے سپرد اور ماں باپ کی گودوں کو ویران کر دیں گے۔۔۔تو ہو سکتا ہے کہ اس قسم کے حکمران ہمیں اپنی قبروں میں احترام سے ہماری ہی یونٹ کے جوانوں کا سلیوٹ مارتے ہوئے دفنانے بھی نہ دیں؟۔دنیا بھر میں استاد کے احترام کا دن منایا جاتا ہے اور کسی نے اگر کوئی چھوٹی سی بات بھی سکھائی ہو تو اچھے لوگ اس کا احترام کرتے ہیں ایسے استاد کہیں بھی مل جائیں انہیں دور سے دیکھ کر سلام کرتے ہیں اور کرکٹ ٹیم کے یہ کھلاڑی جو تقریباََ ایک ماہ ملٹری اکیڈیمی کاکول میں اپنے ہی ملک کی فوج کے مہمان رہے اور اپنے جسموں کو چست وچالاک رکھنے کیلئے تربیت حاصل کرتے رہے ان سے مذہب کے بارے میں روحانی سبق حاصل کئے کیا ایسے لوگوں کا احترام گناہ ہے؟۔سلیوٹ تو احترام کی علامت ہوتا ہے اور ہماری کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی اپنے استادوں کا اگر اس طریقے سے احترام کرتے ہیں تو کیا برا ہے؟۔
درویش دانشور اشفاق احمد مرحوم نے لکھا ہے کہ جرمنی میں تدریسی فرائض کی انجام دہی کے دوران ایک دفعہ ان کا غلط پارکنگ پر چالان ہو گیا اور پولیس نے انہیں عدالت میں پیش ہونے کیلئے جو وقت دیا تھا وہ اس دن وہاں نہ پہنچ سکے جس پر انہیں فوری طور پر عدالت پہنچنے کا حکم جاری ہو گیا۔ بھاگم بھاگ جب عدالت پہنچا تو مجسٹریٹ نے پوچھا کہ آپ غیر حاضر کیوں ہوئے؟۔ جس پر انہیں بتایا کہ میں یونیورسٹی میں پڑھا رہا تھا اور کلاس چھوڑ کر آنا ممکن نہیں تھا۔۔۔یہ سنتے ہی مجسٹریٹ اپنی کرسی سے اچھلا اور کہنے لگا آپ استاد ہیں اور جب میں نے اثبات میں سر ہلایا تو عدالت میں بیٹھے ہوئے سب لوگوں سے کہا'' استاد‘‘ اور یہ سنتے ہی عدالت میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ اپنی نشستوں سے احتراماََ کھڑے ہو گئے اور مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔۔
جو بھی پش اپس سلیوٹ پر پابندی کی بات سن رہا ہے اسے یقین ہی نہیں آ رہا کہ اس قدر تنگ دلی بھی ہو سکتی ہے؟۔فوج آپ کی حریف تو نہیں؟۔یہ تو آپ کے اپنے ہی ملک کی فوج ہے جس نے راہ حق، راہ نجات اور ضرب عضب میں اپنے سر کٹوائے ہیں یہ وہی فوج ہے جس کے افسروں اور جوانوں کے سروں کو کاٹ کر دہشت گردوں نے فٹ بال کی طرح ٹھو کریں ماری ہیں۔۔۔کبھی آپ نے ان کے بچوں سے پوچھا ہے۔، کبھی آپ نے ان کے والدین کی حالت دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے دلوں پر کیا گزر رہی ہے؟۔آپ کو تو شائد یہ بھی علم نہیں ہو گا کہ کئی ماں باپ یہ مناظر ٹی وی پر دیکھنے کے بعد دل کے دورے سے اپنی جان ہار چکے ہیں؟۔سوچئے ان کے معصوم بچے جب جوان ہوں گے وہ ہوش سنبھالیں گے اور انہیں جب پتہ چلے گا کہ ان کی باپ کی لاشوں کی کس برے طریقے سے بے حرمتی کی گئی تھی، ان کو کس بد ترین طریقے سے زمین پر لٹا کر ذبح کیا گیا تھا تو ان کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی ان شہیدوں کے بچے اور ان کے والدین جب یہ سنیں گہ جن کی کرسیوں اور تاج و تخت کی خاطر ہمارے باپ اور بیٹوں نے گردنیں کٹوائیں خود کو ذبح کرایا انہیں پہچاننا تو دور کی بات ہے ان کو تصور میں مارے جانے والے سلیوٹ کو بھی برداشت نہیں کیا جا رہا تو ان پر کیا گزرے گی۔یہ فیصلہ کہاں ہوا، کس نے کیا اور کیوں کیا یہ پوشیدہ نہیں رہ سکا اور جاننے والے جان گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں