''کشمیر پر بھارتی قبضہ ناجائز، غیر منصفانہ، جھوٹا اور Untenable ہے‘‘۔ یہ تاریخی جملہ دنیا کے عظیم لیڈر آنجہانی نیلسن منڈیلا نے NAM کانفرنس میں اپنی صدارتی تقریر کے دوران بھارتی وفدکے ڈیسک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ انہوں نے اس کانفرنس کے شرکاء اور دنیا کے تمام لیڈروںکو وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا: ''ہو سکتا ہے کل میں اس دنیا میں نہ رہوں لیکن اگر آپ سب نے مل کر جلد ہی کشمیر کا کوئی پرامن تصفیہ نہ کرایا تو یہ گلوبل امن اور علاقائی سلامتی کے لئے اس قدر خطرناک ہو جائے گا کہ اکیسویں صدی کی پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ جائے گی‘‘۔ پھر NAM کے لوگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے خبردارکیا تھا کہ ''اس صورت میںاس قسم کی سب تنظیمیں بے معنی ہو کر رہ جائیںگی‘‘۔ جہاں دیدہ لیڈر نیلسن منڈیلا کے یہ الفاظ مقبوضہ کشمیر پر چھائے ہوئے بھارتی فوجوں کے بد ترین ظلم و تشدد کی وجہ سے پاکستان اور بھارت جیسی نیوکلیئر طاقتوں کے کسی بھی وقت آمنے سامنے آنے کی صورت میں سچ ثابت ہو سکتے ہیِں۔
دنیا کے مشہور ترین فلاسفر، سکالر، ماہر لسانیات اوردانشور پروفیسر نوم چومسکی نے بھارت سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر اپنی فوجیں کشمیر سے واپس بلا لے کیونکہ اس کی وجہ سے وادی کشمیر میں وحشیانہ سفاکیت جنم لے رہی ہے۔ نوم چومسکی کہتے ہیں: ''میں جانتا ہوں کہ بھارت کو میری یہ بات پسند نہیں آئے گی کیونکہ کچھ عرصہ قبل یہی مشورہ میں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے دورۂ ہندوستان میں بھی دیا تھا جس پر مجھے کہیں بھی آنے جانے کے لئے پولیس کی بھاری سکیورٹی کا سہارا لینا پڑا تھا کیونکہ بھارتی جنتا پارٹی کے لوگوں نے میرے ہوٹل کے باہر مخالفانہ مظاہرے کرتے ہوئے دھمکیاں دینی شروع کر دی تھیں‘‘۔
26 مارچ 2004 ء کو برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک سٹرا نے ایریا سٹڈی سنٹر پشاور یونیورسٹی میں پاک برطانیہ تعلقات پر کرائے گئے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ''پاکستان اور بھارت کے درمیان1947ء سے چلے آ رہے مسئلہ کشمیر کا اگر کوئی پائیدار حل نکل آتا ہے تو اس سے پاکستان اور مغرب کے درمیان غلط فہمیوں اور نفرتوں کا سلسلہ کم ہوتے ہوتے ختم ہو جائے گا اور اس سے دہشت گردی کے لئے نوجوان ذہنوں میں پلنے والی انتہا پسندی بھی ختم ہو جا ئے گی‘‘۔کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ جیک سٹرا کے بعد برطانوی حکومت کی سمتیں تبدیل ہو گئی ہیں؟ برہان مظفر وانی کی دلیرانہ شہادت نے کشمیر کے بچے بچے کے اندر قوت ایمانی اور سرفروشی کی ایسی آگ بڑھکا دی ہے کہ پچاس روز گزر جانے کے باوجود اس میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی، جس نے بھارتی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ پیلٹ گنوں کے وحشیانہ استعمال کے باجود کشمیریوں کے بچے بچے کو آنکھوں کی روشنی اورکانوں کی بصارت سے محروم کرنے کے با جود ان کے اندر آزادی کی تڑپ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور یہ مشروم کی طرح پوری وادی میں پھیلتے جا رہے ہیں۔
اقوام عالم جو آج مصلحتوں اور تہذیبوں کے تصادم کے نام پر مجرمانہ غفلت کا شکار ہو کر خاموش بیٹھی ہوئی ہیں، انہیں جان لینا چاہیے کہ کشمیر کسی نام کی وجہ سے پریشان کن مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک قوم کا مسئلہ ہے جو اپنی آزادی پر قابض ظالم ترین طاقت کی غلامی سے جلد از جلد باہر نکلنا چاہتی ہے۔ 30 اکتوبر1947ء کو ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہروکی لیاقت علی خان کو بھیجی گئی بھارت سرکارکی وہ ٹیلی گرام اقوام متحدہ کے سامنے رکھی ہوئی ہے، جس میں بھارت نے وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا: ''ہم آپ کو مکمل یقین دہانی کراتے ہیں کہ جیسے ہی امن قائم ہونے سے حالات بہتر ہوجائیںگے، ہم اپنی تمام فوجیں کشمیر سے نکال لیں گے اور پھر یہ کشمیریوں کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور اس بات کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کرایا جائے گا۔ میرا اور بھارتی حکومت کا یہ وعدہ صرف پاکستان ہی سے نہیں بلکہ کشمیریوں اور دنیا بھر سے بھی ہے کہ ہم رائے شماری کے نتائج کا پوری ایمانداری اور سپرٹ سے احترام کریںگے‘‘۔ پنڈت نہرو نے 1948ء میں جب کشمیر پر سیز فائر کے لئے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تو اقوام متحدہ نے 13 اگست کو جو قرار داد منظورکی اس میں صاف اور واضح طور پر لکھا ہے کہ
The question of the accession of the state Jammu and kashmir to India or Pakistan will be decided through the democratic method of a free and impartial plebiscite۔۔۔
جو ممالک اور عالمی شخصیات بھارت کو سب سے بڑی جمہوریت کہہ کر پکارتے ہیں، اسے سکیورٹی کونسل کی مستقل رکنیت دینے کی باتیں کر تے ہیں، ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ جو ملک اکیسویں صدی میں دوسری قوموںکو زبردستی غلام بنا کر رکھے، آزادی کے نعرے لگانے والے معصوم لڑکوںکو پیلٹ گنوں سے اندھا کرنا شروع کر دے، اس کو سلامتی کونسل کی مستقل نشست دینا تو کجا، اسے کوئی بھی مہذب معاشرہ اپنے ساتھ بٹھانے کا حق بھی کیونکر دینے کو تیار ہو سکتا ہے؟
اقوام متحدہ کے ہر آنے والے سیکرٹری جنرل کی میز پر کشمیر کے بارے میں منظورکی جانے والی قرار دادیں موجود ہوتی ہیں جن میں لکھا ہوا ہے کہ ''سیکرٹری جنرل، اقوام متحدہ کمیشن کی رائے سے کشمیر میں ایک PLABISCITE ADMINISTRATOR مقرر کریںگے جس کی ایمانداری، اصول پرستی اور غیر جانبداری مسلمہ ہوگی اور جسے سب فریقوں کاا عتماد حاصل ہو گا‘‘۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اوفا کانفرنس کے وقت دنیا ٹی وی نے پاک بھارت مشترکہ اعلامیہ پر کامران شاہدکی میزبانی میں پاکستان اور بھارت کے سینئر اور منجھے ہوئے صحافیوں اور سابق فوجی افسروںکے مابین ایک ڈائیلاگ کا اہتمام کیا تھا، جس میں بھارتی ٹی وی سے منسلک میزبان نے کہا تھا: ''بھائی آپ کس کشمیرکی بات کر رہے ہیں، اسے تو اب ہماری پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر بھارت کا حصہ اور صوبہ بناتے ہوئے اپنے ساتھ با قاعدہ طور پر شامل کر لیا ہے‘‘۔ یہی الفاظ کلدیپ نیر نے 2009ء میں اپنے مضمون میں اس طرح لکھے تھے: Kasmir has been declared a part of India by a two third majority in both the houses of India''۔۔۔۔کلدیپ نیر سمیت بھارتی دانشوروں کا مسئلہ کشمیر پر استدلال یہ ہے کہ جب تک بھارت کے دونوں ایوان دو تہائی اکثریت سے اجا زت نہ دیں، بھارتی حکومت کشمیر پر کسی بھی فیصلے تک نہیں پہنچ سکتی۔ شاید کلدیپ نیر اور بھارت کے تمام دانشور اقوام متحدہ میں پنڈت نہروکی بھیجی جانے والی ٹیلی گرام سے مکمل طور پر بے خبر ہیں۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی، ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی اور کلدیپ نیر کے علاوہ پورا بھارتی میڈیا مسئلہ کشمیر پر اپنی حکومت کی ہدایات پر جو کہانیاں تراش رہا ہے ان کی حیثیت سوائے ہٹ دھرمی کے اور کچھ بھی نہیں، بلکہ اگر پورا بھارت سچ سننے کی ہمت اور طاقت رکھتا ہے تو بھارت کے سابق سیکرٹری اطلاعات و نشریات ایس ایس گل کی کتابTHE DYNASTY کے یہ الفاظ پڑھ لے: ''For India, Kashmir has become a self-inflicted wound that has bled her over the years and destroyed India's foreign policy perspectives.''۔۔۔ایس ایس گل یہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ ''کشمیر پر بھارت کی کمزور پوزیشن نے اسے اخلاقی اور سفارتی محاذ پر ختم کر کے رکھ دیا ہے‘‘۔ لیکن آج بھارت کی خوش قسمتی دیکھیے کہ کشمیر کا سب سے بڑے فریق پاکستان کا وزیر اعظم بھارت کو اس دلدل سے نکال رہا ہے۔۔۔!