پاکستان جیسے ہی اکھنور پر قبضہ کرنے کیلئے آگے بڑھنے لگا ایک عجیب و غریب حکم نے آگے بڑھتی ہوئی فوج کو سن کر کے رکھ دیا کہ جنرل اختر ملک سے کمان واپس لے کر یحییٰ خان کو سونپ دی گئی ہے ایسا نہ کبھی پہلے انہوں نے دیکھا اور نہ ہی سنا تھا اور ان کے قدم روک دیئے گئے ان کے ہاتھ اپنی گنوں سے باندھ دیئے گئے ان کی توپوں کے دہانے اداس ہو کر رہ گئے۔ آگے گئے OP حواس با ختہ ہو گئے کہ ٹارگٹ ان کی زد میں ہیں اور ادھر سے کوئی جواب ہی نہیں مل رہا جب کہ جواب یہ تھا کہ آپریشن جبرالٹر کو ناکام بنانے اور بھارت کی کھلم کھلا مدد کرنے کیلئے امریکہ نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے اسے اکھنور پر قبضہ کرنے سے روک دیا تھا‘‘ یہ ہے وہ تلخ حقیقت ہے جس کا مضمون میں انکشاف کر رہا ہوں۔ ملک کے اندر اور باہر مقیم جنگ ستمبر میں براہ راست حصہ لینے والے پاکستانی فوج اور ائر فورس کے انتہائی سینئر افسران کے ایک گروپ سے دو ہفتوں سے آپریشن جبرالٹر کی کامیابی اور نا کامی کے پہلوئوں پر سیٹلائٹ کے ذریعے رابطے رہے بہت سی نئی معلومات ملتی رہیں لیکن اکھنور کی فتح پر امریکی مداخلت کے بارے میں اپنی یہ خبر ان تمام معزز ساتھیوں کو اپنے اس مضمون کے ذریعے شیئر کر رہا ہوں۔ جنگ ستمبر شروع ہونے سے چند روز قبل چھمب جوڑیاں کو فتح کرنے کے بعد جب پاکستانی افواج اکھنور پر قبضہ کرنے ہی والی تھی تو فوری طور پر اس کی کمان جنرل اختر حسین ملک سے چھین کر جنرل یحییٰ خان کے سپرد اسی لئے کی گئی تھی کہ اس دوران بھارت کو اکھنور کے دفاع اور انٹر نیشنل بارڈر کراس کرنے کیلئے شاستری کی کھیم کرن ریلوے اسٹیشن کے ریسٹ روم میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں پاکستان کو مرضی کے محاذ پر جنگ کی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وقت مل جائے ؟۔ وہ لوگ جو جنرل اختر ملک کو تفویض کئے گئے مشن میں ناکام ہو نے کا الزام لگاتے ہیں وہ اس مرحوم غازی مرد مجاہد سے سخت نا انصافی کر تے رہے ہیں ؟۔ آپ جنرل ملک کو تب الزام دیتے اگر کمان ان کے پاس رہتی؟ جب ایسا نہیں تھا تو پھر اس انتہائی نازک موقع پر اتنا بڑا بلنڈر کیوں اور کس کے کہنے پر کیا گیا؟۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے حقائق قوم کو جاننے کا پورا پورا حق ہے ۔جنرل اختر ملک کی زیر کمان ایک بریگیڈئر کوجسے جنرل ملک کی جگہ چھمب جوڑیاں کی کمان یحیٰ خان کے سپرد کئے جانے کا پہلے سے ہی علم ہو چکا تھا اور جو خود کو یحییٰ خان کیمپ کا آدمی کہتا تھا اس نے چوبیس گھنٹوں تک اپنے ریڈیو ٹرانسمیٹراور وائر لیس کو مردہ کیوں کئے رکھا؟۔ ا س کے متعلق لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی اپنی کتاب میں بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔۔۔جنرل محمود صاحب سے گزارش ہے کہ وہ امریکہ کی اکھنور پر پاکستانی فوج کو قبضہ سے روکنے کی اس مداخلت کے بارے میں بھی ثبوت تلاش کریں جس کا انہوں نے اپنی اس کتاب میں ذکر نہیں کیا؟۔
جنرل ایوب خان نے آپریشن جبرالٹر کا فیصلہ کسی مہم جوئی کیلئے نہیں بلکہ بہت سوچ بچار کے بعد کیا۔۔۔ بھارت کی سپریم کورٹ اور لوک سبھا نے جب مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے بھارت میں باقاعدہ ضم کر لیا تو اس کا صاف صاف مطلب پاکستان اور دنیا بھر کو یہ پیغام دینا تھا کہ'' اقوام متحدہ کی قرار داد یں بھارت جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے ا علان کر رہا ہے کہ اب کشمیر نام کا کوئی متنازع اور عالمی مسئلہ نہیں رہ گیا بلکہ اب ہم کشمیر کا وہ حصہ جس پر پاکستان نے قبضہ کیا ہوا ہے اسے بزور طاقت واپس لیں گے ‘‘ ۔ اب عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور آزاد کشمیر پر بھارت کے کسی ممکنہ حملے سے پہلے ہی جبرالٹر اور گرینڈ سلام جیسے آپریشن کا آغاز کرنا پاکستان کیلئے لازمی ہو گیاتھا۔ بھارت کے ان اقدامات اور رن آف کچھ کی ہزیمت کے بعد پاکستان کو دھمکیوں کی اصل وجہ وہ دو نئے پہاڑی ڈویژن تھے جو بھارت نے چین سے جنگ کی آڑ میں امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا کی مدد سے کھڑے کئے تھے کیونکہ جنرل چوہدری جانتا تھا کہ بھارت کے ان دو پہاڑی ڈ ویژنوں کے مقابلے میں پاکستان کے پاس سرے سے پہاڑی ڈویژن نام کی کسی شے کا وجود ہی نہیں؟۔
جنرل ایوب خان کے سامنے کشمیر کو بھارتی قبضہ سے آزاد کرانے کیلئے تین اسباب تھے(1) بھارتی سپریم کورٹ اور لوک سبھا کے فیصلوں کے خلاف عالمی رائے عامہ کو متوجہ کرنا(2) 62ء میں بھارتی
فوج کی چین کے ہاتھوں اور رن آف کچھ میں پاکستان سے بننے والی درگت سے بھارتی فوج اور عوام کے گرے ہوئے مورال کو بلند کرنا(3) کمیونسٹ چین سے جنگ میں بری طرح شکست کھانے کے بعد امریکہ کی جانب سے بھارت کو جدید ترین اسلحہ اور ہوائی جہازوں کی بے تحاشا سپلائی شروع ہو چکی تھی اور جنرل ایوب خان کے پاس اس کے فوجی ذرائع سے اطلاعات تھیں کہ ابھی بھارتی فوج امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کے اس اسلحہ کے استعمال سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہو سکی اور یہ بھی اطلاع پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں مہیا کر چکی تھیں کہ امریکہ مزید اسلحہ بھارت کی نذر کرنے جا رہا ہے اور اگر اس اسلحہ کے استعمال میں بھارتی فوج ماہر ہو گئی تو پھر بھارت آزاد کشمیر سیکٹر پر لازمی چھیڑ خانی کرے گا۔ جنرل ایوب خان فیصلہ کر چکے تھے کہ سانپ کے پھن اٹھانے سے پہلے ہی اُسے کچلنا بہتر ہو گا یہ وہ وجوہات تھیں جنہوں نے جنرل ایوب خان کو آپریشن جبرالٹر پر آمادہ کیا ؟۔اور اس کیلئے میجر جنرل اختر حسین ملک اور پاک فوج کے 12ڈویژن کو ضروری اقدامات کی ہدایات جاری کر دی گئیں۔
آپریشن جبرالٹر شروع کرنے سے پہلے مقبوضہ کشمیر کے اندر پاکستانی فوج کے کمانڈوز کو اتارنے ان کی مقامی امداد اور ٹارگٹس کی درست نشاندہی کیلئے رابطے انتہائی ضروری تھے اس لئے جولائی میں جموں وکشمیر کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس جن کا وہاں پر بہت عزت و احترام تھا ان کے بیٹے لیفٹیننٹ کرنل قیوم جو بعد میں میجر جنرل کے عہدے سے بطور سگنل انچیف ریٹائر ہوئے کو کوئٹہ سٹاف کالج سے جولائی میں وادی کشمیر میں بھیجا گیا کرنل قیوم ائر مارشل اصغر خان کے کزن اور میجر جنرل سمیع کے بھائی ہیں۔ کرنل قیوم نے و ادی کشمیر میں رابطوں کے علا وہ وہاں پر صدائے کشمیر کے نام سےGR-26 سگنل سے ریڈیو سٹیشن کا آغاز بھی کر دیا۔
کرنل قیوم کے وادی کشمیر میں رابطوں کے بعد یہ الزام قطعی غلط ثابت ہوتا ہے کہ آپریشن جبرالٹر پر کشمیریوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔میں چند سکیورٹی وجو ہات کی بنا پر وادی کے ان چند کشمیری رہنمائوں اور با ثر لوگوں کے نام لکھنے سے قاصر ہوں جن سے رابطے کئے گئے تھے لیکن افسوس کے ساتھ ان کی تفصیل بتانے کے علا وہ صرف اتنا اشارہ دے دیتا ہوں کہ ان میں سے دو نے بھارتی فوج کو وادی میں داخل ہونے والے پاکستانی کمانڈوز کی مخبری کر دی اور چند ایک نے ان سے صرف ہاتھ ملانے پر ہی اکتفا کیا۔بھارتی فوج کو جن علا قوں میں ان کمانڈوز کے اترنے کی اطلاعات فراہم کی گئی تھیں وہاں پر کومبنگ آپریشنز کے ذریعے کھانے پینے کی تمام اشیا کو بھارتی فوجی اپنے ساتھ لے گئے۔ساتھ ہی بھارتی فوج کے ان مخبروں نے مشہور کر دیا کہ پاکستان کے قبائلی پٹھانوں کووادی میں اتار دیا ہے جو لوٹ مار کریں گے۔ جنرل اختر ملک کی کمان میں آپریشن جبرالٹر کو شروع سے ہی کامیابیاں ملنا شروع ہو گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے چھمب جوڑیاں کے بعد جب اکھنور کی جانب پاکستان کا دبائو بڑھنے لگا تو امریکہ کے حکم پر ان سے کمان چھین لی گئی اور پھر بھارتی فوج نے 6ستمبر کی صبح لاہور پر حملہ کر نے کے ساتھ ساتھ کشمیر میں ٹیٹوال سیکٹر سے چڑھائی شروع کر دی ۔۔۔!!