"MABC" (space) message & send to 7575

جناب ! دلی دور نہیں

'' ہنوز دلی دور است‘‘ کہنے والوں کا انجام کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ وقت آ گیا ہے کہ ملکی سلامتی کے تمام اداروں کو اپنی تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا اپنی اپنی مصلحتوں کے ساتھ۔ جس طرح بنی اسرائیل کے لئے اﷲ نے من و سلوی اتارا تھا، اسی طرح کرۂ ارض پر پاکستان کی صورت میں ہمیں اس سر زمین سے نوازا گیا ہے۔ ہم نے بھی بنی اسرائیل کی طرح پاکستان کی شکل میں ودیعت کئے گئے اس انعام سے منہ پھیرا تو پھر انجام بتانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر آپ اس ملک کی سلامتی کے لئے مخلص ہیں، اس ملک کے سچے سپاہی ہیں، اگر اسے بد عنوانی اور بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھنے کا حلف اٹھایا ہوا ہے تو پھر آپ کو بغیر کسی تفریق کے وطن دشمنوں کے لئے ننگی تلوار بننا ہو گا اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر خدا را یہ فرض کسی اور کو سونپ دیں۔
لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے بھیجی گئی خفیہ رپورٹ یقیناً آپ کے پاس کب کی پہنچ چکی ہو گی اور اس میں شرکاء کی جانب سے کہے گئے ایک ایک لفظ، ایک ایک فقرے سے آپ آگاہ بھی ہو چکے ہوںگے۔ کوئی ایک ماہ قبل حسین حقانی اور اس کے سرپرستوں کی جانب سے لندن میں پاکستان کے خلاف بلائی گئی کانفرنس میں الفاظ کی برچھیوں سے پاکستان اور اس کی افواج کا سینہ چھلنی کیا گیا۔ وہ کونسی قیامت ہوگی جو لندن میں اکٹھے ہوئے ان بد بختوں نے بین الاقوامی پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر نہیں ڈھائی۔ وہ کونسا گھٹیا ترین الزام ہوگا جو اس پاکستان دشمن گروہ نے نہیں لگایا۔ لندن کی اس کانفرنس میں تقاریر کے دوران پاکستان کی فوج کو ایک پالتو جانور کے نام سے پکارتے ہوئے جس طرح تالیاں بجائی گئیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جو کچھ اس کانفرنس میں کہا گیا وہ الفاظ نہیں بلکہ پگھلا ہوا سیسہ تھا جو پاکستانیوں کے کانوں میں انڈیلا گیا۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لئے واپسی ٹکٹ اور تین دن اعلیٰ ترین ہوٹلوں میں قیام کا پیغام ملتے ہی میڈیا کی بہت سی خواتین بھاگم بھاگ لندن جا پہنچیں اوران میں ایک خاتون اینکر نہ جانے کس جذبے سے تالیاں پیٹے جا رہی تھی جسے وزیر اعظم ہمیشہ غیر ملکی دوروں میں اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور جب بھی وہاں میڈیا سے سوال و جواب کا مشکل مرحلہ پیش آتا ہے تو وہ خود اس خاتون کا نام لے کر فرماتے ہیں کہ اس کوسوال کرنے دیں، باقی رہنے دیں۔ 
پاکستان سے چن چن کر ایسے لوگوں کو لندن بلایا گیا جنہیں پاکستانی فوج کی وردی سے اسی طرح نفرت ہے جس طرح نریندر مودی کو۔ ایک نکتہ انتہائی اہم ہے کہ اس کانفرنس میں شریک تمام دانشور اور میڈیا کے لوگ پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ عمران خان کی مخالفت میں بولتے رہے، جس سے لگتا ہے کہ وہ بھی اب ان وطن فروشوں کا مشترکہ نشانہ بن چکا ہے۔ بھارت کے ہر دوسرے ٹی وی چینل پر صبح شام بیٹھ کر اسلام اور پاکستان کو گالیاں بکنے والا طارق فتح بھی اس کانفرنس کا دولہا بنا ہوا تھا۔ یہ طارق فتح وہی ملعون ہے جس نے نبی پاک ﷺ کی شان میں یاوہ گوئی کو اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے۔ ایک خاص بات جو میں پچھلے بارہ برسوں سے مسلسل کہتا چلا آ رہا ہوں کہ عدلیہ کی آزادی کے نام سے فو ج کے خلاف تحریک اور اس خاتون کی کتاب دونوں ایک ہی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ ایک بات ہر محب وطن پاکستانی کو سامنے رکھنا ہو گی کہ وہ تحریک عدلیہ کی آزادی کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کی فوج اور اس کی وردی کی تضحیک اور بے حرمتی کے لئے شروع کی گئی تھی کیونکہ اس تحریک کے دوران فوج کی وردی والی تصاویرکو زمین پر پھینک کر نامعلوم افراد کی جانب سے جوتوں سے روندا جاتا اور پھر یہ تصاویر ٹی وی چینلز اور اخبارات کے ذریعے دنیا بھر میں خصوصی طور پر دکھائی جاتیں۔
حسین حقانی، طارق فتح، ایم کیو ایم کے واسع جلیل اور بشریٰ گوہر کے علاوہ اس پاکستان دشمن سیمینار میں شرکت کرنے والوں میں بہاولپورکی یہ خاتون بھی خاص طور پر پہنچی ہوئی تھی، لیکن انتہائی با خبر ذرائع کے مطابق اس خاتون نے12 سے18 اکتوبر تک خاموشی سے افغانستان کا دورہ کیا۔ باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ 'را‘ اور این ڈی ایس کے سینئر اہلکاروں سے اس خاتون کی تین سے زیادہ ملاقاتیں رہیں۔ اب یہ پاکستان کی خٖفیہ ایجنسیوں کا فرض ہے کہ وہ پتا کرائیں کہ بغیر کاغذات کے یہ خاتون کس طرح افغانستان پہنچی؟ اسے کس نے پی آئی اے کی فلائٹ PK-249 کے ذریعے کابل پہنچایا؟ اس سفر کے لئے وزارت داخلہ اور پی آئی اے کے کن با اثر اہلکاروں نے اس کی مدد کی؟ کیا کوئی طاقتور حکومتی سینیٹر اس کی مدد کر رہا تھا؟ قیاس ہے کہ وزارت خارجہ کی کسی اہم شخصیت کے بہت ہی قریبی عزیز اور پاکستان کے کسی سابق سفیر نے اس خاتون کی افغانستان جانے میں مدد کی۔ کیا یہ بات درست ہے کہ اس خاتون کے ساتھ افغانستان جانے والوں میں اس سابق سفیر کی اہلیہ بھی تھی کیونکہ اس سابق سفیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے 'را‘ سے بہت ہی قریبی تعلقات ہیں؟ کیا یہ خاتون اس امر سے انکار کر سکتی ہیں کہ 17 اکتوبر کو وہ سابق سفیر کی اہلیہ کے ہمراہ شہر نو کابل میں بھارتی سفارت خانے پہنچیں اور وہاں تین گھنٹے تک موجو د رہیں جہاں اس خاتون کی بھارتی سفیر کے ساتھ ساتھ 'را‘ اور این ڈی ایس کے ان لوگوں سے ملاقات ہوئی جو مولوی فضل اﷲ سمیت ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور پاکستان کے اندر مصروف عمل دوسری دہشت گرد تنظیموں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں اس کی فوج کو کسی پالتو جانور سے تشبیہ دیتے ہوئے پکارنے والے اس ملک میں واپسی پر بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے طاقتور اشخاص کے برابر بٹھا دیے جائیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں