"MABC" (space) message & send to 7575

گھر کے چور کا آئینہ

بھارت اس حقیقت سے کیسے انکار کر سکتا ہے کہ اس کی اپنی ہی انتہا پسند ہندو تنظیمیں سمجھوتہ ایکسپریس سمیت بھارت کے مختلف حصوں میںہونے والے بم دھماکوں میں ملوث تھیں۔ بھارتی حکومت اور اس کے میڈیا کو یاد ہوگا کہ جولائی 2006ء میں ممبئی کی سات ٹرینوں میں بم دھماکوں کی ایک سیریز برپا ہوئی، جس میں 190شہری ہلاک اور کم ازکم 600 زخمی ہوئے۔ جیسے ہی یہ دھماکے ہوئے، بھارت کی سرکار اور میڈیا دونوں برس پڑے کہ یہ سب ہلاکتیں اور دھماکے آئی ایس آئی نے اپنے ایجنٹوں سے کرائے ہیں۔ پریس کانفر نسیں شروع ہو گئیں، دھمکیوں پر مبنی بیانات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ بھارت کی ایجنسیوں اور دوسرے اداروں نے مجرموں کی تلاش شروع کر دی۔ جب ملزمان پکڑے گئے اور ان سے تفتیش کا سلسلہ شروع ہوا تو پتا چلا کہ ان دھماکوں میں بھارت کے طلبا تنظیم سیمی (سٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا۔۔۔SIMI) اور انڈین مجاہدین کے لوگ ملوث تھے۔ موخرالذکر وہ تنظیم ہے جو پاکستان میں فرقہ وارانہ حملوں کے لئے اپنے پاکستانی ہم خیالوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ بھارتی حکومت یا اس کی خفیہ ایجنسیاں انہیں پاکستان میں دہشت گردانہ وارداتوں کے لئے بھیجتی ہیں؟
ستمبر 2006 ء میں مالیگائوں کی حمیدیہ مسجد میں شب برات کے موقع پر نماز جمعہ کے دوران خوفناک بم دھماکہ کیا گیا، جس میں37 نمازی شہید اور 106 زخمی ہو ئے۔ اس بم دھماکے کی تفتیش ہوتی رہی، سفارتی سطح اور میڈیا کے ذریعے یہی تاثر پھیلایا گیا کہ یہ دہشت گردی مسلمانوں کے ہی دو فرقوں کی انتہا پسندی کی وجہ سے ہوئے، لیکن بھارت کی بد قسمتی کہہ لیں کہ ہیمنت کرکرے، مہاراشٹر پولیس کا ایک لبرل اور سیکولر ذہن رکھنے والا ایسا پولیس افسر تھا جو بھارت میں رہنے والے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کو باعزت شہری کی حیثیت سے دیکھتا تھا اورکسی سے اس لئے نفرت نہیں کرتا تھا کہ وہ ہندو نہیں ہے، بلکہ وہ ہر اس شخص کو بھارت کا دشمن سمجھتا تھا جو اس کے قانون اور امن و امان کا دشمن ہے۔ ہیمنت کرکرے کو 2008ء کی ایک شام ایسا سراغ ملا جس نے اس کے ہوش اڑادیے کیونکہ اس کے سامنے بھارت کی دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیم، مالیگائوںکے علاوہ بھی بہت سی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث پائی گئی تھی۔ دو سال قبل ستمبر 2006ء میں مالیگائوں کی حمیدیہ مسجد میں کئے جانے والے بم دھماکوں میں کوئی اور نہیں بلکہ بھارتی فوج کے کرنل عہدے کاایک افسر اور 8 دوسرے انتہا پسند ہندو ملوث نکلے، جنہوں نے ہرجرم کا انتہائی فخر سے اقرار کر تے ہوئے کہا کہ ہم وشوا ہند وپریشد اور راشٹریہ سیوک سنگھ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تنظیموں کی سر پرستی بھارت کی ملٹری انٹیلی جنس کا ایک حاضر سروس کرنل پروہت کر رہا ہے۔
دائیں بازوکی انتہا پسند ہندو تنظیموں سے تعلق رکھنے والے یہ 8 افراد عدالت سے بری ہوگئے۔ ہیمنت کرکرے کے لئے یہ اطلاع کسی بم دھماکے سے کم نہیں تھی کیونکہ ان سب کی تفتیش اس کے سامنے ہوئی تھی۔ اس کے باوجود اس نے ہمت نہ ہاری اور انہیں واچ لسٹ پر رکھ لیا۔ ہیمنت کر کرے نے کرنل پروہت کے معاملے کو خفیہ رکھا ہوا تھا، لیکن اس نے بھارت کی فوجی کمانڈکو اس کی اطلاع کرتے ہوئے پییش کش کی کہ اس کی طرف سے مقرر کئے گئے کسی بھی آرمی آفیسر کی موجودگی میں وہ تفتیش کے لئے تیار ہے۔ پھر ایسا ہی ہوا، جس سے بہت سے راز کرنل پروہت کی زبان سے نکل آئے۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس کے سینیٔر عہدے پر کام کرنے والا پولیس افسر جانتا تھا کہ اگر یہ خبر باہر آگئی تو پورے بھارت میں توکیا دنیا بھر میں کہرام مچ جائے گا اور بین الاقوامی میڈیا اس ایشو پر اس قدرسخت رد عمل ظاہر کرے گاکہ اسے سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے اس نے اپنے ایک انتہائی قابل اعتماد پولیس افسر کو ساتھ ملا کر انتہائی باریک بینی سے تفتیش شروع کردی، لیکن جیسے جیسے اس کی تفتیش آگے بڑھتی رہی نت نئی وارداتیں سامنے آتی گئیں۔ پھر توکوئی شک ہی نہ رہا کہ بھارت میں کی جانے والی بہت سی دہشت گردانہ کارروائیوں کے پیچھے کرنل پروہت کا ہاتھ ہے۔
19فروری2007ء کو نئی دہلی سے سینکڑوں مسافروںکو لے کر آنے والی سمجھوتہ ایکسپریس میں پانی پت کے مقام پر کئے جانے والے ایک خوفناک بم دھماکے میں 68 پاکستانی مسافر شہید کر دیے گئے، جس کا سارا بوجھ بھارت سرکار اور اس کا میڈیا نے ہمیشہ کی طرح لشکر طیبہ اور آئی ایس آئی پر ڈالتے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار دے دیا۔ لیکن وہ بھول گئے کہ قانون قدرت کا اپنا فیصلہ اور انداز ہوتا ہے۔ 2008 میں (جیسا کہ اوپر حوالہ دیا جا چکا ہے) بھارتی فوج کا ایک حاضر سروس کرنل پروہت ممبئی کی انسداد دہشت گردی فورس کے آئی جی ہیمنت کر کرے کی خصوصی تحویل میں آ چکا تھا جس نے مالیگائوں کے ساتھ ساتھ سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کا راز بھی اگل دیا۔ اس سے بھارت کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ایک انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے''سوامی سیم نند‘‘ کا نام سامنے آ گیا، جس نے جوڈیشل میجسٹریٹ کے سامنے اقرار کیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکے ہماری تنظیم نے اس لئے کیے تھے تاکہ مسلمان جو ہمارے مندروں پر حملے کر رہے ہیں، اس کا انتقام لیا جائے۔ پھر بھارتی حکومت اور میڈیا کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ سمجھوتہ ایکسپریس پر دھماکے بھارت کے انتہا پسند ہندوئوں نے ہی کئے تھے۔
خواجہ معین الدینؒ چشتی کی درگاہ اجمیر شریف میں اکتوبر2007ء میں ہونے والے بم دھماکے میں بھی آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ ملوث پائے گئے، جنہیں بعد میں نقلی داڑھیوں اور بھارت کے مختلف حصوں میں پہنے جانے والے مسلمانوں کے لباس سمیت گرفتار کر لیا گیا۔گرفتار ہونے والوں میں اس گروپ کا سربراہ سوامی سیم نند بھی تھا جس نے دوسرے ملزمان کے ہمراہ بڑے فخر سے اقرار کیا کہ ہم نے اجمیر شریف کی درگاہ میں بم دھماکہ اس لیے کیا تھاکہ وہاں ہندو عقیدت مندوں کی بہت بڑی تعداد آنا شروع ہو گئی تھی اور ہم چاہتے ہیںکہ ہندو وہاںکا رخ نہ کریں۔
23 نومبر2007ء کو اتر پردیش کے مختلف حصوں لکھنو، فیض آباد اور وارانسی کی عدالتوں میں 25 منٹ کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے 6 بم دھماکے کیے گئے جن میں15 افراد ہلاک اور57 زخمی ہوئے۔ چند لمحوں بعد بھارت اور اس کے میڈیا نے ہمیشہ کی طرح جیش محمد اور پاکستان کی آئی ایس آئی کو اپنے نشانے پر لے لیا۔ سفارتی اور سرکاری سطح پر اس قدر شور مچایا گیاکہ ہر جانب سے پاکستان پر قہر برسنے لگا، لیکن پھر جھوٹ کا پردہ اس طرح چاک ہوا کہ اس میں بنگلہ دیش کی حرکۃ الجہاد اسلامی اور انڈین مجاہدین ملوث نکلے، جنہوں نے اعتراف کیا کہ وہ اپنے گرفتار کارکنوںکو پولیس حراست سے چھڑانے کے لئے آئے تھے۔ 13مئی2008ء کو جے پورکی سڑکوں پر ہونے والے بم دھماکوں میں63 افراد ہلاک اور214 زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے ان دونوں واقعات میں ثابت ہو گیاکہ ان میں حرکۃ الجہاد اسلامی بنگلہ دیش کے لوگ ملوث تھے، جو اپنے ساتھیوں کی گرفتاری کا بدلہ لینے کے لئے آئے تھے۔ جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم کے سامنے یہ بھی ثابت ہوگیاکہ ان سب کی منصوبہ بندی بھارت میں بیٹھ کر ہی کی گئی تھی۔
26 جولائی 2008ء کو احمد آباد میں ہونے والے بم دھماکوں میں 45 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اس سے صرف ایک دن قبل بھارت کے آئی ٹی ہب بنگلور میں ہونے والے بم دھماکوں پر بھی پاکستان کو مورد الزام ٹھہرادیا گیا۔ جھوٹے الزامات کی اس قدر دھول اڑائی گئی کہ خدا کی پناہ! لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ان بم دھماکوں میں بنگلہ دیشی مجاہدین کی تنظیم کے لوگ ملوث پائے گئے، جن کا انڈین تفتیشی اداروں کی حراست میں ہونے کے باوجود پاکستان سے دور کا بھی واسطہ ثابت نہ کیا جا سکا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں