آج عمران خان اگر امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور بھارت کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہونے کا اعلان کرتا ہے تو تاریخ اسے ہمیشہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظمؒ کے بعد پاکستان کے محافظ کے طور پر یاد رکھے گی۔ اس صورت میں مجھ جیسے کروڑوں لوگ جن کے پاس ریاست پاکستان کے سواکوئی جائیداد ہے نہ گھر اور نہ ہی کوئی مال و متاع، وہ پاکستان اور اس کے نیوکلیئر پروگرام کی حفاظت کے لئے لہو کا آخری قطرہ تک نچھاورکرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ ایک جانب عمران خان کھڑا ہے اور دوسری جانب اسفند یار ولی خان، محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمان، آصف علی زرداری، حاصل بزنجو اورکسی حد تک جماعت اسلامی طاقتور حکمران خاندان کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ قوم کو فیصلہ کرنا ہو گاکہ وہ کس کی طرف جانا چاہتی ہے؟
عمران خان کو اب ان تمام سیاستدانوں کے علاوہ ایک تیسری قوت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، جو اس کی پارٹی میں توڑ پھوڑ اور اختلافات کو اس حد تک لے جانے کی کوشش کرے گی کہ لگے گا کہ تحریک انصاف کا وجود ہی ختم ہونے والا ہے۔ اس کی پہل خیبر پختونخوا سے ہوگی جس کے لئے میدان تقریباً تیار ہو چکا ہے۔ انتشار پھیلانے والی یہ قوت کتنی طاقتور ہے، اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ملک کے نوجوان طبقے کو یاد رکھنا ہوگا کہ عمران خان کو اب چار طاقتور ترین خفیہ ایجنسیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی ابتدا اس کی اپنی پارٹی سے ہوگی
اور جس کے اثرات اگلے چند ہفتوں میں سب کے سامنے ہوںگے۔ عمران خان نے دیکھ لیا ہے کہ وہ سب کو نظر آنے والے دھاندلی اورکرپشن کے ثبوتوں کے باوجود ان طاقتوں کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہیں، اس لئے وہ کرپشن اور پاناما کا موضوع بیشک ساتھ لے کر چلیں، لیکن پاکستان اور اس کے نیو کلیئر پروگرام اور مسلح افواج میںکمی سمیت سی پیک کو مقدم رکھیں۔ اس ایجنڈے کے لئے وہ ہر سچے پاکستانی کو، وہ جوان ہے یا ادھیڑ عمر، اپنے ساتھ کھڑا پائے گا۔ اس مقصد کے لئے عمران خان کا ساتھ دینے والوں کو بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لالچ کے علاوہ بدترین دھمکیاں بھی دی جائیںگی، لیکن انہیں پاکستان کی عزت واحترام کی خاطر جان کی بازی لگاتے ہوئے ہر لالچ اور عیش و آرام کو وطن پرقربان کرنا ہوگا، بالکل اس طرح جیسے سوات، فاٹا اور وزیرستان میں ہماری مسلح افواج کے جوانوں اور افسروں نے وطن دشمنوںکی طاقت اور ان کے منصوبوںکے خلاف ننگی تلوار بن کر مقابلہ کیا۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ آج پاکستان کے لئے عمران خان کی شخصیت آخری چٹان کی طرح ہے، اگر خدا نخواستہ یہ چٹان ٹوٹ گئی تو قوم کو سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عمران خان جس طرح ورلڈ کپ، شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کے لئے اپنا تن من دھن قربان کرتے ہوئے نکلا تھا، اسی طرح اب اسے صرف اور صرف پاکستان اور اس کے نیوکلیئر پروگرام کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلنا ہوگا۔ نہ جانے آج مجھے بہت سے اختلافات کے باوجود مرحوم جنرل حمید گل کیوں رہ رہ کر یاد آ رہے ہیں۔ وہ زندگی بھر پاکستان کی ڈھال بن کر جیے۔ چونکہ اب وہ آواز دنیا میں نہیں ہے، اس لئے مسلح افواج سے ریٹائر ہونے والے ہر جوان اور افسرکو اپنی وردی کی لاج رکھتے ہوئے دنیا کے ہر لالچ اور ہر آرام کو ٹھکراتے ہوئے ایک آواز بن کر اٹھنا ہوگا۔ سابق فوجیوں کے نام پر بنائی گئی تنظیمیں اب کاغذوں اور بیانات تک محدود نہیں رہنی چاہئیں بلکہ اب انہیں پاکستان کے مورچوں کو محفوظ بنانے اور اس کی ایک ایک چیزکی حفاطت کے لئے سب کچھ قربان کرنا ہو گا۔ یہ لوگ مجھ سے بدرجہا بہتر جانتے ہیںکہ زمانہ قیامت کی چال چلنے والا ہے اور اس کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ مذکورہ چند الفاظ پاکستان پر منڈلانے والے خطرات کی جانب ایک اشارہ ہیں۔ ملک میں کسی بھی سطح پر کہیں بھی کی جانے والی حیرت انگیز تبدیلیاںکسی ایسے ایجنڈے کی خبر دے رہی ہیں جن کی کئی دہائیوں سے تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ پاکستان کے سپاہی سے بہترکون جانتا ہے کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام دنیا کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور برطانیہ سمیت یورپی یونین اسے اسلامی بم کہہ کر پکارتے ہیں۔ انہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے اس سے کہیں زیادہ نفرت ہے جس طرح انہیں کسی مسلم خاتون کے حجاب سے ہوتی ہے۔
دل و جان سے پاکستان پر ایمان و یقین رکھنے والوں سے پوشیدہ نہیںکہ وہ طبقہ آج کس کے ساتھ کھڑا ہے جو نیوکلیئر پروگرام، کشمیر اور نظریہ پاکستان کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتا ہے اور جس کے نزدیک کشمیر سے زیادہ بھارت سے ثقافتی اور تجارتی تعلقات اہم ہیں۔ ان کی رائے میں سیاچن اور سر کریک فتنے سے کم نہیں کیونکہ وہ بھارت سے دوستی کو مقدم سمجھتے ہیں۔ انہیں چین کی دوستی اور اس سے بڑھتے ہوئے تعلقات ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ وہ راشٹریہ سیوک سنگھ اور بال ٹھاکرے کے چرنوں کو چھو کر اس کی باندیوں کے ساتھ لڈیاں ڈالتے ہیں۔ وہ یہ قبول ہی نہیں کرتے کہ پاکستان مذہب کے نام پر قائم ہوا ہے۔ وہ بھارت کو دنیا کی بہت بڑی طاقت اور سب سے بڑی جمہوریت سمجھتے ہوئے اس کے ماتحت زندگی گزارنے کو بہترین خارجہ پالیسی قرار دیتے ہیں۔ آج یہی لوگ میڈیا کی بہت بڑی طاقت بن کر آنے والے وقت کی سب سے پہلے پیشی گوئیاں کر رہے ہیں۔ ان کی پیش گوئیاں سچ بھی ثابت ہو رہی ہیں، جس سے ایسے لگتا ہے کہ ہر پالیسی اور ہر تعیناتی ان سے پوچھ کر کی جا رہی ہے۔ یہ نام نہاد دانشور جنگ ستمبر میں پاکستانی فوج کے بہادری کے کارناموںکو من گھڑت افسانے کہتے رہے ہیں۔ اگر ایسے ضمیر فروش آج ان ناقابل تردید حقیقتوں کو قومی اسمبلی میں افسانے کہلوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، تو یہ ان دانشوروںکی نہیں بلکہ حکومت کی لاپروائی کا نتیجہ ہے۔
ایک ریٹائرڈ میجر جنرل نے نہ جانے کس قسم کی یقین دہانیاںکرائی ہیںکہ ہر جانب فتح و کامرانی کے ڈھول پیٹے جا رہے ہیں۔ لیکن ہم جیسے سر پھرے پاکستانیوں کو جن کا جینا مرنا پاکستان میں ہی ہے، پاکستان کے لئے عمران خان کے سوا کوئی دوسری ایسی شخصیت نظر نہیں آ رہی جسے دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا لالچ اپنے مقصد سے ہٹا نہیں سکتا۔ عمران خان سمیت سب نے دیکھ لیا ہے کہ ملک کے ادارے طاقتور حکمرانوں کے سامنے بولنے کی جرأت نہیں کرتے۔ شاید اسی لئے ایک اہم ترین شخصیت بار بار کہتی رہی کہ ''ملک کا ہر ادارہ تباہ ہو چکا ہے،کوئی بھی کام کرنے کی نیت نہیں رکھتا، بہتر ہے کہ ان سب کو بند کر دیا جائے‘‘۔پاکستان پائندہ باد۔۔۔شاد باد منزل مراد!