بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں ایک سوال کا تحریری جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ ہنس راج ببر نے کہا کہ بھارتی فورسز نے بہت سے ایسے کبوتر پکڑے ہیں جن پر کچھ کوڈ اور فون نمبر ربڑ کے ٹیگز کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، اس لئے ان تمام پرندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن سے بر آمد ہونے والے ''مواد‘‘ کی تحقیق کی جا رہی ہے۔ بے گناہ کشمیریوں اور بھارت بھر میں بسنے والی مسلم اور دلت اقلیتوں کی طرح بے زبان پرندے بھی بھارت کی مختلف جیلوں میں بند کر دیے گئے جن پر پاکستان کے لئے جا سوسی کے الزامات ہیں۔ ایک مظلوم اور معصوم پرندہ کبوتر جو کل تک آزاد فضائوں میں اڑانیں بھرتا رہتا تھا، آج بھارت کی پٹھان کوٹ جیل میں 300 روپے میں خریدے گئے لوہے کے پنجرے میں بند ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کی طرح اس کی بھی آزادی چھین رکھی ہے۔کبوترکو یہ سخت سزا وہ بھارت سرکار دے رہی ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتی ہے۔
بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کے انسپکٹر دلیپ کمار، جس کی کمپنی نے اس کبوتر کو پکڑا تھا، کا کہنا ہے کہ اس کو پکڑنے کے بعد اس کی گرفتاری باقاعدہ بی ایس ایف کے رجسٹر میں درج کی گئی اور پھر اسے بامیان پولیس اسٹیشن کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس کے ایک پائوں میں اردو زبان میں لکھی گئی وہ چٹ بھی پولیس کے حوالے کی جا چکی ہے جس پر پردھان منتری مودی جی کو دھمکیاں دی گئی ہیں۔ بی ایس ایف کے جوانوں کا خیال ہے کہ اس کبوتر میں کوئی ایسی بات ضرور ہے کہ را کے افسران کو یہ کہتے سنا گیا کہ یہ کبوتر دہشت گرد تنظیم جیش محمد کے مولانا مسعود اظہر سے تعلق رکھتا ہے اور اسے مجاہدین کے کیمپ میں باقاعدہ دہشت گردی کی تربیت دی گئی ہے۔ الف لیلوی داستان کی طرح یہ کبوتر اب بھارت کے ہر گھر میں مشہور ہو چکا ہے۔ بھارت کو اس معصوم پرندے سے اس قدر خوف لا حق ہے کہ دن میں صرف دو بار جیل کا وارڈن اسے باجرہ اور پانی دینے کے لئے اس کے پنجرے کے پاس آتا ہے۔
ڈی ایس پی پٹھان کوٹ صدر سردار گردیپ سنگھ کہتے ہیں کہ بارڈر سکیورٹی فورس نے تو یہ کبوتر پکڑ کر ہمارے حوالے کر دیا، لیکن پنجاب پولیس کے لئے یہ کبوتر درد سر بن چکا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا اسے پولیس کی نگرانی میں نجی بس کے ذریعے پٹھان کوٹ سے کوئی 35 کلومیٹر دورگورداسپور کے ایک ویٹرنری ہسپتال کی لیبارٹری لے جایا گیا، دوران سفر پنجرے میں بند یہ کبوتر جہاں جہاں سے بھی گزرا پولیس والوں کو تماشا بناتا گیا۔ کیا بچے کیا بڑے، جو بھی اس کبوترکو پولیس کی تحویل میں دیکھتا، طرح طرح کے مزاحیہ بلکہ تضحیک آمیز فقرے کستا۔ پٹھان کوٹ اور پھر گورداسپور کے پر رونق بس اڈوں پر اس کبوتر کی وجہ سے پولیس تماشا بن کر رہ گئی۔ جیسے ہی پولیس اہلکار اسے لے کر بس میں سوار ہوئے، یہ دوسرے مسافروں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ راستے میں آنے والے ہر لاری اڈے پر لوگ اسے دیکھنے کے لئے بس کے اندر اور اردگرد اکٹھے ہونے لگے اور گورداسپور پہنچتے
ہی ایک بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا، جس نے اس پاکستانی کبوتر کو پنجرے میں بند دیکھ کر 'جے بھارت‘ اور 'جے مودی جی‘ کے نعرے لگائے۔ ڈی ایس پی گردیپ سنگھ کہتے ہیں کہ وہاں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ہجوم کو بڑی مشکل سے قابو کیا گیا ورنہ ڈر تھا کہ کوئی اس پاکستانی دہشت گرد کبوتر کی گردن ہی نہ دبا دے۔گورداسپور کے لاری ڈے سے اسے مقامی ویٹرنری ہسپتال پہنچایا گیا تو وہاں بھی ایک ہجوم اس کے پیچھے نعرے لگاتا ہوا چلتا رہا، جس پر ہسپتال انتظامیہ کو اپنے گیٹ بندکرنے پڑے ۔
گورداسپور ویٹرنری ہسپتال کی اس لیبارٹری میں مبینہ طور پر''جیش محمد‘‘ سے تعلق رکھنے والے اس کبوترکا Scan کیا جانا تھا کیونکہ بھارت کی خفیہ ایجنسی کو شک تھا کہ اس کے جسم کے اندر کچھ ایسا مٹیریل یا SIM رکھی گئی ہے جس سے چند کلو میٹر دور بیٹھے دہشت گرد حساس قسم کی اطلاعات مانیٹرکر سکتے ہیں۔ لیکن گورداسپور کی اس لیبارٹری میں مطلوبہ سہولت دستیاب نہیں اس لئے اسے اگلے دن وہاں سے امرتسر لے جانا پڑا، جہاں سے اس کے مکمل ایکسرے کرائے گئے۔ رپورٹ کے مطابق اس کے جسم میں کوئیChip یا حساس آلہ نہیں ملا لیکن پھر بھی مکمل تسلی کے لئے اب اسے نئی دہلی کے ویٹرنری ہسپتال اور آئی بی کی لیبارٹری بھیجا جا رہا ہے۔
اس کبوتر کی حفاظت اور نگرانی پر جس قسم کی تفتیش اور بھاگ دوڑ کی گئی،لگتا ہے کہ بھارت کی نظروں میں یہ کبوتر اس لئے خطرناک سمجھا جا رہا ہے کہ اسے پٹھان کوٹ جیسے حساس علا قے سے پکڑا گیا تھا اوراس کے پائوں کے ساتھ باندھے گئے کاغذ پر جیش محمد کی جانب سے ''مودی جی! یہ71 نہیں ہے‘‘ لکھا ہوا پایا گیا۔ گورداسپور کی ضلعی پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ پٹھان کوٹ اور اُڑی کیمپ میں مجاہدین کے حملوں کے بعد بھارتی عوام غصے سے کھول رہے ہیں، اس لئے جیل میں انہیں اس کبوتر کا تعلق مبینہ طور پر جیش محمد سے ہونے کے باعث اس کی سخت حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ پٹھان کوٹ جیل حکام کے ساتھ ساتھ پولیس بھی اس ''حوالاتی‘‘ کی وجہ سے ہر وقت پریشان رہتی ہے کیونکہ پہلے سے کم نفری میں سے ایک سنتری کو ہمہ وقت اس کے ساتھ ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو خفیہ ایجنسیوں والے جیل سپرنٹنڈنٹ کی جان کو آ جائیں گے۔ جیل حکام کہتے ہیں، اس کبوتر کو رہا نہ کرنا ہماری مجبوری ہے کیونکہ ابھی تک اس کی تفتیش مکمل نہیں ہوئی۔دوسرے، جب تک نئی دہلی سے کوئی حکم نہیں ملتا اس وقت تک اس خطرناک کبوتر کو رہا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جیل حکام کے مطابق جب بھی وہ دہلی کے اعلیٰ حکام سے اس بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی جانب سے یہی کہہ دیا جاتا ہے کہ ابھی اس کی تفتیش مکمل نہیں ہوئی۔ جیل حکام کو جو ایک علیحدہ پریشانی ہو رہی ہے وہ بھارت کے میڈیا کی یلغار سے اس کبوتر کو بچانا ہے۔ جیسے ہی اس کی امرتسر لیبارٹری سے سکیننگ کی خبریں باہر نکلیں، میڈیا کا ایک ہجوم جیل کے دروازے پر جمع ہو گیا۔کسی بھی پبلک ڈیلنگ کرنے والے محکمے یا ادارے کے لئے میڈیا کی نا راضگی مول لینا ممکن نہیں کیونکہ اگر انہیں ناراض کیا گیا تو وہ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس گرفتار شدہ کبوتر کو نئی دہلی کے آئی بی سنٹر لے جاتے وقت، میڈیا سے چھپانے کے لئے اس بکتر بند گاڑی میں لے جایا جائے گا۔
سپرنٹنڈنٹ جیل نے ہوم منسٹری کو خط لکھا ہے کہ یہ کبوتر باجرہ بہت ہی کم کھاتا ہے، اس وجہ سے یہ کافی کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ یہ پیٹ بھر کر باجرہ کھائے لیکن چونکہ یہ مخصوص قسم کا کبوتر ہے، اس لئے ہم نے کبوتر پالنے کے شوقین لوگوں سے بھی رائے مانگی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اسے دودھ میں بھگوئے ہوئے بادام کھلائے جائیں، اگر بادام نہ کھانے سے کمزور ہو گیا تو اس کی زندگی کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے جس کے لئے جیل انتظامیہ کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔