"MABC" (space) message & send to 7575

کاش!

کاش! پنجاب پولیس کے 31 سابق سربراہان نے مردِ حُر سابق ایس ایس پی اسلام آباد محمد علی نیکو کارا کے خلاف نواز حکومت کی انتقامی کارروائی کے خلاف بھی یک جان ہو کر آواز اٹھائی ہوتی، ان کے لئے بھی کوئی احتجاجی مہم چلائی ہوتی، ان کی بحالی کے لئے سول سوسائٹی کا کوئی فورم بروئے کار آیا ہوتا، ان کی مدد کے لئے عدلیہ کے دروازے کھٹکھٹائے جاتے، ان کے لئے بھی کچھ سوئے ہوئے ضمیروں کو جگایا جاتا! کاش پولیس کے یہ31 سربراہان، آئی جی اسلام آباد ''آفتاب پاکستان‘‘ ذوالفقار چیمہ کو قانون کی حکمرانی پر کھڑے رہنے کے''سنگین جرم‘‘ کا مرتکب ہونے پر انتقام کا نشانہ بنائے جانے پر لاہور اور اسلام آباد کی سڑکوں پر سول سوسائٹی کے ساتھ احتجاجی مارچ کرتے نظر آتے! ان کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کے خلاف عہدوں کے لالچ میں خریدے گئے ضمیروں کو جنجھوڑتے! کاش کہ پولیس کے یہ سربراہان ''کمالِ پاکستان‘‘ شارق کمال صدیقی کو بہاولنگر سے مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی عالم لالیکا کے دربار میں سرجھکانے کی بجائے سر اٹھانے کی پاداش میں نشان عبرت بناتے ہوئے صوبہ بدری پر مجبور کئے جانے کے شرمناک شاہی حکم کے خلاف لاہور میں گورنر ہائوس یا پنجاب سیکرٹریٹ کے سامنے احتجاج کرتے تو ایک زمانے کو اپنا ساتھ کھڑا دیکھتے۔ لیکن نہ جانے ایسا کیوں نہیں ہوا۔ شاید ہمارے ان سابق پولیس سربراہان کو اس وقت'برج‘ کھیلنے سے فرصت نہیں ملی ہوگی یا وہ بھی'مقبول‘ بننے کے انتظار میں کسی گھر کے باہر قطار میں کھڑے ہوئے ہوںگے۔ حضرت واصف علی واصف کی ایک خوبصورت بات شاید ان کے دل میں اتر جائے کہ '' زندگی کے بعد کام آنے والے چراغ زندگی میں ہی جلائے جائیں‘‘۔ محمد علی نیکو کارا، آفتاب چیمہ اور شارق کمال صدیقی جیسے پولیس افسران آج کی نئی نسل کے لئے نشان منزل ہیں، ان کے آئیڈیل ہیں۔ ان پولیس افسران کے نام اب پاکستان سے وابستہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ قوم جب جب بیدار ہوگی تو ان پولیس افسران کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کرے گی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قانون اور پاکستان کے محافظ ہیں، ان کے دامن اس قدر اجلے ہیں کہ اندھیرے ان کی چمک اور روشنی سے دور بھاگتے صاف دکھائی دے رہے ہیں۔
دیر آید درست آید ہی کہا جا سکتا ہے کہ محمد علی نیکو کارا پر ظلم کی تلوار گرانے والوں کے خلاف پنجاب پولیس کے سابق سربراہان کی آنکھیں کھلنا شروع ہو گئی ہیں اور انہوں نے پنجاب کے دربار شاہی سے جاری کئے جانے والے سول انتظامیہ آرڈیننس 2016ء کے خلاف کاغذی طور پر ہی سہی اپنی آواز بلندکرتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی اور اسے پاکستان کے میڈیا نے بھی بھر پور کوریج دی ہے۔ میڈیا کو پولیس کے رویے سے ہمیشہ شکایات رہی ہیں لیکن انہوں نے شاید کبھی سوچا ہی نہیں کہ ان کی ہر مشکل میں میڈیا نے ہی آگے بڑھ کر ان کا ساتھ دیا ہے۔ چند سال قبل احسان صادق جب ڈی پی او اوکاڑہ تعینات تھے تو مسلم لیگ نواز کے ایک رکن قومی اسمبلی کے غلط حکم کو نہ ماننے پر انہیں او ایس ڈی بنا دیا گیا، جس پر میڈیا یک آواز ہو کر ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ میرے جیسے لوگوں نے اپنے آرٹیکلز میں ان کی بھرپور حمایت کی اور یقین جانیے کہ زندگی میں آج تک کبھی ان سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا کیونکہ ہم احسان صادق کے رتبے کا نہیں بلکہ ان کے اعلیٰ کردار کا ساتھ دے رہے تھے، جس کا انہوں نے اس وقت مظاہرہ کیا تھا۔ راقم کسی کی حمایت میں لکھنے پر کسی تنقید کی پروا نہیں کرتا کیونکہ ہمیشہ ایک ہی چیز ذہن میں رکھتا ہے کہ اگر ضمیر اور نیت صاف ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ اچھا کہیں گے یا برا کیونکہ لوگ ہمیشہ اپنی نیت سے جانچے جاتے ہیں، کسی دوسرے کی سوچ اور خیالات سے نہیں۔ 
عباس خان جیسے بھاری بھر کم اور نثار چیمہ جیسے دبلے پتلے پولیس کے سابق سربراہان میں اس عمر میں تو اتنی ہمت توہونی چاہیے کہ محمد علی نیکو کارا، آفتاب چیمہ اور شارق کمال صدیقی جیسے پولیس افسران کی ہمت بندھاتے اور کچھ نہیں تو جم خانہ میں ایک محفل یا سیمنار کا اہتمام کرتے جہاں ان کی کارکردگی اور جرأت کو خراج تحسین پیش کیا جاتا، جس سے ان کا حوصلہ بڑھتا کہ ان کے ''بڑے‘‘ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ 
چوہدری پرویز الہیٰ کی وزارت اعلیٰ کے دوران جب لاہور کینال روڈ کے اطراف کے درخت کاٹ کر کینال روڈ کی توسیع کا منصوبہ تیار ہوا تو اس وقت سابق آئی جی سلمان خالق کی سربراہی میں سول سوسائٹی اس منصوبے کے خلاف حکم امتناعی لینے کے لئے عدالت جا پہنچی کہ اس سے لاہورکا حسن خراب ہو جائے گا۔ افسوس! آج جب گھنے اور سایہ دار اشجار جیسے پولیس افسران پر حکم شاہی کے بے رحم کلہاڑے چل رہے ہیں تو ان کے لئے ایک ہلکی سی آواز بھی نہیں اٹھ رہی۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے حالیہ دھرنے کے دوران ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ کسی شخص سے آپ کیسے امید کر سکتے تھے کہ وہ مسعود یاسین بن کر اسلام آباد میں نہتی عورتوں پر قہر بن کر برس پڑے اور آفتاب چیمہ جیسا نیک اور شریف گھرانے کا سپوت حضرت علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال کو بالوں سے گھسیٹتے اور ڈنڈے برساتے ہوئے پولیس وین میں پھینک دے۔ شارق کمال صدیقی جیسے روشن گھرانے کا چراغ اپنے جسم پر پہنی ہوئی وردی کے ساتھ ایک رکن قومی اسمبلی کے جرائم پیشہ ملازمین کے سامنے سر جھکا کر کیسے بیٹھ سکتا ہے؟ پنجاب پولیس کے31 انسپکٹر جنرلز نے ان کے حق میں تو کوئی آواز نہیں اٹھائی، لیکن خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے ایک ہلکی سی انگڑائی لیتے ہوئے اپنے ایک مشترکہ بیان میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سول بیورو کریسی وزیر اعلیٰ پنجاب شہبا زشریف کو گمراہ کرتے ہوئے پولیس کے خلاف غلط قسم کے انتظامی اقدامات کروا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سول بیوروکریسی نے جانتے بوجھتے ہوئے پولیس آرڈر 2002ء سے متصادم آرڈیننس جاری کروایا جس سے بلدیاتی اداروں اور ان کے سربراہان کو حاصل اختیارات بھی سلب ہو جائیں گے۔ پولیس کے سابق سربراہان کی جانب سے جاری کئے جانے والے احتجاجی مراسلے میں سول انتظامیہ آرڈیننس 2016ء کو پولیس اختیارات پر حملے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ سول بیوروکریسی کو اس قدر طاقتور بنا دیا جائے کہ صوبے کی پولیس کا سربراہ ان کا محتاج ہو کر رہ جائے، ہر روز کسی نہ کسی فائل پر لکھے گئے دو الفاظ Pl. discuss کی تعمیل کے لئے کبھی ہوم سیکرٹری اور کبھی چیف سیکرٹری کی انتظار گاہ میں بیٹھا رہے۔ سابق پولیس سربراہان کی جانب سے جاری کئے جانے والے ایک مشترکہ بیان میں اس بات پر خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سول بیوروکریسی کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں کہ اس انتظامی حکم کے ذریعے پولیس کو اپنے دبائو میں لایا جائے جبکہ اس آرڈیننس سے صوبے کو درپیش موجو دہ سکیورٹی اور دہشت گردی کے عفریت کے سامنے کھڑی ہوئی دیوار مزید کمزور اور لاوارث ہو جائے گی۔
چند برس قبل بھی سول انتظامیہ نے پولیس کو اپنے ماتحت کرنے کی ایک ناکام کوشش کی تھی اور اس کا آغاز پنجاب ہائی وے پولیس سے کیا گیا تھا، جسے ہوم سیکرٹری پنجاب کے ماتحت کیا جانا تھا۔ جیسے ہی یہ سمری Move ہوئی تو سب کے کان کھڑے ہوئے کہ یہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ جب پولیس اور میڈیا کا دبائو بڑھا تو ڈی ایم جی گروپ کو یہ سمری واپس لینا پڑی! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں