"MABC" (space) message & send to 7575

طارق بن عظمت

پولو کے نامور کھلاڑی کرنل نوابزدہ عظمت خان کا فرزند پس پردہ سازشوں پر نہیں بلکہ ہمیشہ مد مقابل کے سامنے سینہ تان کر مقابلہ کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے کردار کا یہ ثبوت کوئٹہ انفنٹری سکول کی در و دیوار پر آج بھی کندہ ہے۔ جو شخص اعزازی شمشیر لینے کے بعد اپنے گریبان کی طرف اٹھے ہوئے ہاتھوں کو اپنے طویل کیریئر کے لئے سمجھوتہ کرنے کی بجائے عزت نفس کو مقدم سمجھتے ہوئے ان کو مروڑنے پر یقین رکھتا ہو، اس شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ حکومتوں کو گرانے کی درپردہ سازشوں میں ملوث رہا،کسی کی ذہنی کم مائیگی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جنرل طارق خان نے جی ایچ کیو سے تحریری درخواست کی ہے کہ سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کی جانب سے ان کی ذات پر لگائے گئے الزامات کو کسی فاتر العقل کی بات سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کی بجائے اس کی مکمل اور جامع انکوائری کرائی جائے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ان کی پر وقار فوجی زندگی کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ ان کی اس اپیل کی شفاف اور غیر جانبدارانہ انکوائری کے بعد اس میں مجرم ثابت ہونے والوں کو قرار واقعی سزا دے دی گئی تو آئندہ ہر ایرے غیرے کو اٹھ کر افواج پاکستان پر گند اچھالنے سے پہلے سو دفعہ سوچنا پڑے گا۔ 
جاوید ہاشمی نے عمران خان کے پردے میں فوج پرگند اچھالنے کے لئے اپنی دھواں دھار پریس کانفرنسوں اور میڈیا ٹاکس میں جنرل طارق خان کا نام لے کر انہیں 2014ء کے دھرنے کے دوران عمران خان سے ساز باز کرتے ہوئے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزامات لگائے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاک فوج کی خاکی وردی سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والوں نے کسی کے اشارے پر یا کسی کو خوش کرنے کے کے لئے خاکی وردی پہننے والوں کو اپنے تجزیوں اور تبصروں میں ایک ایسے جنرل کو نشانہ بنانا شروع کر دیا جس کی ساری زندگی وطن کے چپے چپے کا دفاع کرنے میں گزری۔ خطروں اور دہشت گردوں کے مقابلے میں اپنی جان سے کھیلنے والا کھلاڑی حیران ہے کہ دفاع وطن کی اتنی بڑی سزا! طارق بن عظمت تو وہ ہے جس نے تحریک طالبان، القاعدہ، لشکر اسلام اور مولوی فضل اﷲ کے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے طارق بن زیا د کی طرح ایف سی کی کمان سنبھالتے ہوئے اپنی کشتیاں جلاکر قدم قدم پر چھپے ہوئے دشمن کے خلاف میدان کارزار میں قدم رکھا۔ پی ایم اے 55 کی اعزازی تلوار(Sword of Honor) حاصل کرنے والے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل طارق حیات خان (ہلال امتیاز ملٹری، لیجن آف میرٹ)کی فوجی زندگی پر طائرانہ نظر ڈالیں تو جہاں انہیں 1990ء کی گلف وار میں بطور کمانڈر سعودی عرب کی مقدس سر زمین کی حفاظت کرنے کا شرف حاصل ہے، وہاں انہیں سوات میں مولوی فضل اﷲ، جنوبی وزیرستان میں ٹی ٹی پی اور فاٹا میں القاعدہ کے لشکر اسلام جیسی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنے کے لئے آپریشن زلزلہ، آپریشن شیر دل اور آپریشن راہ نجات میں بھر پور حصہ لینے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ چودھویں انفنٹری ڈویژن کی قیادت کرتے ہوئے جنوبی وزیرستان میںکم وسائل لیکن جذبہ ایمانی کے ساتھ تاریخ کی خطرناک ترین جنگ لڑنے اور 2008ء سے اکتوبر 2012ء تک بحیثیت انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور انجام دی جانے والی ان کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ جب انہوں نے آئی جی ایف سی کے عہدے کا چارج سنبھالا تو اس کا مورال اس حد تک گر چکا تھا کہ اس کی وردی پہنے ہوئے جوان اپنی بیرکوں اور گھروں سے نکلتے ہوئے گھبراتے تھے۔ سینکڑوں اہلکاروں کو ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے اغوا کر لیا تھا۔ پشاورکینٹ کے باہر صرف ٹی ٹی پی کے نام لیوائوں کی حکومت تھی۔ گھر سے باہر نکلنے اور کے پی کے میں کاروبار کرنے کے لئے دہشت گردوں کو اد اکی گئی بھتے کی پرچی کا موجود ہونا ضروری تھا۔ ایف سی کے بہت سے اہلکار دہشت گردوں کے ساتھ جا ملے تھے، جس سے اس فورس کا مورال نہ ہونے کے برا بر رہ گیا تھا۔ یہ ایسا وقت تھا جب ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے لوگ اپنے ساتھ شامل ہونے والوں کو ایک 125سی سی ہونڈا موٹر سائیکل، ایک کلاشنکوف اور پچاس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کی پیش کش کر رہے تھے اور وصول کئے جانے والے بھتے میں سے حصہ اس کے علاوہ تھا۔ لوگ اپنی پرانی دشمنیوں کا بدلہ لینے کے لئے بھی دہشت گردوں کے گروہ بنا چکے تھے۔ پشاور سے ملحق خیبر ایجنسی کے سرے پر واقع باجوڑ میں دہشت گردوں نے اس قدر مضبوط ٹھکانے بنا لیے تھے کہ خود کش بمبار بنانے کے لئے دن دہاڑے سکولوں سے نوجوان لڑکوں کو اغوا کر کے لے جایا جاتا تھا،انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ 
جنرل طارق نے ان حالات کو ایک چیلنج سمجھتے ہوئے ایک گھبرائی اور بکھری ہوئی فورس کاا عتماد بحال کرنے کے لئے ان میں ایمان کی قوت اور پاکستان سے عشق کا جذبہ بیدار کیا، انہیں،ایک طاقتور فورس بنایا اور پھر 2009ء میں باجوڑ کی خوفناک لڑائی میں پشاور کے دروازوں پر بنائے گئے ٹی ٹی پی کے محفوظ ترین ٹھکانوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ یہ ایسا منفرد معرکہ تھا جس کی دنیا بھر کے میڈیا میں دھوم مچی اور افغانستان میں بیٹھی ہوئی امریکی، نیٹو اور ایساف فورسز ایف سی کی اس ناقابل یقین فتح پر دنگ رہ گئیں۔ یہیں سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد جنرل طارق حیات خان کو''بلڈوز خان‘‘ کے نام سے پکارنا شروع ہو گئے۔ کے پی کے میں لوگوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہونے لگا اور دہشت گردوں کو اپنے ٹھکانے سمیٹ کر افغانستان میں پناہ لینی پڑی۔
طارق خان جیسا جنرل عہدوں کے لالچ اور خوشامد سے کس قدر دور رہا، اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہی کافی ہے۔ جب وہ ملتان میں کیپٹن تھے، ایک کورکمانڈر کی بیٹی کی شادی کے موقع پر ان کی پروٹوکول ڈیوٹی لگائی گئی، جسے انہوں نے اپنے فوجی کیریئر کی پروا نہ کرتے ہوئے ادا کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ نان ملٹری ڈیوٹی کو غلط سمجھتے ہیں۔ ایسے شخص پر جاوید ہاشمی جیسا سیاستدان جوڈیشل مارشل لاء کی سازش کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ جاوید ہاشمی قبیل کے ورک چارج سیاستدان کو اپنے گھٹیا سیاسی مفاد کی خاطر فاٹا میں دہشت گردوںکی سرکوبی کے لئے65 کے قریب بڑے آپریشن کرنے والے طارق خان جیسے Soldier of Substanceپر الزام تراشی کرتے ہوئے سو مرتبہ سوچنا چاہیے جوفاٹا کے 35000 مربع کلومیٹر علاقے میں مضبوط ٹھکانے بنائے ہوئے دشمن کے دہشت گردوں کے خلاف اپنے جوانوں کے ساتھ جنگ لڑا ہو۔ 
جاوید ہاشمی کو شاید کسی نے نہیں بتایا کہ جب نیٹوکے جہازوں کی گولہ باری سے ایف سی کے تین اہلکار شہید ہوئے تو یہ جنرل طارق خان ہی تھے جنہوں نے فوری طور پر افغان بارڈر سیل کر تے ہوئے ان کے لئے سامان لے جانے والی ہر قسم کی نقل و حرکت کو مفلوج کر دیا تھا اور انہی نے امریکی اور نیٹو کمانڈرز کو پاکستان کے آگے جھکنے پر مجبور کر دیا۔ اس واقعے کی بگرام ایئر بیس پر با قاعدہ انکوائری کی گئی جس میں ایف سی کی جانب سے ڈی آئی جی بریگیڈیر عثمان شریک ہوئے جس کے نتیجے میں امریکہ اور نیٹو کو عالمی سطح پر پاکستان سے معافی مانگنا پڑی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں