"MABC" (space) message & send to 7575

کپتانی کا راز

پاکستان کی کرکٹ ٹیم کوایک دو نہیں بلکہ لگاتار 6 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں بد ترین شکست سے ہمکنار کرنے والے کپتان میں ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ کوئی انہیں کپتانی کی ذمے داریوں سے ہٹا نا تو دور کی بات ہے ان کا ذکر کرنے سے بھی خوف کھاتا ہے اور کرکٹ بورڈ سمیت ہر چھوٹے بڑے کو یہ خوف کیوں ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ مصباح کا تعلق عمران خان کے میانوالی اور ایک ہی محلے سے ہے اس لئے وزیر اعظم میاں نواز شریف چاہتے ہیں کہ انہیں اس سے زیا دہ رتبہ دیا جائے اور اس سے زیا دہ ٹیسٹ میچوں کی کپتانی دی جائے اور اگر وہ ورلڈ کپ جیت لے تو پھر میانوالی ہی نہیں بلکہ عمران خان کے مقابلے میں اسے ملکی سیا ست میں بھی اپنے ساتھ کھڑا کر لیا جائے۔۔۔لیکن وائے افسوس کہ ان کی مراد بر نہیںآ رہی۔ آخر مصباح میں ایسی کیا خوبی ہے یا کہیں اس کی کپتانی کا کسی ایسے پرانے قصے کہانیوں سے تعلق تو نہیں جن کے بارے میں اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ کسی بہت بڑے دیو یا جن کی جان طوطے میں ہوتی تھی اور جب تک وہ طوطا مرتا نہیں تھا جن اور دیو کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا تھا؟۔اگر آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ مصباح الحق کی کپتانی کے پیچھے بھی ایسا ہی ایک راز ہے تو آج کے اس دور میں کوئی بھی اس پر یقین نہیں کرے گا۔۔۔۔لیکن کیا کریں کہ معاملہ بالکل ایسا ہی ہے اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسا ہی ہے اور اس راز سے جو چند ایک لوگ واقف ہیں تو ان میں سے ایک راقم اور دوسرے رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری۔۔اور یہ سب زیب داستان کیلئے نہیںکہہ رہا بلکہ حقیقت سے براہ راست واقف ہونے کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ توہم پرستی کے سائے میں دنیا جہاں کے بڑے بڑے لوگ اور حکمران کھڑے نظر آتے ہیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ ایک بزرگ سے ہلکی سی چھڑی کھانے کو اقتدار کی سیڑھی کیلئے لازمی سمجھتے ہوئے ان کے پاس حاضری دیتی رہی ہیں اور آصف علی زرداری نے تو اپنے پیر صاحب کو پانچ سال تک ایوان صدر میں ساتھ رکھا جو کبھی انہیں سمندر کے قریب تو کبھی انہیں پہاڑوں سے دور رہنے کی نصیحتیں کرتے رہے۔۔۔ اسی طرح عمران خان کے ہاتھ میں کبھی تسبیح تو کبھی ان کی انگلی میں ایک انگوٹھی کا ہونا میڈیا کی خبروں میں کسی بزرگ کی طرف سے ان کے اقتدار کیلئے عطا کی گئی نعمت بتائی جا تی ہے۔حتیٰ کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی کراچی کے ایک بزرگ کے کہنے پر اپنی بحالی کیلئے میدان میں کودے تھے۔
دنیائے کرکٹ میں مصباح الحق کو خوش قسمت ترین کپتان کے نام سے پکارا جا رہاہے کہ وہ ٹیسٹ میچوں میں بری طرح ناکام رہتے ہوئے رنز بنائیں یا نہ بنائیں ٹیسٹ میچوں کی سیریل میں شکست پہ شکست کھا رہے ہیںلیکن پھر بھی کپتانی کا تاج ان کے سر پر سجارہے گا ورنہ اس سے پہلے تو یہ حال رہا ہے کہ ادھر کسی کپتان نے لگاتار تین چار میچ ہارے ادھر اس کی کپتانی اڑن چھو ہو گئی۔ پاکستان میں کرکٹ کے ماہرین ، ناقدین اور کمنٹیٹروں سمیت میڈیا سے متعلق لوگ تو اپنی جگہ کرکٹ سے متعلق بین الاقوامی میڈیا اور کھلاڑی بھی ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان میں اب گنگا الٹی کیوں بہنے لگی ہے؟۔کل کی ہی بات ہے کہ شاہد آفریدی دو چار میچوں میں ناکام کیا ہو اسے ٹی ٹونٹی کی کپتانی تو دور کی بات ہے قومی ٹیم میں بارہویں کھلاڑی کی جگہ لینے سے ہی فارغ کر دیا گیا اور ابھی تک وہ کرکٹ بورڈ کے بڑے لوگوں کے گھروں اور دفتروں کے طواف میں مصروف ہے لیکن اس کی مراد ہے کہ کسی بھی طرح بن نہیں آ رہی۔۔۔۔ حالانکہ دو دن پہلے اس نے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی شان میں ایک قصیدہ بھی بھیج دیا ہے جو قومی میڈیا کی زینت بھی بنا لیکن ابھی تک بے چارہ نظر کرم کے انتظار میںہے۔ یونس خان کی ڈھلتی عمر اور تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے لوگ پوچھتے ہیں کہ مصباح الحق میں وہ کون سی خوبی ہے کہ انگلینڈ سے لے کر آسٹریلیا تک ہر ٹیسٹ میچ بری طرح ہارنے کے باوجود ان کی کپتانی اسی طرح نہ صرف برقرار ہے بلکہ سونے کے پانی سے چمک رہی ہے ؟۔
مصباح الحق کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ وہ کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہے لیکن کمبل ہے کہ اس سے ایسا چمٹ گیا ہے کہ ہزار کوششوں کے با وجود ا س کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ ادھر مصباح ایک اننگز کی شکست سے بری طرح میچ ہارنے کے بعد کپتانی سے ریٹائر ہونے کی بات کرتا ہے کہ نہ جانے کہاں سے کوئی فون کال آتی ہے جس پر وہ اپنی ریٹائر منٹ کے بیان کو ایک گھنٹے بعد ہی واپس لے لیتا ہے۔ وہ کئی بار آف دی ریکارڈ گفتگو میں کہہ چکا ہے کہ عمر کے اس حصے میں وہ کپتانی کا بوجھ اتار کر بین الاقوامی کر کٹ سے با عزت ریٹائر منٹ لینا چاہتا ہے کیونکہ اب قومی ٹیم کے اندر بھی اس کی کار کردگی پر تنقید ہونے لگی ہے اور سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ نوجوان کھلاڑی بھی سوال اٹھانا شروع ہو گئے ہیں۔ ادھر مہندر سنگھ دھونی جیسا آل رائونڈر میچ جیتنے کے با وجود انڈین ٹیم کی کپتانی سے خود ہی دستبردار ہو گیا ہے تو مصباح کو بھی اپنے ملک کیلئے اب قیا دت کسی اور کے سپردکر دینی چاہئے اور کھلاڑیوں کی اس گپ شپ سے ٹیم مینیجر بھی بورڈ کو آگاہ کر چکے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک کی کوئی طاقتور شخصیت ہر دفعہ مصباح کو یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیتی ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ شخصیت چاہتی ہے کہ جب تک وہ خود نہ کہیں مصبا ح کو پاکستانی کر کٹ ٹیم کی کپتانی سے علیحدہ نہ کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ کرکٹ بورڈ کے چیئر مین شہر یار خان بھی اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا کو کئی بار بتا چکے ہیں کہ مصباح الحق کی کپتانی کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور یہ'' ان‘‘ کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اسے کتنے عرصے تک پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کپتان برقراررکھنا چاہتے ہیں؟۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سی شخصیت ہے جو چاہتی ہے کہ مصباح کی کپتانی بر قرار رہے چاہے پاکستان جتنے بھی ٹیسٹ میچ ہارتا رہے یہاں تک کہ دنیائے کرکٹ کی رینکنگ میں وہ سب سے نچلے درجے تک پہنچ جائے ؟۔آپ کی بیتابی ختم کرنے کیلئے آپ کو اگر یہ بتایا جائے کہ مصباح الحق کی کپتانی میں اسی طرح کسی طاقتور کی جان ہے جس طرح گئے وقتوں کے قصے کہانیوں میں کسی شہزادی کو اغوا کرنے والے دیو کی جان طوطے میں ہوا کرتی تھی تو آپ یقین کرنے کی بجائے اس پر قہقہے لگانا شروع کر دیں گے ۔۔۔لیکن کوئی یقین کرے یا نہ کرے سچ اور مکمل سچ یہی ہے کہ ایک بہت بڑے'' ستارہ شناس نے خبردار کیا ہے کہ اقتدار اور مصباح الحق کی کپتانی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ پہلے پہل جب اس عجیب و غریب منطق کا علم ہوا تو میں بھی بہت ہنسا تھا لیکن یہ وہ وقت تھا جب اسلام آباد میں عمران خان کی تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کا دھرنا اپنے عروج کی طرف بڑھتے ہوئے آبپارہ سے ڈی چوک کی جانب بڑھ رہا تھا اس وقت اس مرد درویش نے پوچھا کہ کیا مصباح لحق کرکٹ ٹیم کا کپتان ہے؟۔ جب انہیں بتایا گیا کہ ہاں وہ کپتان ہے تو انہوں نے بڑے اطمینان سے اپنا حساب لگاتے ہوئے کہا کہ اس دھرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ پھر ماڈل ٹائون ہوا، نیوز لیکس ہوئی،نریندر مودی کی رائے ونڈ یاتر اہوئی، گوجرانوالہ میں پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے کی ایف آئی آر درج ہوئی، پاناما لیکس ہوئی ۔۔۔ فوج کے خلاف نہ جانے کیا کیا ہوا۔۔۔لیکن مصباح الحق اسی طرح کپتان رہا او رہے ! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں