میرے استاد گوگا دانشور پوچھتے ہیں کہ نیوزلیکس کا کیا بنا، اس پر جو کمیشن بنا تھا اس نے تو دس پندرہ دن ہوئے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے، اس رپورٹ کو شائع کیوں نہیں کیا جا رہا، اس کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں کیوں نہیں لایا جا رہا ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اگر چند اہم لوگوں کے نام سامنے آنے کا خدشہ ہے تو اس سے پہلے ہی الزامات کے نئے کھیل کے ذریعے اس کا رخ کسی اور جانب موڑ دیا جائے؟۔ اسے محض اتفاق تو نہیں کہہ سکتے کہ میڈیا کے ذریعے سب کی توجہ ڈان لیکس کی بجائے ہاشمی لیکس کی جانب موڑ دی گئی ہے ؟۔ سوال یہ ہے کہ جاوید ہاشمی صاحب جب تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو کچھ عرصہ بعدانہیں ایک نوٹس موصول ہوا تھا اس نوٹس کو کون سی دیمک کھا گئی ہے؟۔ ویسے پرانے قصے دھرانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ سبھی ان چیزوں سے واقف ہیں۔ ہاشمی صاحب چونکہ جمہوریت اور فوجی راج کے سب سے بڑے مخالف کے طور پر جانے جاتے ہیں اس لئے انہیں یاد دلانا ضروری ہے کہ 2013 ء کے انتخابات سے پہلے بھکر دریا خان کے جلسے میں شرکت کیلئے جاتے ہوئے انعام نیازی کے بھائی کے فارم ہائوس پر راقم ، جاوید ہاشمی اور عمران خان اکٹھے کھانا کھا رہے تھے تو ہاشمی صاحب نے مجھے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا ''عمران کو سمجھائو کہ وزارت عظمیٰ امریکہ اور فوج کی مرضی کے بغیر نہیں ملتی اس لئے نیٹو کی سپلائی اور امریکی آپریشن روکنے کی باتیںمت کرے‘‘۔ اسلام آباد میں دھرنے کے عین درمیان جاوید ہاشمی نے اچانک پینترا کیسے بدلا یہ اب راز نہیں رہا۔ قومی اسمبلی کی نشست انہوں نے خالی کی تو شاید انہیں یقین دلایا گیا
ہو کہ یہ نشست بمعہ ایک پر کشش وزارت کے ضمنی انتخاب کے ذریعے انہیں واپس کر دی جائے گی۔ اسی نشے میں وہ عمران خان پر بری طرح گرجنا برسنا شروع ہو گئے وہ کونسا الزام تھا جو جاوید ہاشمی نے عمران خان کی ذات پر نہیں لگایا ۔اس وقت میڈیا نے عمران خان کو ہر طرح سے غصہ دلاتے ہوئے ان کے تاثرات لینے کی بار بارکوشش کی لیکن انہوں نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے صرف ایک ہی فقرہ بولا'' میں انہیں اپنے دل سے اتار چکا ہوں اور ان کا نام لینامنا سب نہیں ‘‘ عمران خان کی جانب سے یہ ایک ایسی چوٹ تھی جو ہاشمی صاحب کو ہر وقت تلملائے رکھتی تھی ۔عمران خان اور تحریک انصاف کے لوگوں کو یاد ہو گا کہ انٹرا پارٹی الیکشن میں عمر چیمہ نے جاوید ہاشمی کے مقابل اپنے کاغذات جمع کرائے تھے تو ساتھ ہی انہوں نے ایک درخواست کی تھی کہ یہ صاحب کسی اہم پارٹی منصب کیلئے موزوں نہیں ہیں اور یہ درخواست آج بھی تحریک انصاف کے ریکارڈ میں موجود ہو گی ۔
ہاشمی صاحب کے ماضی کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ ان کے مثبت اقدامات اپنی جگہ اور ہم ان کو سراہتے بھی رہتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کل تک وہ جنرل ضیا الحق کے وزیر رہے اور پھر ان کے خلاف ہو گئے۔۔۔پھر وزیراعظم نواز شریف کے وزیر بنے اور پھر ایک روز ایسا بھی آیا کہ وہ ان کے بھی خلاف ہو گئے اور ہر جگہ ان کے خلاف بیانات دینے لگے۔ وہاں سے وہ عمران خان کے ساتھ جا ملے جس نے انہیں عزت و احترام سے نوازا اور وہ ہیں کہ عمران خان پر الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ غالبًا جاوید ہاشمی صاحب نے نواز لیگ میں واپس آنے کی ہر ممکن کوشش کی ہو گی اورپھر ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد انہوں نے تحریک انصاف کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔
کچھ عرصہ قبل دو اہم ترین شخصیات نے مسلم لیگ کی قیادت سے درخواست کی تھی کہ ہاشمی صاحب کو عمران خان کا مقابلہ کرنے کیلئے انہیں مسلم لیگ نواز میں واپس لینے اور پرانا عہدہ دینے کے بارے میں سوچا جائے لیکن ان کی یہ درخواست مشروط کر کے ماننے کا عندیہ دیا گیا کہ وہ واپس آ سکتے ہیں لیکن ان کی شمولیت کی پریس کانفرنس میں مسلم لیگ کی اعلیٰ ترین قیادت موجود نہیں ہوں گی۔ باقی رہی دوسری بات تو اس کیلئے ان کی ہر طرح خدمت کرنے کیلئے پہلے کی طرح مسلم لیگ کے حکمران حاضر ہیں اور یہ بات انہیں اس وقت بھی بتائی گئی تھی جب وہ دھرنے کے دنوں میں اپنی روپوشی قائم رکھنے کیلئے اسلام آباد کے ایک ہسپتال کے ایک کمرے میں ٹھہرائے گئے تھے جہاں ایک وفاقی وزیر ان کی دل جوئی کا سامان کرتے رہے۔ جاوید ہاشمی نے میاں برداران کی اس سرد مہری کا شکوہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے بھرے ایوان میں کھڑے ہو کر کہہ دیا تھا کہ ان کا لیڈر نواز شریف ہے اور یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ کسی بھی وقت تحریک انصاف کو چھوڑ کر نواز لیگ میں واپس آنے کو تیار ہیں لیکن میرے خیال میں اس وقت انہیں پیغام بھجوایا گیا کہ ابھی وہیں رہ کر کام کریں ۔
گزشتہ دو سال تک جاوید ہاشمی عمران خان اور دھرنے کے بارے میں روز ایک نیا بیان داغتے رہے لیکن دو سال تک انہیں جنرل طارق اور نا صر الملک کی یاد نہ آئی نہ ہی ان کا کبھی ذکر ہی زبان پر لائے لیکن اب جب ڈان لیکس کمیشن کی رپورٹ تیار ہو چکی ہے اور پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کے نئے بنچ کے سامنے روزانہ سماعت ہو رہی ہے تو عدلیہ اور فوج کو بدنام کرنے کے نئے الزامات سامنے آئے ہیں ۔۔۔سوال یہ ہے کہ دو سال تک یہ باتیںاور یہ الزامات ان کے ذہن سے اوجھل کیوں رہے؟ پہلے انہیں یاد کیوں نہ آئے؟ اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ انہیں بھول جانے کا کوئی مرض لاحق ہے یا کسی جانب سے کسی خاص مقصد کیلئے بسائی جانے والی شطرنج کی بساط پر انہیں آگے بڑھایا گیا ہے؟ گزشتہ دو سالوں میں جا وید ہاشمی نے ٹی وی کے درجنوں کے ٹاک شوز، بے تحاشاپریس کانفرنسوں اور متعدد مرتبہ میڈیا سے گفتگو اور اپنی الیکشن مہم کے دوران یہ باتیں کیوں نہ بتائیں؟۔ کیا انہیں الزامات کی نئی قسط فراہم کی گئی ہے؟ایسے سوالات ذہن میں آتے رہیں گے جب تک صورت حال واضح نہیں ہو جاتی۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عمران خان کا جاوید ہاشمی کو یکسر نظر انداز کرنے کا رویہ بالکل درست تھا۔ حکومت کا میڈیا سیل تو یہ دن دیکھ رہا تھا تاکہ امیر مقام، مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی خان، محمود اچکزئی اور جی جی بریگیڈ کے علا وہ بھی کسی کو عمران خان کے پیچھے لگایا جائے؛جاوید ہاشمی دو سال سے جو کچھ بھی کہہ ہے تھے کوئی بھی سیریس نہیں لے رہا تھا سوائے چند لوگوں کے کیونکہ ان کی مجبوری تھی کہ وہ ''حکم حاکم کے سامنے بے بس ہیں‘‘ او ر اب عمران خان کے ایک ہلکے سے جواب نے ہاشمی صاحب کے الزامات میں گویا جان ڈال دی ۔ جاوید ہاشمی نے سیاست میں ایک عمر گزاری ہے۔ وہ حکمرانوں کے نشیب و فراز سے بھی واقف ہیں۔ انہوں نے عشروں کی سیاست کی ہے۔ اتنا عرصہ سیاست کے بعد تو امید کی جانی چاہیے کہ وہ مزید میچور سیاستدان بن کر ابھریں گے نہ کہ الزامات کو ہتھیار بنا کر اسی شخص پر چڑھ دوڑیں گے جس نے انہیں اپنی جماعت کے اعلیٰ ترین منصب پر بٹھایا۔ جاوید ہاشمی صاحب کو چاہیے کہ وہ سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لیں کیونکہ اب لوگ انہیں سیریس نہیں لے رہے۔ وہ تحریک انصاف میں بہت عرصہ تک اہم عہدے پر رہے۔ اتنی عزت انہیں کسی جماعت میں نہیں ملے گی‘ یہ انہیں اس وقت معلوم نہیں تھا تو آج ضرور معلوم ہو چکا ہو گا۔ انہیں عمران خان کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے کبھی بھی جاوید ہاشمی پر پہلا وار نہیں کیا اور نہ ہی کسی قسم کے الزامات کی ابتدا کی۔ لیکن کوئی کب تک خاموش رہ سکتا ہے۔ اس مرتبہ تو الزامات کی حد ہو گئی اور کوئی بھی چیز جو حد سے زیادہ ہو جائے‘ اسے برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔