سابق صدر آصف علی زرداری خیر سے اسی طرح بھاری ووٹوں سے پی پی پی پارلیمنٹیرین کے صدر'' منتخب ‘‘ہو گئے ہیں جس طرح ڈاکٹر فاروق ستار ایم ایم ایم پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔ اس کرامت کا سبب یہ بنا ہے کہ سندھ اسمبلی سمیت سینیٹ اور پارلیمنٹ میں نمائندگی پر قبضہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے نام سے نہیں کیا جا سکتا تھا اس کیلئے الیکشن کمیشن کے قواعدکی پابندی کرنا ضروری تھا۔ زرداری صاحب نے ڈیڑھ سال کی جلاوطنی یا آرام کرنے کے بعد 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی9 ویں برسی پر گڑھی خدا بخش میں عوامی اجتماع سے خطاب میں جہاں بہت سے معاملات پر بات کی وہاںان کی تقریر کا ایک فقرہ جو انہوں نے خصوصی طور پر وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا انتہائی غور طلب ہے ''آپ الیکشن جیت کر نہیں آئے بلکہ ہم نے آپ کو امانت سونپی ہے اور اب میںآپ سے اپنی وہ اما نت واپس لینے آیا ہوں‘‘۔ یعنی ''دو تیریاں دو میریاں‘ پانچ سال آپ کے اور پھر پانچ سال میرے ‘‘۔میں نواز شریف تک یہ پیغام پہنچ چکا ہے اور ان کی جانب سے انہیں یاد دہانی بھی کرا دی گئی ہے جو ضامن ہیں ان میں اپنے بھی ہیں اور غیر بھی۔ مئی2013 ء کے عام انتخابات کے نگران دورمیں بحیثیت آئینی سربراہ آصف علی زرداری اس عبوری عرصے میںملک کے روزمرہ معاملات میں مختار کل تھے انہوں نے اقتدار کی منتقلی کا تمام عمل اپنی آنکھوں سے مکمل ہوتے دیکھا۔ انہیں یو ایس ایڈ کے راجیو شاہ کی مصروفیات اور پنجاب میں ریٹرننگ افسران کی کارکردگی کا بخوبی علم بھی تھا انہوں نے نتائج بنتے اور بگڑتے بھی دیکھے ہیں۔ لیکن وہ چپ رہے وہ ہنس دیئے کیونکہ منظور تھا پردہ ترا۔ ان کی خاموشی کی وجہ یہ تھی کہ انہیں بھی سندھ مل چکا تھا اور یہ سب کچھ اس معاہدے کی رو سے پہلے سے طے شدہ تھا جو پی پی پی اور نواز لیگ کے درمیان لندن میں امریکہ اور برطانیہ کے دبائو پر میثاق جمہوریت کے نام سے کرایا گیا تھا۔ ان کی اس تقریر کے یہ الفاظ انتہائی اہم ہیں ''آپ انتخابات جیتے نہیں ہیں ‘‘؟۔یہی بات کہتے کہتے عمران خان جو ڈیشل کمیشن کی نذر ہو چکا ہے جس کے طعنے اسے اب تک سننے پڑ رہے ہیں۔
11 مئی2013ء کے انتخابات مکمل ہونے کے تیسرے دن صدر مملکت آصف علی زرداری لاہور تشریف لائے تھے جہاں بلاول ہائوس میں انہوں نے اخبارات کے ایڈیٹروں اور سینئر صحافیوں سے گفتگو میں فرمایا تھا ''یہ ریٹرننگ افسران کا الیکشن تھا ووٹروں کا نہیں‘‘ جس پر وہاں موجود میڈیا کے کچھ سینئر لوگ حیران ہوئے اور بعض دوسرے معنی خیز انداز میں مسکراکر رہ گئے۔
مسلم لیگ نواز سے وابستہ ایڈیٹروں اور میڈیا کے لوگوں نے کئی طرح سے کوشش کی کہ صدر مملکت آصف علی زرداری ''ریٹرننگ افسران‘‘ کے انتخاب والے اپنے فقرے کی کھل کر وضاحت کریں لیکن انہوں نے صرف یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ سمجھ بوجھ رکھنے والوں کیلئے اس فقرے میں بہت سے معانی پوشیدہ ہیں‘ صرف یہی نہیں بلکہ انتخابات کی پوری کہانی موجو دہے۔اگلے دن لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ اگر یہ انتخابات ملک کے سب سے با خبر اور صاحب اقتدار کی نظر میں عوام کے ووٹوں کے نہیںبلکہ'' ریٹرننگ افسران‘‘ کے مرہون منت ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟۔ تواس کا مطلب ہوا کہ عمران خان ساڑھے تین برسوں سے صحیح چیخ وپکار کر رہا ہے کہ انتخابات جعلی تھے ان انتخابات میں زبردست دھاندلی ہوئی ہے۔
مئی 2013ء کے انتخابات کے فوری بعد لالک جان چوک لاہور میں کئے جانے والے دھرنے کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا لیکن وہ افسران جو اس وقت این اے125 میں تعینات کئے گئے تھے آج مختلف جگہوں پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں وہ توبہ توبہ کرتے ہوئے جو کہانیاں سناتے ہیں اس سے آصف زرداری کی باتیں سچ معلوم ہوتی ہیں۔ میثاق جمہوریت پر میاں نواز شریف کے ساتھ دستخط کرنے والی دوسری شخصیت محترمہ بے نظیر بھٹو کی قبر پر کھڑے ہو کر آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو جو وعدہ یاد دلایا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ آصف علی زرداری جان چکے ہیں کہ ان کی دی گئی امانت کو واپس دینے والوں کی نیت میں فتور آ چکا ہے اسی لئے وہ کبھی اپوزیشن اتحاد تو کبھی پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے کوشاں ہیں۔ زرداری صاحب کی باتوں اور بلاول بھٹو کی دھمکیوں سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ رائے ونڈ سے انہیں پیغام بھیج دیا گیا ہے کہ اس دفعہ تو آپ صرف سندھی سپیشل بریانی پر ہی گزارہ کریں۔2023ء کے بعد دیکھیں گے جس طرح آپ نے مری معاہدے کو یہ کہتے ہوئے پٹخ دیا تھا کہ معاہدہ کوئی قران اور حدیث تھوڑی ہوتا ہے اسی طرح ہمارا حق بھی بنتا ہے کہ لندن معاہدے کو پورا کرنے سے پھسل جائیں۔
عمران خان بھی تو چار سالوں سے یہی کہہ رہا ہے کہ یہ انتخابات جعلی تھے ان انتخابات میں عوا م کی امانتوں پر ڈاکہ ڈالا گیا اور سبھی جانتے ہیں کہ امانت میں خیانت کس قدر سنگین جرم ہے اور جو جو بھی عوام کی امانت میں خیانت کے مجرم ہیں۔ ایک دن انہیں خدائے ذوالجلال کے سامنے حاضر ہونا ہے جہاں کوئی بھی طاقتور سے طاقتور حکمران ان کی مدد کو نہیں آ سکے گا کیونکہ دنیا میں جو ان کے مدد گار تھے وہ خود روز محشر مجرموں کی قطار میں زنجیروں میں بندھے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ میرے استاد گوگا دانشور نے مئی 2013ء کے انتخابات میں کی جانے والی مبینہ دھاندلیوں کے خلاف عمران خان کی جانب سے کئے جانے والے جلسوں، ریلیوں اور دھرنوں پر گرجنے برسنے والوں کے خلاف گلے پھاڑ پھاڑ کر چیخنے چلانے اور وزیر اعظم ہائوس کے بڑے بڑے ترجمانوں سے سوال کیا ہے کہ اس وقت کے صدر مملکت آ صف علی زرداری کی اس بات کا جواب کیوں نہیں دیتے‘ کہ مئی2013ء کے انتخابات سخت گرمی میں گھنٹوں قطاروں میں کھڑے ہوکر ووٹ کاسٹ کرنے والوں کے نہیں بلکہ ریٹرننگ افسران کے تھے؟!!