نومبر 2016 ء میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے پانچ بڑوں کے تین روزہ اجلاس کو اس حد تک خفیہ رکھا گیا کہ شرکا کو علیحدہ علیحدہ پہنچنے کا کہا گیا۔ آر ایس ایس کے لوگ اسے خفیہ رکھنے میں کامیاب تو رہے، لیکن ایک چھوٹی سی غلطی جو اکثر بڑا مجرم بھی کر جاتا ہے، سامنے آ چکی ہے۔ اس اجلاس کی تفصیلات جاننے سے پہلے اس امر کو سامنے رکھیے کہ بھارت میں اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے پردے میں آر ایس ایس کی حکومت ہے، جس میں صرف آر ایس ایس کا فلسفہ اور ایجنڈا کام کر رہا ہے۔ سات سال کی عمر کا وہ نریندر مودی جو اپنے گھر کے قریبی ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچتا تھا، وہ اس دوران راشٹریہ سیوک سنگھ کا آلہ کار بن کر اسٹیشن پر آنے جانے والے مسلمانوں اور ان کے مہمانوں پر نظر رکھنے کا کام بھی کرتا رہا۔ سات سال کی عمر کا وہی جاسوس لڑکا آج آر ایس ایس کی وجہ سے بھارت کا وزیر اعظم بن چکا ہے، جس کا زیورخ میں بولا گیا یہ فقرہ اپنے اندر بہت سے معنی لئے ہوئے ہے کہ ''بھارت اکیلا امن کی ضمانت نہیں دے سکتا‘‘۔
یہ خفیہ اجلاس آر ایس ایس کے چیف موہن بھگوت کی سربراہی میں ہوا، لیکن اس کی جو سب سے اہم اور خطرناک کہانی سامنے آئی ہے، اس میں بھارت سرکار کے وزیر مملکت برائے دفاع ڈاکٹر سبھاش بھابرے کی خصوصی شرکت ہے۔ تین دن جاری رہنے والے اس اجلاس کے دوران اس کی دوسری کوئی سرکاری مصروفیت سامنے نہیں آئی۔ اس اجلاس میں شرکت کے لئے ڈاکٹر سبھاش بھابرے نے سرکاری گاڑی بھی استعمال نہیں کی اور وزارت دفاع میں اپنی اس غیر حاضری کے بارے میں یہی بتایا گیا کہ وہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے گھر پر آرام کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے گھریلو ملازمین اور سٹاف کے مطابق وہ گھر پر تھے ہی نہیں۔ یہی وہ اہم نکتہ ہے جو اس شبے کو تقویت دیتا ہے کہ اس اجلاس میں خطرناک منصوبے بنائے گئے ہوں گے۔ اجلاس میں موہن بھگوت اور ڈاکٹر سبھاش بھابرے کے علاوہ تین مرتبہ مسلسل آر ایس ایس کے سیکرٹری جنرل منتخب ہونے والے سریش بھیا جی، سیکرٹری آر ایس ایس سریش سونی، عسکری ونگ کے کرشن گوپت اور بم بنانے کے ماہر مجوج بیانی نے بھی شرکت کی۔
اجلاس میں طے کئے گئے منصوبوں اور فیصلوں کی روشنی میں مہاراشٹر، گجرات اور اتر پردیش میں آر ایس ایس کی بلائی گئی خصوصی بیٹھکوں کے بعد اس کے مقامی عسکری ونگز میں جوش اور ہلچل دیکھنے میں آئی۔ بہت سے لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ ''پاکستان کو اب جلد ہی مجا( مزہ) چکھایا جائے گا‘‘۔ خفیہ اجلاس کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے چیف، موہن بھگوت کی طویل ملاقات کے دوران ڈاکٹر سبھاش بھابرے اور اجیت دیول کی ملاقات بھی سامنے آئی جن کی مسلم دشمنی اور پاکستان سے نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
آر ایس ایس کی پالیسی ساز کمیٹی کی میٹنگ میں پاکستان کے خلاف محدود فوجی کارروائی کو لازمی قرار دیا گیا اور اس فیصلے کی روشنی میں وزیر اعظم اور ان کے مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دوول، آرمی چیف اور 'را‘ کے نئے چیف کی خصوصی میٹنگ کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر کے علا قے کشتوار، سامبا، جموں کے علاوہ بٹھنڈہ میں بھارتی فوج کی سپیشل فورسز نے سرجیکل سٹرائیک کی خصوصی مشقیں شروع کر دیں۔ یہ مشقیں''Force RRF D ‘‘ نے کیں، جن کے دوران دیکھا گیا کہ ایسی فلمیں اور ویڈیوز تیار کی جا رہی ہیں جن سے لگتا تھا کہ کسی جنگی فلم کی شوٹنگ کی جا رہی ہے۔ یہ چیز شرکاء کے لئے بھی حیران کن تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ رائے عامہ کو بیوقوف بنانے کے لئے اس فلمی شوٹنگ کو اپنے کسی ''کارنامے‘‘ کے طور پر استعمال کیا جائے گا، کیونکہ اس میں سپیشل فورسز کے کئی جوانوں اور افسروں کو پاکستانی وردیاں پہنائی گئی تھیں۔ شاید ہندو ووٹروں کے پاکستان دشمن جذبات سے کھیلنے کے لئے مودی کوئی نیا ڈرامہ رچانے جا رہا ہے۔
16 نومبر 2016ء کے اجلاس میں کیا جانے والا دوسرا فیصلہ بابری مسجد کی جگہ ''اجودھیا مندر‘‘ کی تعمیر شروع کرنے سے متعلق ہے۔ نریندر مودی کو آر ایس ایس نے آگاہ کر دیا ہے کہ اتر پردیش میں ہونے والے آئندہ انتخابات کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بنتے ہی ہمیں اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر شروع کرنا ہو گی۔ یو پی کے انتخابات میں بھارتی ووٹروں کو اسی نعرے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کرتے ہوئے ایکسپلائٹ کیا جائے گا۔ آر ایس ایس کے اس اجلاس میں کئے گئے دوسرے فیصلے کے مطابق جنوری کے آخر یا فروری میں لائن آف کنٹرول، ورکنگ بائونڈری یا انٹرنیشنل بارڈر کراس کرتے ہوئے ایک محدود ملٹری آپریشن کیا جائے گا۔ اس اطلاع کی تصدیق بھارت کے نئے آرمی چیف کا یہ اعلان ہے کہ ہم کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پاکستان کے خلاف ''پہلے کی طرح سرجیکل سٹرائیک کریں گے‘‘۔ نئے بھارتی آرمی چیف کے الفاظ کے چنائو کی طرف دھیان دیں تو اس نے یہ نہیں کہا کہ سرجیکل سٹرائیک کر سکتے ہیں، بلکہ اس نے ''کریں گے‘‘ کے الفاظ استعمال کیے۔
پاکستان کے محافظوں کو اپنی داخلی اور دفاعی پالیسیوں کو مرتب کرتے وقت کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سات سال کی عمر میں چائے بیچنے والے جس لڑکے کو مسلمانوں سے نفرت سکھائی گئی ہو، جو اپنے بچپن سے آر ایس ایس کے لئے جاسوسی کے فرائض انجام دیتا رہا ہو، جس نے شادی کے دو ماہ بعد آر ایس ایس کے کہنے پر اپنی نو بیاہتا بیوی اور گھر بار چھوڑ دیا ہو، جس نے1971ء کی بنگلہ دیش تحریک میں مکتی باہنی کے سیکٹر کمانڈر کی حیثیت سے حصہ لیا ہو، جس شخص کی رگ رگ میں پاکستان سے نفرت اور مسلم دشمنی بھری ہوئی ہو اور جس نے چند ہفتے قبل آر ایس ایس کے ذہنی پیرو کارکو آرمی چیف اور اس سے بھی دو قدم آگے کی انتہا پسندانہ سوچ کے حامل جنرل کو بھارت کا ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن مقرر کیا ہو، وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
ہمارے باخبر ادارے کیسے بے خبر ہو سکتے ہیں جبکہ 'را‘ اور آئی بی کے مقرر کئے جانے والے نئے سربراہوں کا سروس ریکارڈ چیخ چیخ کر بول رہا ہے کہ یہ لوگ نریندر مودی کے خیالات اور سوچ کے سب سے بڑے حامی اور پیروکار ہیں اور ان کی تعیناتی میں اُس اجیت دوول کا بھی ہاتھ ہے جو پاکستان میں رہ کر جاسوسی کے دعوے کرتا نہیں تھکتا اور جو مختلف سیمیناروں میں کھلے عام جنتا کو کہتا پھرتا ہے کہ پاکستان کو تباہ کرنا اس کی زندگی کا پہلا اور آخری مقصد ہے۔ بڑھکیں مارنے والا بزدلوں کا یہ ٹولہ شاید بھول رہا ہے کہ پاکستان میں ان کا سامنا ایسے مجاہدوں سے ہے جو پاک وطن کی دہلیز پر رکھے گئے ناپاک قدموں کو اس کی ٹانگوں سمیت کاٹ دیتے ہیں۔
بھارتی فوج کے نئے چیف، جس کے بارے میں مشہور کیا گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھمبر میں ''سرجیکل سٹرائیک‘‘ اس کی نگرانی میں کی گئی تھی اور جو خود کو سرجیکل سٹرائیکس کے زبردست ماہر کے طور پر مشہور کراتا ہے، یہ کہتے نہیں تھکتا کہ 3 کور کی کمانڈ کے دوران میانمار (برما) میں ناگا باغیوں کے خلاف سرجیکل آپریشن اس کا بے مثال کارنامہ ہے۔ بڑھکیں مارنے اور خود کو ہیرو کہلوانے والے بپن راوت سے شاید کسی نے پوچھا نہیں کہ آپ کی سپیشل فورسز کے میانمار آپریشن میں ناگا باغیوں کے پاس ہلکے اسلحے کے سوا کچھ نہیں تھا جبکہ پاکستان میں ان کے مقابل وہ فورس ہو گی جس کے جوانوں کے ہاتھوں میں دنیا کا جدید ترین اسلحے کے علاوہ زبانوں پر قرآن پاک کی وہ آیات ہیں جو انہیں شہادت کی صورت میں ایسی زندگی کی نوید دیتی ہیں جہاں انہیں حوض کوثر سے فیض یاب کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے!