بھارتی پنجاب کے شہر جالندھر میں اکالی دل اور بی جے پی کے انتخابی اتحاد سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے ایک بار پھر واشگاف الفاظ میں دھمکی دی ہے کہ بھارت سے پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں کے پانیوں کا ایک ایک قطرہ روکا جائے گا۔ 5 جنوری کو نئی دہلی میں منعقدہ اجلاس میں ورلڈ بینک یہ کہہ کر پیچھے ہٹ گیا کہ جہلم پر کشن گنگا اور چناب پر ریتل ڈیم کا مسئلہ دونوں ملکوں کو دو طرفہ مذاکرات یا غیر جانبدار ماہرین کی مدد سے حل کرنا چاہیے۔ ستم دیکھیے کہ بھارت کی درخواست پر ورلڈ بینک نے پاکستان سے مشورہ کئے بغیر تصفیہ کے لئے تمام کارروائی خود سے ہی منجمد کر دی۔ کیا انڈس واٹر ٹریٹی کا ضامن ورلڈ بینک، نریندر مودی کی پاکستان کی جانب بہنے والے دریائوں کا پانی روکنے کی دھمکیوں سے بے خبر ہے؟ ورلڈ بینک کے آبی ماہر جنوبی افریقہ کے جان بریسکو جو بنگلہ دیش، ہندوستان، برازیل میں 35 سال تک خدمات انجام دے چکے ہیں، کی 2006ء میں پاکستان اور بھارت کی آبی معیشت پر لکھی جانے والی کتابوں اور بین الاقوامی سطح کے مقالوں میں خبردار کیا گیا تھا کہ ''مستقبل قریب میں پانی کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت میں کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے‘‘۔ ورلڈ بینک کی جانب سے غیر جانبدار ماہر کے طور پر فرائض انجام دینے والے جان بریسکو کہتے ہیں کہ مستقبل میں پانی کی لہروں کے ساتھ ابھرنے والے سنگین خدشات کو دیکھتے ہوئے مجھے پاکستان اور بھارت کے عوام کی حالت پر ابھی سے ہی ترس آ نے لگا ہے کیونکہ آنے والے وقت میں معیشت کی ممکنہ ابتری کی جانب دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان کی جو بھی قیادت آتی ہے اسے اپنی معیشت اور ملک کو پیش آنے والی غذائی قلت کا بالکل احساس نہیں ہوتا۔
بھارت کے دریائے چناب پر 24، دریائے جہلم پر 52 اور دریائے سندھ پر 18 ڈیم بنانے کی تیاریوں سے سب واقف ہیں، اگر کوئی غافل ہے تو وہ پاکستان ہے۔ بگلیہار، کشن گنکا اور ریتل ڈیم ہی نہیں بلکہ بھارت خرگوش کی رفتار سے مغربی دریائوں پر جگہ جگہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس اور ڈیم تعمیر کرتے ہوئے پاکستان کا حلق خشک کئے جا رہا ہے، اور پاکستان کچھوے کی رفتار سے صرف زبانی احتجاج کرنے میں مصروف ہے۔ وہ تو بھلا ہو مودی کا کہ وہ پانی روکنے کے تازیانے لگاتے ہوئے ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے ورنہ کبھی کبھی تو شک ہونے لگتا ہے کہ پاکستان کے حکمران عوام کو بھارت کے آبی حملوں سے بے خبر رکھنا چاہتے ہیں؛ حالانکہ دنیا بھر کے آبی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ چناب اور جہلم پر بھارت کے بنائے جانے والے ڈیمز پاکستان کی سلامتی اور معیشت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
جان بریسکو کہتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان پر گزشتہ کئی برسوں سے آبی حملوں کا آغاز کیا ہوا ہے، جس سے پاکستان کے غذائی مورچے تباہ ہوتے جا رہے ہیں جبکہ پاکستان کا نیرو بانسری بجانے میں مصروف رہتا ہے۔ 1960ء میں دریائوں کی تقسیم کے لئے امریکہ اور ورلڈ بینک کے ذریعے دونوں ملکوں کی باہمی رضامندی سے طے پایا تھا کہ بھارت کو ان دریائوں کے پانیوں پر صرف اس حد تک اختیار دیا جائے گا کہ وہ چناب اور جہلم پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹس بنا تو سکتا ہے لیکن اس پابندی کے ساتھ کہ نہ تو پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کی مقدار میں کمی کی جائے گی اور نہ ہی قدرتی طور پر ان دریائوں میں گرنے والے پانیوں کا رخ بدلا جائے گا۔ لیکن اس کی کسی ایک بھی شق پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے، مودی نے انڈس واٹر ٹریٹی سے ہی انکار کر دیا ہے۔ کیا ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ بے خبر ہیں کہ پاکستان کو اپنی فصلوں کی آبیاری کے لئے جب پانی کی ضرورت ہوگی تو اس وقت بھارت کی طرف سے پانی کے بہائو کو کم کرنا یا اس کا رخ موڑنا پاکستان کے لئے کس قدر نقصان دہ ہو گا؟ بگلیہار کے معاملے میں پاکستان کو بالکل یہی صورت حال درپیش ہے، جس پر پاکستان کا یہ اعتراض بالکل جائز اور منا سب ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے بگلیہار پر گیٹ نصب نہیںکیے جا سکتے۔ بھارت کا کہنا یہ ہے کہ اگر یہ گیٹ نہ لگائے جائیں توکچھ عرصہ بعد جمع ہونے والی سلٹ (silt) کا کیا ہوگا۔ اگر چناب پر بھارت کے بنائے جانے والے صرف بگلیہار ڈیم کی سلٹ کا ہی معاملہ ہوتا تو بھارتی ضد کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے کچھ حل نکل سکتا تھا، لیکن یہاں پر تو ریتل، سوالکوٹ، پاکلدل، برسار، دل ہست اور جسپاسمیت ڈیمز کی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔
پاکستان کو پی پی حکومت کا پانچ برس قبل کا وہ منظر سامنے رکھنا ہوگا جبکہ بھارت نے بگلیہار پر بے تحاشا پانی ذخیرہ کر نے کے بعد اسے یک دم، اُس وقت چھوڑ دیا تھا جب پاکستان کو پہلے ہی بارشوں کی وجہ سے سیلاب کا سامنا تھا۔ وہ تو شکر ہے کہ بارشیں رک گئیں ورنہ پاکستان میں اگر شدید ترین بارشوں کا سلسلہ چند دن اور جاری رہتا تو پاکستان کو بھارت کے چھوڑے ہوئے پانی سے نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ کرانے والی برطانیہ اور امریکہ جیسی طاقتوں کو بھارت کی نیتوں اور نفرتوں کا تجربہ تھا، انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ اس طرح کے معاہدے ان ملکوں کے درمیان ہوتے ہیں جن میںکوئی اختلاف نہ ہو۔ جیسے بنگلہ دیش کو یقین ہے کہ اس کے مغربی دریائوں پر بھارت جو ڈیم بنا رہا ہے، وہ اس کی جانب بہنے والے پانیوں کا رخ کبھی نہیں موڑے گا۔ انڈس ٹریٹی کا معاہدہ اگر دوست ممالک کے درمیان ہوتا تو بھارت پاکستان کو ربیع اور خریف کی فصلوں کے لئے بخوبی اضافی پانی مہیا کرتا لیکن یہاں تو سب جانتے تھے کہ دونوں ملکوں میں مسئلہ کشمیر وجہ نزاع ہے اور بھارت میں مسلم دشمنی کا زہر بھرا ہوا ہے۔
ورلڈ بینک کے آبی ماہر جان بریسکو نے لکھا ہے کہ وہ پانچ سال نئی دہلی میں رہنے کے بعد پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ بھارتیوں کے دل میں پاکستان دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور وہ ہمیشہ اسی طاق میں رہتے ہیں کہ موقع ملے تو اس کا کام تمام کر دیا جائے۔ اس میں بھارتی میڈیا اپنی حکومت سے بھی دو ہاتھ آگے ہے کیونکہ جب بگلیہار کا معاملہ ورلڈ بینک تک پہنچا تو بھارت کے چوٹی کے اخبارات جن میں ٹائمز آف انڈیا، دی ہندوستان ٹائمز، دی ہندو، انڈین ایکسپریس اور اکنامک ٹائمز شامل ہیں نے پاکستان کے اعتراضات کو یکسر رد کرتے ہوئے بھارت کے موقف کی بھر پور حمایت میں ایک ہی طرح کے الفاظ کے ساتھ آسمان سر پر اٹھا لیا تھا، ان کے دیئے گئے حوالوں سے لگ رہا تھا کہ کسی نے ان سب کو ایک ہی فائل تھمائی ہوئی ہے۔ پاکستان کی جگہ کوئی دوسرا ملک ہوتا تو وہ IWT کا معاہدہ کرتے وقت یہ شق لازماً شامل کراتا:
''Pakistan would agree only if limitations on India's capacity to manipulate the timing of flows was hardwired.