"MABC" (space) message & send to 7575

نریندر مودی: مکتی باہنی کا سیکٹر کمانڈر

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کیا اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ وہ مکتی باہنی کے سیکٹر کمانڈر کی حیثیت سے 1970-71ء میں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والوںکے قتل عام میں براہ راست شریک رہے؟ کیا وہ اس حقیقت سے بھی انکار کریں گے کہ وہ مکتی باہنی کے سیکٹر کمانڈر کی حیثیت سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کا حصہ رہے؟ اگر وہ ان جنگی جرائم سے انکار کرتے ہیں تو پھر کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ 1970-72ء کے دو تین برسوں کے دوران وہ کہاں تھے؟ اگر وہ بھارت سے باہر رہے تو کون سے پاسپورٹ پر، کب اور کیسے بیرون ملک روانہ ہوئے اور کب واپس بھارت پہنچے؟ بنگلہ دیش موومنٹ سے پہلے1970ء میں مغربی بنگال پہنچنے کے بعد وہ کہاں رہے ؟ کیونکہ اگر وہ اس دوران بھارت میں اپنی موجود گی ظاہر کریں گے تو ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اپنی روزمرہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وہ کیا کام کرتے اورکہاں کرتے تھے؟ اگر وہ بھارت میں کسی بھی روزگار یا ملازمت پر رہے ہوں گے تو ان کے پاس اس ادارے کا جاری کردہ ملازمت نامہ بھی ہو گا اور اگر اس عرصے میں وہ کوئی ذاتی کاروبار کر رہے تھے تو اس کا ان کے پاس کوئی انکم ٹیکس ریکارڈ بھی لازمی ہو گا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ کچھ بھی کھائے پیے بغیر تین سال تک کسی ایسی جگہ چھپ کر بیٹھے رہے ہوں جہاں کوئی انہیں اور نہ ہی وہ کسی کو دیکھ سکتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں رہنے کا ثبوت تو انہوں نے حسینہ واجد کے پہلو میں کھڑے ہو کر یہ فخریہ اعلان کر کے خود فراہم کردیا تھا کہ بنگلہ دیش کی آزادی میں وہ بھی شریک تھے۔
17 ستمبر 1950ء کو پیدا ہونے والے مودی کی ابتدائی زندگی دیکھیں تو پرائمری سکول سے ہی وہ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم''اکھیل بھارتیہ ودیارتی پریشد‘‘ کے رکن بن گئے تھے۔ 1968ء میں 18 سال کے ہوئے تو ان کی شادی ہوئی لیکن تین ماہ بعد ہی وہ ایک دن ایسے غائب ہوئے کہ کئی سال گھر والوں کو ان کا پتا ہی نہ چل سکا۔ نریندر مودی نے 38 سال کی عمر میں دہلی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر 1983ء میں گجرات سے ایم اے کیا۔ وہ چونکہ لڑکپن سے ہی راشٹریہ سیوک سنگھ سے منسلک رہنے کی وجہ سے موالیوں جیسی گفتگو کے عادی رہے اس لئے ان کا نان سینس رویہ اور انداز تخاطب کبھی مہذبانہ نہ ہو سکا۔ 2002ء کے گجرات فسادات کے بارے میں نیو یارک ٹائمزکو انٹر ویو دیتے ہوئے مودی کے یہ الفاظ کس قدر سفاکانہ ہیں: ''2300 مسلمانوں کے قتل عام پر کچھ نہیںکہنا چاہتا، ہاں یہ افسوس ضرور رہے گا کہ اس دوران میڈیا کو اپنے ساتھ نہ ملا سکا‘‘۔ سانحہ سقوط ڈھاکہ، جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا، اسے45 سال ہو چکے ہیں۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا تھا، بلکہ پاکستان بنتے ہی بنگلہ عوام کو پاکستان سے متنفر کرنے کے لئے پنجاب کے خلاف نفرت پھیلائی گئی۔ 1970ء کے عام انتخابات کے دوران مشرقی پاکستان میں جو شورش برپا ہوئی اس کا رخ بھی مغربی پاکستان کی جانب موڑ دیا گیا۔ مسلح بغاوت شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان کی فوج سے متنفر کرنے کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کی مہم شروع کر دی گئی۔ بنگلہ خواتین کی جبری آبرو ریزی اور ظلم و زیادتی کا ایسا طوفان اٹھایا گیا کہ خدا کی پناہ۔ امریکی، بھارتی اور مغربی میڈیا میں سراسر جھوٹ پر مبنی اس قدر نفرت انگیز پروپیگنڈا کیا گیا کہ دشمن تو دشمن، ہمدرد اور خیر خواہ بھی کھچے کھچے رہنے لگے۔ یہی بھارت اور مغربی طاقتوں کی کامیابی تھی جنہوں نے بنگلہ دیش بنانے میں بھارت اور شیخ مجیب الرحمان کا بھر پور ساتھ دیا۔ حقیقت کیا تھی؟ وہ کب کی سامنے آ چکی۔ سچ یوں واضح ہوا کہ افواج پاکستان کے دشمنوں کے کتابیں لکھیں اور اخبارات میں مضامین سپرد قلم کیے جن میں پاک افواج کو کلین چٹ دی گئی اور بھارت کا جھوٹ ریزہ ریزہ ہو کر سب کے سامنے آگیا۔ 
بنگلہ دیش میں کیا ہوا، کس طرح ہوا اور کون لوگ ظلم و بر بریت کا کھیل کھیلتے رہے؟ اس پر بہت سی فلمیں بن چکیں اور کتابیں لکھی گئیں جن کی فہرست بہت طویل ہے۔ چند معروف مصنفین اور دانشوروں کا حوالہ کافی ہوگا۔ لیکن میں یہ کہتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا کہ بنگلہ دیش بنانے میں ہماری سیاستدانوں اور سول و ملٹری بیوروکریسی پر مشتمل طاقتور طبقوں نے بھی بھارتی اور امریکی منصوبے کو آگے بڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
صحافی اور وقائع نگار آر جے رومیل اپنی کتاب Death by Government میں لکھتے ہیں: '' مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں پر منظم حملے کرتے ہوئے انہیں تشدد اور نسل کشی کا نشانہ بنایا گیا۔ ہزاروں مسلمان خاندانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ عورتوں کی وسیع پیمانے پر عصمت دری کی گئی، ان کی چھاتیوں کو خصوصی طور پر تیار کئے گئے چاقوئوں سے کاٹا گیا۔ انتہا یہ کہ اس ظلم سے بچے بھی محفوظ نہ رہ سکے اور وہ خوش قسمت رہے جو اپنے والدین کے ساتھ ہی قتل کر دیے گئے۔ بچ جانے والے ہزاروں بچوں کو جنسی تشدد اور پھر عمر بھر معذوری کی زندگی گزارنا پڑی۔ چٹاگانگ، کھلنا اور جیسور میں بیس ہزار سے زیادہ بہاریوں کی لاشیں بازیاب ہوئیں۔ یہ منظر دنیا بھرکے میڈیا کے لئے اس قدر اندوہناک تھا کہ بین الاقوامی میڈیا سے منسلک خواتین صحافی چکرا کر رہ گئیں‘‘۔ آر جے رومیل نے اپنی کتاب میں بہت سے تصویری ثبوت دیتے ہوئے لکھا کہ ایک اندازے کے مطا بق ڈھائی لاکھ سے زیادہ غیر بنگالیوں کو مکتی باہنی اور ان کی کمانڈ کرنے والی بھارتی فوجیوں اور ان کے ساتھ آنے والے غنڈوں نے قتل کیا۔ بھارت کا موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بحیثیت سیکٹر کمانڈر مکتی باہنی میں پیش پیش تھا جس کے مکمل ثبوت میں اپنے کسی آئندہ کالم میں دوں گا۔
بھارت کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی را کے سابق سینئر افسر بی رامن نے بنگلہ دیش کی آزادی کے تناظر میں اپنی کتاب The Cowboys of RAW میں پاک بھارت جنگ کے حوالے سے انکشاف کیا کہ ''بھارت کی خفیہ ایجنسی را نے مکتی باہنی کی تربیت کی اور انہیں اسلحہ فراہم کرنے کے علاوہ مغربی پاکستان کے خلاف نفسیاتی پروپیگنڈا مہم چلائی جس میں پاکستان کی فوج کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا۔ اس کی ایک مثال بالی وڈ کے مزاحیہ اداکار ایس کے جوہرکی صرف دو ہفتوں میں تیار کی جانے والی فلم ''جوئے بنگلہ ‘‘ ہے جس میں پاکستانی فوجیوں کی وردیاں پہنے ہوئے پنجابیوں کی شرمناک مظالم کی فلمیں بنا کر بھارت کے علاوہ دنیا بھر میں نمائش کے لئے بھیجا گیا تاکہ لوگ پاکستانی فوج سے نفرت کرنے لگیں۔ 
روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایجنٹ یوری بیزیمنوف نے بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا کہ ''شیخ مجیب الرحمان سمیت مشہور بنگالی رہنمائوں کی انقلابی تربیت ہم نے روس اور بھارت میں کی تھی، پھر ان کی مدد سے مشرقی پاکستان میں بغاوت برپا کی اور بنگلہ دیش بننے کے فوراًََ بعد انہیں اپنے انقلابی ساتھیوں کے ہاتھوں مروا دیا کیونکہ وہ بہت سے رازوں سے واقف ہو چکے تھے‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں