ملتان میٹرو بس کی افتتاحی تقریب میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ انتظامیہ نے اس کیلئے با قاعدہ منظوری نہ لی ہو۔ ملتان میٹرو بس کے اس عالی شان منصوبے اور اس کی منا سبت سے مرتب کئے گئے خوبصورت پروگرام کی اس افتتاحی تقریب کی جہاں اور بھی بہت سی اہم خصوصیات یاد رکھی جائیں گی وہاں وہ منظر ملتان کے صوفیائے کرام کی دھرتی ابھی تک نہیں بھولی ہو گی جب وہاں کے مشہور مخدوم جاوید ہاشمی کو شاہی دربار میں اس وقت سب نے فرط جذبات سے آبدیدہ ہوتے دیکھا۔۔۔اس وقت کا وہ منظر جاوید ہاشمی کی جانب دیکھتے ہوئے زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہا تھا٭ آپ کی محفل میں آ کر رو دیئے۔۔۔۔سر جھکایا سر جھکا کر رو دیئے!! حکمران وہاں موجود لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے جب ان کی نشستوں کے سامنے سے گزر رہے تھے تو ممکن ہے جاوید ہاشمی کی آنکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوئوں کا سیلاب آیا ہو اور وہ انہیں گلے لگا لیتے کہ کہیں ان کا ایک پرانا دیوانہ ان کی محبت اور جدائی میں اکیلے میں گھٹ گھٹ کر نہ رہ جائے۔۔لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہوہ ان سے ملے بغیر آگے بڑھ گئے ۔
جاوید ہاشمی کے ساتھ اس بے اعتنائی کو وہاں موجود سرکاری افسران اور نواز لیگ کے سیا سی لیڈران سمیت یوسف رضا گیلانی بھی محسوس کئے بغیر نہ رہ سکے لیکن حکمرانوں کے موڈ کے سامنے سب بے بس نظر آئے حالا نکہ افتتاح سے ایک دن قبل جیسے ہی مدعوئین کی فہرست میں جاوید ہاشمی کے نام کا چر چا ہوا تو میڈیا میں سب ایک دوسرے سے شرطیں لگا رہے تھے کہ کل جاوید ہاشمی کے سر پر ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ نواز کا تاج سجنے ہی والا ہے۔۔۔۔اور با خبر اطلاع کے مطا بق اپنے گھر میں مسلم لیگ نواز کا جھنڈا لہرانے کیلئے تیاریاں بھی کر لی گئی تھیں لیکن مراد بر نہ آ سکی اور جاوید ہاشمی کا تیار کرایا گیا وہ جھنڈا لپیٹ کر آنے والے کسی اچھے دن کیلئے سنبھال لیا گیا ہے کیونکہ واپسی کا اجا زت نامہ لینے کی کوششیں بھر پور طریقے سے ابھی بھی جا ری ہیں ۔لاہور کے وزیر تو پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن کچھ دوسرے مرکزی وزیر گڑ بڑ کر تے ہوئے ان کی راہ میں خواہ مخواہ کے روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔جاوید ہاشمی کیلئے سب سے تکلیف دہ بات اس تقریب کے بعد یہ ہوئی کہ جب افسران اور علاقائی لیڈران نے دیکھا کہ ہاشمی صاحب کو کوئی خاص لفٹ نہیں کرائی گئی تو ان سب کے رویئے بھی یک دم بدل کر رہ گئے اس وقت یقینا جاوید ہاشمی کی زبان پر یہ شعر آتے آتے رہ گیا ہوگا ؎
حیران ہوں کہ مدت قلیل میں۔۔۔
کچھ لوگ میری سوچ سے زیا دہ بدل گئے
کس قدر افسوسناک بات ہے کہ دو سالوں سے ایک آدمی آپ کے سب سے بڑے سیا سی مخالف ہی نہیں بلکہ سیا سی دشمن کی ایسی تیسی کرتے ہوئے اس کے پرخچے اڑانے میں دن رات ایک کئے جا رہا ہے لیکن ابھی تک آپ ہیں کہ دل ہی نہیں پسیج رہا آخر آپ اس بے چارے سے اور کیا چاہتے ہیں اب یہی کسی رہ گئی ہے کہ جاوید ہاشمی عمران خان کے گھر کے باہر دھرنا دے کر بیٹھ جائے کہ جب تک انہیں مسلم لیگ نواز میں واپس نہیں لیا جاتا وہ عمران خان کے گھر کے باہر سے دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ اب دیکھئے نہ کہ اسلام آباد کے اس قدر سرد موسم میں وہ اس دھرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟۔ اس کی بجائے اگر ان سے اسلام آباد پریس کلب میں روز کی ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کرانے کا کہا جائے تو ایک سیکنڈ کی دیر بھی نہیں کریں گے اور عمران خان کے خلاف جس قسم کے اور جو جو الزامات آپ چاہتے ہیں اس سے بھی زیا دہ کہنے کو تیار ہیں لیکن اس کیلئے آپ کو معافی کا عہد کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز میں واپس لینے کا پکا وعدہ کر نا پڑے گا اور یہ واپسی کسی لاورث کی طرح نہیں بلکہ وزیر اعظم کی موجود گی میں اسی طرح ہونی چاہئے جیسے ماروی میمن کی ہوئی تھی۔
ملتان میٹرو کی افتتاحی تقریب کے بعد ہاشمی صاحب نے میڈیا کے خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں مسلم لیگ نواز میں واپس جانے کی جلدی نہیں ہے اور دوسرا وہ مسلم لیگ سے گئے کب تھے اگر کوئی شخص چار چھ ماہ کیلئے فرانس یاا مریکہ رہ آئے تو رہتا تو وہ پاکستانی ہی ہے اسی طرح وہ کل بھی مسلم لیگی تھے اور آج بھی مسلم لیگی ہیں ابھی موسم ذرا سرد ہے تھوڑا سا ابر کھلنے دیں پھر آپ دیکھیں گے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟۔ جاوید ہاشمی نے جو سب سے خوبصورت بات کی وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے کہ اب ان کی زندگی کا مقصد مسلم لیگ نواز میں شامل ہونا نہیں بلکہ'' ملک اور قوم کو عمران خان کے غلط منصوبوں سے بچانا ہے کیونکہ وہ جمہوریت کو قتل کرکے ملکی ترقی کے آگے بند باندھنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور جاوید ہاشمی نے عوام کی طاقت سے عمران خان کو اس سے اسی طرح روکنا ہے جیسے 2014ء میں ڈی چوک کے دھرنے میں جمہوریت پر مارے جانے والے شبخون سے روکا تھا؟ اب کیا کیجئے کہ وزیر اعظم سے ان کے انتہائی قریبی اور ہمدرد کئی بار ہاشمی صاحب کی واپسی کی درخواستیں کر چکے ہیں بلکہ اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ اسلام آباد والے لاہور والوں سے شکوہ کرتے ہیں کہ آپ میاں صاحب کو مجبور نہیں کرتے اور لاہور والے اسلام آباد والوں سے شاکی ہیں کہ شائد آپ خود نہیں چاہتے کہ ہمارا دوست واپس آ جائے۔۔۔اب اسلام آباد والوں کو کیا بتایا جائے کہ اس نیک مقصد کیلئے لاہوری گروپ تو لندن تک کا چکر لگا آیا ہے۔
مسلم لیگ نواز آج کل عوامی رابطہ مہم اور پاناما کا اثر زائل کرنے کیلئے پنجاب بھر میں ورکرز کنونشن اور کے پی کے میں جلسوں کی تیاریاں کر رہی ہے اس لئے گوجرانوالہ اور سیا لکوٹ کے بعد اب لاہور میں بہت بڑا ورکرز کنونشن منعقدکیا جارہا ہے جبکہ کے پی کے میں صوابی اور ہری پور ہزارہ میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بڑے جلسوں سے خطاب کرنے والے ہیں جن کی بھر پور تیاریاں عروج پر ہیں۔۔۔ گزشتہ روز پنجاب کے ورکرز کنونشن میں نون لیگی اپنی پوری طاقت سے عمران خان پر دھاڑ رہے تھے اور عمران خان کی ایسی تیسی کر تے نظر آئے۔ کاش وہ اتنا جوش اور ولولہ کبھی سچ بولنے کے لئے بھی دکھا سکیں!