گوجرانوالہ، سیالکوٹ، لاہور اور اب ہری پور میں مسلم لیگ نواز کے ورکرز کنونشنز میں وزیر اعظم کی نمائندگی کرتے ہوئے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق، سابق وفاقی وزیر پرویز رشید اور صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اﷲ نے نہ جانے کس کو پیغام دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ میاں نواز شریف صرف عوام کی مرضی سے جائیں گے، ان کے علاوہ ملک کے کسی بھی ادارے اور شخصیت کو انہیں نااہل کرنے یا گھر بھیجنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آئین کے تحت حلف اٹھانے والے مرکزی وزراء اور سب سے بڑے صوبے کی حکومت میں قانون کا قلم دان رکھنے والے دھمکیاں دے رہے ہیں کہ ''صرف عوام کا فیصلہ مانا جائے گا کسی اور کا نہیں‘‘۔ عدلیہ میں چونکہ ''عوام‘‘ نہیں ہوتے توکیا اس کا فیصلہ بھی قبول نہیں ہوگا؟
کسی بھی مہذب ملک میں عوام نہیں بلکہ اس کی عدلیہ کے سینئر ترین جج تنازعات کے فیصلے کرتے ہیں۔ یہ دنیا کی شاید پہلی جمہوریت ہے جس کے وزرا کسی ایسے آئین کو مانتے ہیں جس میں تحریر ہے کہ فیصلے جج یا قاضی نہیں بلکہ عوام کریں گے اور عوام بھی وہ جو سامنے بیٹھے ہوں۔کوئی دو سال پہلے بہاولپور میں مسلم لیگ کے ورکرز سے خطاب میں وزیر اعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ''حکومتیں عوام کے ووٹوں سے بنتی ہیں اور اسے توڑکوئی اور دیتا ہے، اب یہ سلسلہ ختم ہوجانا چاہیے‘‘۔ اگر اس فقرے کو کچھ اس طرح لکھا جائے کہ ''انتخاب کے روز عوام لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعد اپنے ووٹوں سے منتخب تو کسی اور کو کرتے ہیں، لیکن صبح جب سو کر اٹھتے ہیں تو یہ دیکھ کر سر پکڑ لیتے ہیں کہ ان پر حکومت کوئی اور کر رہا ہوتا ہے‘‘۔ اور یہ سلسلہ صرف 2013ء کے انتخابات تک ہی محدود نہیں بلکہ مدتوں سے چلا آ رہا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کی وہ پریس کانفرنس ریکارڈ پر ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ''2008ء کے انتخابات کے دوران امریکہ کے نائب صدر اور سفیر نے ان کے گھر آ کر کہا تھا کہ آپ کی جماعت (ق لیگ) اگر یہ الیکشن جیت بھی گئی تو امریکہ ان نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتیں عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ کسی اورکی مرضی سے ان پر مسلط کی جاتی ہیں۔
وقت کیا کیا نشانیاں چھوڑ جاتا ہے اور لوگوں کو سمجھانے کے لئے کیا کیا انہونیاں دکھا نے لگتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ 1990ء میں بے نظیر بھٹو حکومت اور 1993ء میں نواز حکومت کس نے ختم کرائی اور پھر 1996ء میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو کس نے برطرف کروایا ۔ بظاہر اس میں کوئی قصور وار نہیں، یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حکومت گرانے اور پچھاڑنے میں شریک رہیں۔کون نہیں چاہتا کہ ملک میں عوام کی مرضی چلے اور صرف ان کے ووٹوں سے منتخب حکومت ہی قائم ہو۔ کاش کہ کوئی چیف جسٹس آف پاکستان دو سے زائد دہائیوں سے لٹکے ہوئے اصغر خان کیس کا فیصلہ حق و انصاف کے تقاضوں کے مطابق کر جاتا توکسی کو اپنے کارکنوں کے سامنے یہ الفاظ کہنے کی ہمت نہ ہوتی کہ ''میاں نواز شریف صرف عوام کی مرضی سے جائیں گے، انہیں کوئی ادارہ گھر نہیں بھیج سکتا‘‘۔
سیاسی تقریریں اپنی جگہ لیکن یہ بات اب تسلیم کر لینی چاہیے کہ پاکستان میں اقتدار کی منتقلی میں کسی حساس یا غیر حساس ا یجنسی کا اور نہ ہی امریکہ، برطانیہ یا کسی عرب ملک کی مرضی شامل ہونی چاہیے۔ اب یہ مرضی پاکستانی عوام کے حقیقی ووٹوں کے ذریعے ہی معلوم کی جانی چاہیے۔ اگر عوام کی رائے کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی مرضی کی حکومتیں ان پر مسلط ہو جائیں اور لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر ڈالے جانے والے ووٹ دھاندلی کی نذر ہو جائیں تو پھر عوام کہاں جائیں؟
اس ملک میں سیاسی جماعتوں اور فوجی حکمرانوں نے جب بھی انتخابات کا ڈنکا بجایا، مقررہ دن اس ملک کے مرد وخواتین، بوڑھے اور بیمارسبھی تپتی دھوپ اورکڑکراتی سردیوں میںگھنٹوں بھوکے پیاسے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کے بعد اپنا ووٹ اپنے ضمیر کے مطابق کاسٹ کر کے گھر واپس چلے جاتے ہیں، مگر رات گئے انہیں پتا چلتا ہے کہ ان کے ضمیر کوکسی بے ضمیر نے چرا لیا ہے۔ تو جناب وزیر اعظم اور مرکزی و صوبائی وزراء صاحبان! آپ کی دھمکیاں بجا، لیکن عوام کیسے یقین کریںکہ اقتدار صرف عوام کی مرضی سے منتقل ہونا چاہیے؟
ملک کے عوام سے ان کا حق رائے دہی کتنی بار اور کس طرح چھینا گیا، ان کی مرضی پر کسی بیرونی طاقت کی مرضی اور ایجنڈا کس طرح تھونپا گیا، اس کا ثبوت فراہم کرنے اور گواہی دینے کے لئے ملکی تاریخ کا ہر الیکشن گواہ ہے۔ اس طرح کی تاریخ بنانے والے، اس کا نظارہ کرنے والے اور اس سے مستفید ہونے والے زندہ سلامت ہیں اور غضب خدا کا، سب سے زیا دہ شور وہ مچا رہے ہیں جنہوں نے اعلیٰ عدالتوں کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں اور اب بھی اسی روش پر گامزن ہیں۔
1988ء کے انتخابات کے حوالے سے اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے روشنی کی کرن نظر آئی تھی اور یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ شاید اب ہمارے ملک میں عوام کی مرضی سے حکومتیں بنیں گی، لیکن روشنی کی لو دینے والی مشعل کو کسی ایسے گڑھے میں پھینک دیا گیا کہ روشنی تو دورکی بات، اس کا نام و نشان بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ 11مئی 2013ء کے انتخابات میں جو کچھ ہوا وہ ''جمہوریت‘‘ کے نام پر ہوا، عوام جمہوریت کے نام پر مئی کی تپتی دھوپ میں کئی گھنٹے جھلس کر ووٹ ڈالنے کے بعد گھر پہنچے تو ان کی مرضی چرائی جا چکی تھی اور دوسرے دن اس ملک کا سربراہ مملکت لاہور میں بیٹھ کر دکھ بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا کہ یہ عوام کی مرضی کا نہیں ریٹرننگ افسران کی مرضی کا الیکشن تھا۔پاکستان میںعوام کی مرضی پراقتدار منتقل ہونا ایک دلکش خواب تو ہو سکتاہے، کیونکہ جمہوریت اور انسانیت کا احترام کرنے والا اس کے تصور ہی میں کھو کر رہ جاتا ہے، لیکن گزشتہ عام انتخابات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ عوام نے تو اپنی تاریخی حاضری لگوا کر اپنے باشعور شہری ہونے کا ثبوت دیا لیکن جب نتائج دیکھے تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ انکی مرضی کہاں گئی؟ 2013ء میں بھی جیسے جیسے گیارہ مئی کی شب گزرتی رہی، انتخابی نتائج ان کا منہ چڑاتے چلے گئے اور جب صبح ہوئی تو ان کی مرضی پر کسی دوسرے کی مرضی غالب آچکی تھی۔مسلم لیگ نوازکے ورکرزکنونشنز میں عوام کی مرضی اور ووٹوں کی بات کرنے والوں کو یہ بات بھی طے کرنی ہوگی کہ اقتدار کی کرسی ہمیشہ عوام کی مرضی سے ہی منتقل ہونی چاہیے نہ کہ اندرونی اور بیرونی کسی طاقت کی زور زبردستی یا مرضی سے۔ آسمان آج بھی پوچھ رہا ہے کہ 11 مئی 2013ء کے گرم دن میں پولنگ اسٹیشنوں کے باہر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوئے ووٹوں کی مرضی کہاں گئی؟