2007 ء جولائی کی ایک شام ہم کچھ دوست کیپٹن مبین کے پاس بیٹھے حالات حاضرہ پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔ جنرل مشرف کے خلاف عدلیہ کی آزادی کے نام سے چلائی جانے والی تحریک اپنے زوروں پر تھی اور ہر کوئی جنرل مشرف کے ناتے فوج کو اپنے نشانے پر لئے ہوئے تھا۔ وہ فوج کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کسی ایک شخص کے عمل کی سزا پورے ادارے کو نہیں ملنی چاہئے جب کچھ ساتھی افسران نے انہیں فوج کی حمایت پر آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا تو انہوں نے کہا دیکھو '' میں آج جس منصب پر فائز ہوں یہ سب فوج کی وجہ سے ہے۔ اس فوج کے خلاف کیسے بول سکتا ہوں یا سن سکتا ہوں کیونکہ میں نے جب بھی مرنا ہے تو مجھے میری آبائی یونٹ نے آ کر گن سلیوٹ دیتے ہوئے قبر میں اتارنا ہے میرا تو آخری سفر بھی فوج نے ہی انجام دینا ہے اور پھر وقت نے وہ منظر بھی دیکھ لیا کہ ۔۔۔ادھر شام چھ بج کر دس منٹ پر خود کش بمبار کیپٹن سید احمد مبین کی جان لیتا ہے تو ایک گھنٹے بعد ہی پاک فوج کا دستہ ان کی جائے شہا دت کا کنٹرول سنبھالنے کیلئے چیئرنگ کراس پہنچ جاتا ہے ۔ مشیت ایزدی کے سامنے کس کی مجال ہے کہ پر مار سکے لیکن کسے خبر تھی کہ کیمسٹ ایسوسی ایشن کی ہڑتال کیپٹن مبین اور زاہد اکرم گوندل سمیت تیرہ افراد کی جان لینے کا سبب بنے گی۔ وہ ہڑتال جس کے بارے میں کئی روز سے بڑے بڑے اشتہارات شائع کیئے جا رہے تھے لیکن پنجاب حکومت تھی کہ ان ہڑتالیوں سے بات چیت نہ کرنے کی ایک ہی رٹ لگائے جا رہی تھی وہ ہڑتالی اور مظاہرین جو کل وہاں جمع تھے۔۔ اسے آج نہیں تو کل مذاکرات سے ہی حل ہونا تھا ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کی 90 شاہراہ قائد اعظم پر میئرز اور ڈپٹی میئرز سے خطاب کیلئے شام کوآمد متوقع تھی اور ان کی آمد سے پہلے پہلے ہڑتالی کیمسٹ سے چیئرنگ کراس کو خالی کرایا جانا ضروری تھا ۔یہ کیسی ہڑتال تھی یہ کیسی حکومتی ہٹ دھرمی تھی اور یہ کیسی روڈ کلیئرنس تھی جس سے میرے دوست مہربان کیپٹن مبین کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہمیشہ مسکراتے رہنے والے بہت ہی شفیق اور والہانہ محبت کرنے والے باپ کے سائے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم ہو گئے۔ کیپٹن مبین اپنی بیٹیوں کااس قدر خیال کرتے تھے لگتا تھا کہ انہوں نے خود کو صرف انہی کیلئے وقف کر رکھا ہے ۔ میرا جب بھی کبھی بیرون ملک جانا ہوتا تو واپسی سے پہلے کسی بھی شاپنگ مال یا بڑے سٹور سے کیپٹن مبین کو فون کرنا نہیںبھولتا تھا '' سر جی بچیوں سے ان کی پسند پوچھ دیں‘‘ جس پر وہ اس قدر تشکرانہ انداز سے کہتے ''بلوچ یار تم دنیا کے جس کونے میں بھی جاتے ہو میری بچیوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہو انہیں کسی چیز کی کمی تو نہیں لیکن ان کیلئے تمہارا پیار کبھی نہیں بھول سکوں گا‘‘ سوچتا ہوں کہ اب کسی بھی ملک سے واپسی سے قبل کسے فون کروں گا؟۔ پنجاب پولیس کا بے خوف نڈر اوراس کے ماتھے کا جھومرمیرا دوست میرا بہت ہی مہربان کیپٹن مبین '' ان دی لائن آف ڈیوٹی ‘‘ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہو کر ایسی جگہ جا چکا ہے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ۔Ever smiling face خوبصورت پھول کی پنکھڑیوں کی طرح ہر وقت مسکرانے والا، یاروں کا ایسا یار لگے جیسے کوئی سگا بھائی ہے۔ابھی چند ماہ پہلے اپنے کور س میٹ ایس ایس پی اسلام آباد اشعر حمید کی ناگہاں اور
جواں موت پر اس قدر روئے کہ سب کو رلا دیا۔ لاہور جوہر ٹائون جی بلاک میں ان کی تدفین اور پھر رسم قل تک کیپٹن مبین اس طرح مصروف دکھائی دیئے لگتا تھا کہ ان کے اپنے گھر کا کوئی قریبی فرد انتقال کر گیا ہو ۔ کیپٹن مبین شہید پنجاب پولیس میں میڈیا کے سب سے بڑے دوست کے نام سے مشہور تھے ۔حالیہ پوسٹنگ سے پہلے جب وہ بطور ایس ایس پی چیف ٹریفک آفیسر خدمات انجام دے رہے تھے تو ان کے اپنی فورس کو سٹینڈنگ آرڈر تھے کہ'' میڈیا سے متعلق کسی بھی شخص کا چالان نہیں کرنا یہ اس لئے نہیں کہ وہ میڈیا سے گھبراتے تھے بلکہ اس لئے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ میں نے جب بھی عوام کی بھلائی اور اپنے ادارے کی فلاح کیلئے میڈیا کو آواز دی ہے تو وہ بغیر کسی لالچ کے میرے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ چار ماہ قبل نومبر میں وہ پولیس فورس کے جوانوں کے ساتھ ممکنہ ہنگاموں کی روک تھام کیلئے ڈیوٹی پر تھے انہوں نے اپنی یہ تصویر فیس بک پر اپ لوڈ کی تو اس پر میرا فوری کمنٹ تھا'' سر جی آپ نے بلٹ پروف جیکٹ تو پہن لی ہے لیکن درخواست ہے کہ آج کے بعد آپ ہیلمٹ پہننانہیں بھولیں گے‘‘ جس پر انہوں نے با قاعدہ میرا شکریہ ادا کیا۔۔۔ کسے خبر تھی کہ جب ان کی شہا دت ہو گی تو انہوں نے نہ تو بلٹ پروف جیکٹ اور نہ ہی ہیلمٹ پہنا ہوا ہو گا۔۔۔آج میں کیپٹن مبین، نواز گوندل اور دوسرے شہداء کی جائے شہا دت کے قریب کھڑا سوچ رہا ہوں کہ موت کتنی بے رحم ہوتی ہے وہ ہمیشہ خوبصورت پھولوں کو ہی کیوں منتخب کرتی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ فرشتہ اجل حسین اور صاف دلوں کے مالک انسانوں سے حسد کرتا ہو؟۔
کیپٹن مبین کی جائے شہا دت چیئرنگ کراس جسے فوج اور رینجرز کے جوانوں نے اپنے حصار میں لیا ہوا ہے وہاں سے نہ چاہتے ہوئے بھی رات گئے بوجھل دل اور چھلکتی ہوئی آنکھوں سے واپس آیا ہوں ۔نہ جانے کتنی دیر اس سڑک پر کیپٹن مبین کے جمے ہوئے خون کو دیکھتا رہا وہ خون جو پاکستان کی سربلندی کیلئے ہمہ وقت سر گرم رہتا تھا وہ خون جو دشمن کے خلاف پاکستان کی سرحدوں پر بہنے کیلئے مچلتا تھا آج وطن دشمنوں کے ناپاک حملے کو اپنے سینے پر سمیٹتے ہوئے اسی وطن کی مٹی میں مل چکا ہے ۔۔۔۔ خیال آتا ہے کہ پاک فوج کی وردی سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والے سپوت کی قسمت میں عام موت کی بجائے شہا دت کا مرتبہ شائد پہلے دن سے ہی لکھ دیا گیا تھا ۔رات گئے تک چیئرنگ کراس سے ریگل چوک تک ایک ہو کا عالم ہے۔ پوری مال روڈ کسی سوگوار بیوہ کا روپ دھارے شہداء کی موت پر ماتم کناںدکھائی دے رہی ہے۔ مال روڈ کی اس قسم کی ویرانی اپنی اب تک کی زندگی میں کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ قوم کے بہادر سپوت کیپٹن مبین شہید، نواز اکرم گوندل سمیت13 شہداء کا خون بکھرا پڑا ہے وہاں کھڑا ہوا سوچ رہا ہوں کہ کسے خبر تھی کہ کیپٹن مبین کی بطور ڈی آئی جی ٹریفک لاہو رتعیناتی ان کی موت کی جانب سفر کو قریب لانے کا سبب بنے گی۔
پنجاب حکومت نے اس کربناک سانحہ پر ایک روزہ سوگ کا اعلان توکردیا ہے۔۔۔ لیکن کیا وزیر اعلیٰ پنجاب میاںشہبا زشریف اس درخواست پر غور کرنا پسند فرمائیں گے کہ۔۔۔۔ چیئرنگ کراس کا نام تبدیل کرکے اسے'' کیپٹن مبین شہید چوک‘‘ کے نام سے منسوب کر دیا جائے۔!!