''ہے احترام حضرت انسان میرا دین۔ بے دین ہو گیا ہوں مجھے مار دیجئے۔۔۔۔بارود کا نہیں میرا مسلک درود ہے ۔۔۔میں خیر مانگتا ہوں مجھے مار دیجئے‘‘ آج زبان زد عام یہ نظم میں نے کیپٹن مبین شہید کو 23 جنوری کو ویٹس اپ کی تھی مجھے کیا خبر تھی کہ ان کی شہا دت کے چند گھنٹوں بعد یہی نظم الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر چھا جائے گی۔ پنجاب کابینہ کے ایک اہم رکن جن کی اپنی مشہور و معروف ادویہ ساز فیکٹریاں اور دکانیں ہیں اور جن کی مشاورت سے یہ ہڑتال کی جا رہی تھی تو کیا وجہ تھی کہ ان پولیس افسران کی بجائے پنجاب کے ا س طاقتور وزیر کو کیوں نہ بھیجا کہ اپنے ساتھیوں سے فیصل چوک خالی کر ائیں؟۔ سی سی پی او لاہور کیپٹن امین وینس اور ایس پی کینٹ علی رضا کی زندگی تھی کہ وہ خود کش دھماکے سے چند سیکنڈ پہلے جائے شہا دت سے روانہ ہو گئے ورنہ وہ بھی وزیروں کی اس ہڑتال میں اپنے ساتھی فرض شناس افسروں اور سپاہیوں کے ساتھ جان کی بازی ہار جاتے۔دوسرے ہی دن وزیر قانون رانا ثنا اﷲ کی ہدایت پر کامیاب قرار دے دیئے جانے والے یہی مذاکرات ان ہڑتالیوں سے چوبیس گھنٹے پہلے کر لیئے جاتے تو کیا حرج تھا کیونکہ آپ کی کابینہ میں بیک وقت چار وزارتیں سنبھالنے والا ہڑتالیوں کا سب سے بڑا لیڈر تو آپ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔کہیں ہڑتال کا پس منظر یہ تو نہیں کہ لاہور میں'' اورنج میڈیکل سٹور‘ز‘ قائم کئے جا رہے ہیں اور ان میں صرف وہی ادویات رکھی جائیں گی جو ترکی اور چین سے منگوائی جائیںگی؟۔
چوری کھانے والی وہ بیورو کریسی جو پنجاب حکومت کا ہر چینل اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ریموٹ سے چلانا چاہتی ہے کیا ان کی ذمہ داری نہیں بنتی تھی کہ ہڑتالیوں سے مذاکرات وہ کرتے؟۔ کیپٹن مبین شہید کی رسم قل میں شریک بہت سے پولیس افسران اور سیا ستدانوں کا شکوہ بالکل بجا تھا کہ اب ہڑتال، دھرنا اور جلسوں، ریلیوں اور مظاہروں کیلئے مال روڈ کی جان چھوڑ دینی چاہئے لیکن وہ ہڑتال اور مظاہرہ جو کیپٹن مبین اور دوسرے لوگوں کی شہادت کا با عث بن گیا اسے ایک دن پہلے ہی کیوں نہ روکا جا سکا؟۔ کیا اس دن وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور میں نہیں تھے؟۔ کیا وزیر صحت اور وزیر قانون رانا ثنا اﷲ لاہور سے باہر تھے؟۔ جب یہ سبھی لوگ بلکہ ان کے ساتھ حمزہ شہباز شریف اور ادویہ ساز فیکٹریوں کے مالک وزیر بھی لاہور سے باہر نہیں بلکہ فیصل چوک سے پچاس گز کے فاصلے پر موجود تھے تو پھر دنیا کی کس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ مظاہرین سے مذاکرات پولیس افسران کرتے ہیں؟۔DMG گروپ نے اپنی طاقت منواتے ہوئے اگر انگریز کا پرانا کمشنری نظام بحال کر ا ہی لیا ہے تو پھر یہ ذمہ داری تو ڈپٹی کمشنر لاہور اور کمشنر لاہور کی بنتی تھی کہ وہ ان مظاہرین سے چوک خالی کراتے؟۔کیا کمشنر صاحب اور ڈی سی صاحب بے خبر تھے کمشنری نظام میں شہر میں کسی بھی جگہ پر ہونے والے مظاہرے یا تشدد آمیز کاروائیوں کو روکنے یا کسی بھی قسم کے لاٹھی چارج اور دوسری کاروائی کیلئے مجسٹریٹ کا حکم دیا جا نا ضروری ہوجاتا ہے۔۔۔یہ کیا بات ہوئی کہ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو۔کمشنری نظام کے مالک شائد نہیں جانتے کہ انہوں نے کیپٹن مبین شہید کی صورت میں پنجاب پولیس کے کس ہیرے کو ضائع کرا دیا ہے وہ اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا پولیس کی زبان تھا اس کا ترجمان تھا لوگ جب انہیں دیکھتے تو ساتھ ہی ان کے پولیس کے بارے میں تصورات بدل کر رہ جاتے۔رسم قل میں موجود ایک انتہائی سینئر پولیس افسر سے میں نے پوچھا آپ اس وقت میڈیا پر تنقید کر رہے ہیں لیکن کبھی آپ نے دیکھا یا سنا تھا کہ میڈیا کے کسی بھی ذرائع نے کبھی کیپٹن مبین شہید کے بارے میں غلط قسم کے ریمارکس دیئے ہوں؟۔ کبھی سوچا ہے کہ ذرائع ابلاغ پر ہمیشہ ان کی تعریفوں کے پل کیوں باندھے جاتے تھے؟۔ اس لئے کہ وہ انسانیت کی بے حد قدر کرنے والا تھا وہ کسی بھی انسان کے مرتبے یا حیثیت کا نہیں بلکہ اس کی عظمت کا قائل تھا وہ اپنے
فرائض صرف تنخواہ کیلئے نہیں بلکہ ایک عبادت سمجھ کر انجام دیا کرتا تھا۔ رسم قل میں ساتھ بیٹھے ہوئے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری حیران ہو رہے تھے کہ مبین عوام اور میڈیا میں اس قدر مقبول تھا جس پر میں نے انہیں بتایا جناب اس وقت جب ان کی روح کے ایصال ثواب کیلئے آپ بھی قران پاک پڑھ رہے ہیں اور یہاں پر قل خوانی ہو رہی ہے تو اسی وقت لاہور پریس کلب میں ان کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس ہو رہا ہے۔۔۔اور اس ریفرنس میں جماعت اسلامی کے انتہائی سینئر اور درویش صفت حافظ ادریس نے جو بات کہی خوب کہی کہ میں کیپٹن مبین کو پندرہ سال سے دیکھ رہا تھا ان کے بارے میں ایک خبر ایک افواہ بھی سننے میں نہیں آئی کہ وہ کرپٹ تھا بے ایمان تھا۔ آج جب ان کیلئے قران خوانی کی جا رہی ہے تو ان کے بچھڑنے کا ہر کسی کو غم ہے دکھ ہے لیکن ایک بات جو آج کھل کر بتانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ان کا رویہ اور انکساری دیکھ کر لوگ ان کی شہا دت سے پہلے بھی کہا کرتے تھے کہ خوش نصیب ہے وہ ماں جس نے مبین کو جنم دیا قابل ستائش ہے وہ بہن جس نے انہیں پالا۔۔۔۔سچی بات ہے مبین تجھے روئے گا زمانہ برسوں!!دکھ یہ رہے گا کہ وہ فرض جو انتظامیہ کا تھا وہ ذمہ داری جو پنجاب حکومت کی تھی ان کے وزراء کی تھی وزیر صحت کی تھی سیکرٹری ہیلتھ کی تھی پولیس پر ڈال دی گئی۔ پولیس کے
افسران اور اہلکاروں کی شہادت کی قبولیت اس کے سوا اور کیا ہو گی کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر ہر پاکستانی کیپٹن مبین کی المناک موت پر اشکبار ہے ہرآنکھ رو رہی ہے ہر دل دکھ سے تڑپ رہا ہے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سے ہوتی ہوئی کیپٹن مبین کی دلکش اور محبت آمیز مسکراہٹ اس طرح ہر دل میں سما چکی ہے کہ ان کا چہرہ نظروں سے اوجھل ہی نہیں ہو رہا۔۔۔کیپٹن مبین اپنی شہادت کے چند منٹوں بعد ہی اس طرح پاکستانی عوام کے دلوں میں رچ بس جائے گا اس کا انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں ہو گا کہ ان کی موت سے اگلے دن تک لاہور کیا پورا پاکستان سوگوارر ہے گا کاروبار زندگی کیلئے لوگ گھروں سے نکلنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوں گے اگر ان کی نما زجنازہ میں اہم ترین شخصیات کی شرکت کے باعث سکیورٹی کا مسئلہ نہ ہوتا اور یہ کسی کھلی اور عام جگہ پر پڑھایا جاتا تو ایک زمانہ اس میں شرکت کیلئے امڈ پڑتا ۔انسانی سروں کا ایسا نظارہ ہوتا کہ لوگ دیکھتے رہ جاتے۔ ان کی باتیں اور یادیں کوئی بھلانا بھی چاہے تو بھلا نہیں سکے گا اور اس میں کسی بھی قسم کا شک نہیں کہ آرمی پبلک سکول کے اندوہناک واقعہ کے بعد کیپٹن مبین کی شہا دت نے ہر گھر کو رلا دیا ہے پاکستانیوں کے جذبات آج اسی طرح ہیں جیسے آرمی پبلک سکول کے بعد ہوئے تھے ۔جانے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں ‘ان کے پیار کو محسوس کرنے والی آنکھیں چند دنوں کیلئے نہیں بلکہ مدتوں ان کو یاد کرتے ہوئے رویا کریں گی۔۔۔۔!!