"MABC" (space) message & send to 7575

ڈر لگتا ہے، نیند نہیں آتی

'' مجھے اور میرے دو سالہ بھائی کو رات بھر نیند نہیں آتی۔ اندھیرے میں بہت ڈر لگتا ہے۔ ہمارے گھر میں بجلی نہیں ہے، میٹر کٹ گئے ہیں۔ ابا تو کہیں سے روٹی لا دیتے تھے لیکن اب انہیں جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔ آج صبح سے کچھ نہیں کھایا‘‘۔ یہ الفاظ سنتے ہوئے ایسا لگا کہ کوئی میری انتڑیوں میں بھری غذا کو دونوں ہاتھوں سے نچوڑ رہا ہے۔ دوسری جانب پولیس افسران کی بات مان بھی لیں تو قانون یہ ہے کہ اگر دین محمد کانسٹیبل کو معطل بھی کیا گیا ہو تو آدھی تنخواہ اس کا حق بنتا ہے۔ گزشتہ سات ماہ سے دین محمد کانسٹیبل کو اس کا یہ حق کیوں نہیں دیا گیا اور اگر اسے معطل نہیں کیا گیا تو پھر سات ماہ تک اسے تنخواہ نہ دینا کہاں کا انصاف ہے؟
پانچ سالہ بچہ بتارہا تھا کہ رات کو پولیس کی وردیاں پہنے چھ سات لوگ ہمارے گھر میں گھس کر میرے ساتھ لیٹے ہوئے ابو کو رائفلوں کے بٹوں سے مارنا شروع کر ہو گئے۔ میری امی کو دھکے دے کر نیچے گرا دیا، ہم سب لوگ خو ف سے چیخ و پکار کرنے لگے۔ ان سب نے ہمارے سامنے ابو جی کو تھپڑوں، بوٹوں سے ٹھڈے مارتے ہوئے جیل میں بند کردیا۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہیں سات ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی تھی۔ میری ا می جی کہتی ہیں کہ وہ ہر چھوٹے بڑے پولیس افسر کا کئی کئی بار دروازہ کھٹکھٹا کر تھک چکے تھے، کہیں بھی ان کی شنوائی نہیں ہو رہی تھی۔ قرض دینے والے بھی تنگ آ چکے تھے۔ دکانداروں نے ادھار پر راشن دینا بند کر دیا تھا۔ دودھ والا تو کافی دنوں سے گھر آ کربد زبانی بھی کرنے لگا تھا۔ چند دن ہوئے میں اپنے ابا کے ساتھ ایک دکان سے گھی اور دالیں لینے گیا تو وہ کہنے لگا کہ تم ہر دفعہ اگلے ہفتے تنخواہ ملنے کا بہانہ کر کے ہم سے ادھار راشن لے رہے ہو، لیکن وہ ہفتہ کبھی نہیں آ رہا جب تمہیں تنخواہ ملے۔ پہلے والا ادھار واپس کرو گے تو اگلا ادھار ملے گا، بلکہ اس نے ابا کی یہ کہہ کر بے عزتی بھی کر دی کہ وردی چھوڑ کر سڑکوں یا ہسپتالوں کے باہر بھیک مانگنا شروع کر دو ۔ 
بھوک سے بلکتے بچوں اور قرض خواہوں کی بد زبانی سے تنگ آ کر ابا نے ایس پی کے دفتر کے باہر کھڑے ہوئے کسی فلم بنانے والے سے اپنی کہانی بیان کر دی، جس سے ابا کی مشہوری ہو گئی لیکن رات کو پولیس اعلیٰ افسروں نے میرے ابو کو رائفلوں اور ڈنڈوں سے مروا تے ہوئے جیل میں بند کر دیا۔ ایک نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے محمد دین نامی کانسٹیبل کا پانچ سالہ بیٹارو رو کر بتا رہا تھا کہ فیس نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں سکول سے نکال دیا گیا ہے۔ ہمیں تنخواہ نہیں چاہیے، میں اور امی کسی کے گھرمیں کام کر لیں گے، بس ہمیں ہمارے ابو جی واپس کر دیں کیونکہ اس ویران سے گھر میں اپنی امی اور دو سال کے چھوٹے بھائی کے ساتھ رات کو بہت ڈر لگتا ہے اور خوف سے ہم سو بھی نہیں سکتے۔ ایسا لگتا ہے کہ پھر ڈی ایس پی اور بہاولپور کی پولیس ہمارے گھر میں گھس کر ہمیں رائفلوں سے مارنا شروع کر دے گی۔
حکومت پنجاب کے ترجمان ملک محمد احمد خان اور بہاولپور پولیس کی جانب سے کانسٹیبل دین محمد کی سوشل میڈیا او ر الیکٹرانک میڈیا پر وائرل ہونے والی رو داد کے بارے میں جو کچھ کہا گیا وہ تقریباً وہی الفاظ تھے جو بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کے حوالدار تیج بہادر کی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے والی کہانی پر بی ایس ایف کے افسران اور نریندر مودی کی حکومت کے مشیروں نے کہے تھے۔ پولیس افسران اور حکومتی مشیروں سے شکوہ کرنا بنتا ہی نہیں کیونکہ انہوں نے وہی کچھ کہنا ہے جو انہیں بتایا جاتا ہے۔ افسران اور خوشامدی مفادات کے لئے خودکو کسی ظالم یا حاکم کے قدموں پر گرا دیتے ہیں تو پھر انہیں اپنے ضمیر کی نہیں، حق اور انصاف کی نہیں بلکہ اپنے آقائوں کی زبان بولنی پڑتی ہے۔ ان افسران اور مشیران میں سے کسی نے ایک دن کا فاقہ کیا ہوتا تو پھر وہ کانسٹیبل دین محمد کے بدن پر لگنے والے زخموں پر نمک نہ چھڑکتے۔
چند سال ہوئے اوکاڑہ میں احسان صادق ایس پی ہوا کرتے تھے جنہیں اس جرم میں افسر بکار خاص بنا دیا گیا تھا کہ نواز لیگ کے رکن اسمبلی کا ناجائز حکم ماننے کی گستاخی کر دی تھی۔ احسان صادق کی اس جرأت پر انہیں کئی ماہ تک ''کھڈے لائن‘‘ پھینک دیا گیا اور مجھ سمیت میڈیا کے لوگوں نے ان کی اس ہمت اور فرض شناسی پر اپنی تحریروں، تبصروں اور خبروں میں جس قدر ہو سکا خراج تحسین پیش کیا تھا۔ ہم میں سے کسی کو ان سے کوئی مطلب نہیں تھا ،کوئی مفاد نہیں تھا بلکہ میں تو آج بھی ان کی شکل تک سے واقف نہیں ہوں، لیکن آج جب دین محمد کو اس کے بچوں کے سامنے بندوقوں کے بٹ مارتے ہوئے اور اسے ٹانگوں سے گھسیٹتے ہوئے پولیس کی گاڑی میں پھینک کر لے جایا گیا تو ایسا لگا کہ اوکاڑہ سے فرض شناسی اور غریب پروری کا جنم لینے والا ''احسان‘‘ ترقیاں ملتے ہی کہیں گم ہوگیا ہے۔
حکومتی ترجمان ملک احمد خان، دین محمد کانسٹیبل کے شکوے پر خادم اعلیٰ کی صفائیاں پیش کر تے وقت بھول گئے تھے کہ ان کی ہی جماعت مسلم لیگ نوازکی ایک خاتون رکن اسمبلی نے ایک نجی بس کمپنی کی ہوسٹس کو صرف اس لئے تھپڑ مارے تھے کہ اس نے اسے پانی دینے میں دیر کیوں کر دی تھی اور شاید حکومتی ترجمان یہ بھی بھول چکے ہوں گے کہ جب نواز لیگ کے ایک رکن قومی اسمبلی نے ایم ایم عالم روڈ پر واقع ایک مشہور ریسٹورنٹ میں ویٹر کی اس جرم میں دھنائی کر دی تھی کہ اس نے کھا نا لانے میں دیر کر دی تھی۔
جب آپ کی خاتون ایم پی اے، رکن قومی اسمبلی صرف اس وجہ سے غریب ملازمین کو تھپڑ مارنا شروع کر دیتے ہیں کہ انہوں نے پانی پلانے ، کھانا لانے میں چند منٹ یا چند سیکنڈ کی دیر کیوں کر دی تھی تو جناب والا کانسٹیبل دین محمد بھی تو انسان تھا جسے سات ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی تھی، جس کے بچے کھانے کے ایک ایک لقمے کو ترس رہے تھے، جس کی بجلی کٹ چکی تھی، جس کے بچے 210 سیکنڈ نہیں بلکہ 210 دنوں تک ایک ایک لقمے کو ترستے رہے، جنہیں فیس نہ دینے پر سکول سے خارج کر دیا گیا تھا اور جب وہ ہر چھوٹے بڑے حاکم کے سامنے فریاد کرنے کے بعد تھک ہار کرآسمان تلے کھڑے ہو کر اﷲ سے فریاد کرتے ہوئے رونے لگے تو اس جرم عظیم میں پولیس اسے الٹا لٹکا کر جوتوں اور ڈنڈوں کی بر سات کرتے ہوئے جیل میں بند کر دیتی ہے۔ حکومتی ترجمان اور بہاولپور پولیس کچھ بھی کہے دین محمد تم اکیلے نہیں ہو، آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو تمہارے بچوں کی تعلیم اور بجلی کا میٹر بحال کروانے اور جب تک تنخواہ نہٰں ملتی تمہاری مدد کے لئے تیار ہیں۔ اس سلسلے میں ہر انسان دوست سے مدد کی اپیل ہے اور یہ مدد دینے کے لئے میں خود بہاولپور جائوں گا۔ ''اگر میرا علم مجھے انسان سے محبت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزار درجہ بہتر ہے‘‘۔ ( البیرونی)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں