'' وادی کشمیر سے کہیں ان مائوں کی آہوں اور چیخوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جن کے جوان بچے نہ جانے کہاں گم کر دیئے گئے ہیں وہ عورتیں بال کھولے ماتم کناں ہیں جنہیںبھارتی فوجیوں پر مشتمل بھیڑیوں کے غول کے غول گھروں کے دروازے توڑ کرنوچتے ہیں۔ 23 ــ اور24 فروری 1991 ء کی وہ رات آج بھی نوحہ کناں ہے جب مقبوضہ جموں کشمیر کے دیہات کنان پش پورہ میں بھارتی فوج کے جبر و قہر کے پنجوں میں جکڑی ہوئی کشمیری بیٹیوں سے بھارتی فوج کی 4 راجپوتانہ رائفلز کے افسروں اور جوانوں نے سنگینوں کی نوک پر اجتماعی زیا دتی کی۔ ہر سال 23 فروری کو کشمیری بیٹیوں کی عزتوں کے قتل عام کی برسی پر احتجاج کی صدائیں بلند کی جا تی ہیں لیکن بد قسمتی دیکھئے کہ دنیا بھر سے غیر مسلم ہیومن رائٹس اور انسانی حقوق کی کچھ تنظیمیں تو ان کشمیری بیٹیوں کیلئے آواز اٹھا دیتی ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح پاکستان سے تعلق رکھنے والی انٹر نیشنل ہیومن رائٹس کی نمائندگی کرنے والی خواتین جو پاکستان میں تنکا ہلنے پر آسمان سر پر اٹھا دیتی ہیں کسی بھی ملکی اور بین الاقوامی کانفرنس میں کھڑے ہو کر کشمیر کی بیٹیوں کی حمایت میں ہلکی سی آواز اٹھانا بھی گوارانہیں کرتیں۔شائد ان کے نزدیک کشمیر کی بیٹیوں کا شمار عورتوں میں نہیں ہوتا اور ان کی کوئی عزت نہیں ہوتی شائد ان کا کام صرف یہی ہے کہ دام کھرے کرنے کیلئے انسانی حقوق کے نام پر صرف پاکستان کو ہی نشانہ بنانا ہے ۔
2012 کا دہلی کی بس کا وہ واقعہ جب ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی درندگی سے دہلی میں میڈیکل کی ایک 23 سالہ طالبہ کی عزت کا جنازہ اٹھنے پر ہر طرف ایک کہرام برپا ہو گیا تھا بھارت بھرکے طول و عرض میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور پاکستان سمیت بھارت کی سینکڑوں کی
تعداد میں '' ترقی پسند‘‘ جماعتیں ، سول سوسائٹی اور این جی اوز بھڑوں کے چھتوں کی طرح ممبئی اور دہلی کی سڑکوں پر نکل پڑی تھیں۔ بھارت کی شہری آزادیوں اور وکلاء کی تنظیموں سمیت وہاں کی ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ اس بری طرح حرکت میں آئیں کہ حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے تھے ۔۔ یہ صرف اس لئے کیا گیا کہ دہلی کی یہ میڈیکل سٹوڈنٹ ہندو سماج سے تعلق رکھتی تھی؟۔۔ اس زیا دتی پر تو بھارت بھر کی عدلیہ اور بار ایسوسی ایشنز کے قانون اور ان کے کرتا دھرتائوں کا خون کھول اٹھا تھا لیکن 23-24 فروری 1991کی انتہائی سرد درمیانی رات ضلع کپواڑہ شمالی مقبوضہ کشمیر کے دو دیہات کنان پش پورہ کی 13 سے 60 سال عمر کی 32 مسلمان بیٹیوں اور مائوں کے ساتھ بھارتی فوج کی بربریت اور شرمناک اجتماعی زیا دتیوں اور تشدد پر بھارت کا سیکولر قانون اور اس کی عدلیہ کا خون ایسے جم چکا ہے جیسے منجمد ہو کر رہ گیا ہو۔2013 میں بھارت کی عدلیہ کو گہری نیند سے جگانے کیلئے جموں وکشمیر ہائیکورٹ میں کشمیری بیٹیوں کے ایک گروپ نے کنان پش پورہ میں بھارتی فوجیوں کے خلاف اجتماعی پٹیشن دائر کی تاکہ کنان پوش پورہ کی 32 مظلوم مسلمان کشمیری بیٹیوں کی بھارتی فوج کی4 راجپوتانہ رائفلز کے افسروں اور سپاہیوں کے ہاتھوں لٹی ہوئی عصمتوں کا مقدمہ چلایا جا سکے جسے نہ جانے کس قانون کے تحت ایسے کہیں پھینک دیا گیا کہ دو سال تک اس پر ہلکی سی پیش رفت بھی نہ ہوئی۔ خدا خدا کر کے جب وکلاء کے شور مچانے پر سماعت ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ ایک صبح سپریم کورٹ آف انڈیا نے بھارتی فوج کی مداخلت پر اس پر حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے جموں کشمیر ہائیکورٹ کو اس مقدمہ کی سماعت فوری طور پر روکنے کا حکم جاری کر دیا اور یہ حکم امتناعی ہے کہ سپریم کورٹ کے سرد خانوں کی نذر ہو کر نہ جانے کہاں غائب ہو کر رہ چکا ہے شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ خود کو سیکولر بھارت کے نام سے شور مچانے والی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے قانون اور عدل کی نظروں میں کسی ہندو کی بیٹی کی عزت و احترام مسلمان کی بیٹی کی نسبت سب سے اعلیٰ اور اس کیلئے ہنگامی انصاف ہر طرح سے مقدم ہوتا ہے اور اگر اس قسم کا کوئی جرم مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی فوج اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے کیا گیا ہو تو یہ بھارتی آئین سے باہر ہو جاتا ہے۔
آج کنان پش پورہ کے واقعہ کو پچیس برس گزر چکے ہیں جب چار راجپوتانہ رائفلز نے پش پورہ کے ان دو دیہات کا محاصرہ کرتے ہوئے گائوں کے تمام گھروں کے اند رگھس کر مردوں کو مارتے پیٹتے ہوئے ٹرکوں میں پھینک کر قریبی ٹارچر سینٹروں میں بھیجا اور پھر گائوں کے ہر گھر میں گھس کر بارہ سال سے60 سال عمر تک کی ہر لڑکی اور عورت کو اجتماعی زیا دتی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔ 24 فروری کی صبح آسمان نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ گائوں کے اندر شراب کی خالی بوتلوں اور نوچے ہوئے لباسوں میں اپنی برہنگی چھپاتی ہوئی کشمیر کی زخم خوردہ بیٹیاں گھسٹ گھسٹ کر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے اجڑے گھروں کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔
بھارتی فوج کا چیف بپن راوت کہتا ہے کہ پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے کشمیریوں کو ملک دشمن سمجھتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی لیکن بھارت کا آرمی چیف دنیا کو یہ بھی تو بتائے کہ کنان پش پورہ کی 32بیٹیوں کی عزتوں سے کھیلنے والی اس کی چار راجپوتانہ رائفلز کے جرائم کے خلاف دائر کی جانے والی کشمیری خواتین کی رٹ پٹیشن رکوانے کیلئے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی کیوں لے لیا ؟۔ اگر آپ سچے ہیں اگر آپ کی فوج
بے گناہ ہے تو انصاف کی عدالت کا سامنا کیوں نہیں کرتے؟۔ کیا اس لئے کہ اب اس ظلم پر مشتمل کہانی کتاب کی صورت میں شائع ہونے جا رہی ہے؟۔ کپواڑہ کے بلاک میڈیکل آفیسر کی جاری کردہ میڈیکل رپورٹس چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہیں کہ کنان پوشپورہ کی 13 سے60 سال عمر کی 32 عورتوں سے اجتماعی زیا دتی کی گئی ہے جن میں سے پندرہ سے زائد لڑکیوں کی حالت انتہائی خراب تھی لیکن بھارتی فوج اور حکومت کی جانب سے اس رپورٹ کو کسی کھاتے میں ہی نہیں لایا جا رہا کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ بھارت کی فوج جو چاہے کرتی رہے ا س پر بھارت اور دنیا کا کوئی قانون بروئے کار نہیں لایا جا سکتا ؟۔ بھارتی آرمی چیف کہہ رہا ہے کہ خواتین کی عزتوں کے جنازوں کو سبز پرچم میں لپیٹنا ملکی دشمنی سمجھا جائے گا اور ان دھمکیوں پر کوئی ہیومن رائٹس کمیشن اور خواتین کے حقوق کی نام لیوا سب تنظیمیں خاموش رہیں تو اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ شائد سب کے ضمیر یا تو خرید لئے گئے ہیں یا مردہ ہو چکے ہیں !!