'' جو بچ گیا آگ سے اور داخل ہو گیا جنت میں پس وہی کامیاب ہوا اور دنیا کی زندگانی کا سامان تو ایک فریب ہے‘‘( آل عمران)۔آگ دام فریب کی ہو یا مصلحت پسندی کی، آگ دبائو اور لالچ کی ہو یا قرابت داری کی ، آگ مالی منفعت کی ہو یاجانی خوف کی آگ وسوسوں کی ہو یا زندگی بھر کی خواہشات کی۔۔۔جو بھی نمرود کی آگ سے بچ نکلتا ہے وہی منزل مراد تک پہنچنے میں کامیابی پاتا ہے۔ رب العالمین کے نزدیک سزا اور جزا کا معاملہ کمزور اور طاقتور دونوں کیلئے ایک ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی بھی پولیس اسٹیشن کا انچارج یا منصف اپنے علا قے کے کونسلر کے خلاف شکایت لے کرآنے والے سائل کو یہ کہہ کر نہیں بھگا سکتا کہ ہم جانتے ہیں کہ تم پر ظلم ہوا ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ تم پر ظلم کرنے والا وہی شخص ہے جس کے خلاف تم شکایت لے کر آئے ہو لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں ہماری مجبوری سمجھو کہ جس شخص نے تمہیں مار ا ہے تم پر ظلم کیا ہے ،تمہارے گھر کی دیوار گرا دی ہے وہ اور اس کے کارندے جاتے ہوئے تمہاری دکان اور گھر سے زبردستی تمام سامان اٹھا کر لے گئے ہیں اس کے خلاف ہم یا ہمارا کوئی بھی قانون کاروائی کرنے کا مجاز نہیں اسے ہم سزا نہیں دے سکیں گے کیونکہ اسے عوام نے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا ہے اس کے خلاف ہم نے یاقانون نے اگرکاروائی کی تو جن لوگوں نے اسے ووٹ دیئے ہیں وہ ناراض ہو جائیں گے وہ طاقتور ہیں وہ ہمارا فیصلہ قبول نہیں کریں گے بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم سب کو ہماری کرسیوں سمیت اٹھا کر لے جائیں ۔۔۔ تم نے ابھی چند دن پہلے دیکھا نہیں جب راولپنڈی میں ہمارے ایک ایس ایچ او اصغر چانڈیو نے ون ویلنگ کرنے والے موٹر سائیکل سواروں کو پکڑا تو ایک طاقتور سابقہ ایم این اے نے ایس ایچ او سمیت سارا تھانہ توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھااور آج تک کوئی بھی قانون اس سابق ایم این اے کا بال بھی بیکا نہیں کر سکا۔ کسی ٹائون یا میونسپل کمیٹی کا چیئر مین اپنے کسی ہمسائے یا جاننے والے سے کسی بات پر ناراض ہو کر یا کہیں آتے جاتے ہوئے کسی راہ گیر یا سیا سی مخالف کو دیکھ کر غصے میں یک لخت کلاشنکوف کے برسٹ برساتے ہوئے قتل کر دے تو کیا عدالت اس وجہ سے اس کے خلاف فیصلہ دینے سے ہاتھ کھینچ سکتی ہے کِہ وہ عوام کے ووٹوں کا منتخب کردہ نمائندہ ہے؟۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسے ان لوگوں کے قتل پر گرفتار کرتے ہوئے سزا دی گئی تو اس تحصیل یا قصبے میں جہاں سے یہ چیئرمین منتخب ہوا ہے ہر جانب توڑ پھوڑ شروع ہو جائے گی۔ ووٹروں کی جانب سے اس علا قت کے چاروں جانب آگ لگا دی جائے گی ؟۔اگر کسی تحصیل یا بڑے شہر کا میئر یا لارڈ میئر اور ڈپٹی میئر اپنے اپنے علا قوں میں منشیات کے کاروبار میں ملوث پائے جائیں یا ان کی کسی گاڑی اور گھر میں سے منشیات کی بھاری مقدار بر آمد ہو جائے اور وہ میئر یا ڈپٹی میئر عوام کے ٹیکسوں اور ملک پر لدے ہوئے قرضوں کے آدھے سے زیا دہ بجٹ کو خرد برد کر تے ہوئے ملک اور عوام کا پیسہ لوٹ کر لے جائے تو قانون کو یہ کہہ کر خاموش کر ایا جا سکتاہے کہ یہ'' لارڈ میئر ہے ڈپٹی میئر ہے‘‘ اسے کچھ نہیں کہنا ورنہ تمام کونسلر اور ووٹرز سڑکوں پر آ جائیں گے؟۔'' سوچئے کہ کسی صوبے کا ایم پی اے یا ایم این اے اپنی گاڑی کے نیچے دو چار لوگوں کچل کر ہلاک کر دے ، کسی سرکاری اور غیر سرکاری قیمتی جگہ پر قبضہ کر لے ، کسی غریب اور لاچار کی بہن اور بیٹی کی عزت لوٹ لے تو کیا قانون کی زبان اس کے خلاف اس وجہ سے چپ رہنی چاہئے کہ اسے عوام نے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا ہے ؟۔ کیا اسے اس لئے کچھ نہ کہا جائے کہ عدالت یا قانون کی بجائے اس کے اس ظلم اور جرم کا فیصلہ عوام کریں گے ؟۔اگر کوئی وزیر یا سینیٹر اپنے قبیلے کے مخالف چار پانچ لوگوں کو قتل کر دے ، سرکاری اور غیر سرکاری زمینوں پر قبضے شروع کر دے تو عدلیہ ان کچلی ہوئی لاشوں اور زمینوں پر کئے گئے قبضوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ کر آنکھیں نیچی کر لے کہ ان دو چار لوگوں کو کچلنے والا کسی یتیم اور بیوہ یا کسی بے بس اور لاچار شخص کی زمین کو ہتھیانے والا کوئی عام شخص نہیں بلکہ صوبائی یا قومی اسمبلی کا منتخب کر دہ نمائندہ ہے اور جب کوئی بھی وزیر ، ایم این اے سینیٹر یا ایم پی اے پر تمام جرم ثابت ہو جائیں بلکہ وہ خود اقرار کر لے تو اس وقت کسی بھی کرسی پر بیٹھا ہوا شخص یا لوگ۔۔۔ سب ڈر جائیں کہ انہیں کچھ نہ کہو چپکے سے جانے دو کیونکہ اگر اس کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کی گئی اسے کوئی سزا دی گئی تو جن لوگوں نے انہیں ووٹ دیئے ہیں وہ ہم سب کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دیں گے ملک بھر میں طوفان مچ جائے گا؟ افسوس کے آج کچھ ایسا ہی کہا جا رہا ہے اور بد قسمتی دیکھئے کہ ۔۔۔ایسا کہنے والے نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ عوامی مینیڈیٹ صرف اور صرف حقیقی عدلیہ کی آزادی سے ہی مشروط ہو تا ہے۔
ریاستی قوت کسی بھی لیڈر کو دوران حکومت آئین اور قانون سے کھیلنے کیلئے تحفظ مہیا نہیں کر سکتی جنرل مشرف کے خلاف''بغاوت‘‘ کا مقدمہ درج کرتے ہوئے کاروائی کرتے ہوئے ان کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائدادوں کو اگر ضبط کرنے کی کاروائی کی جا رہی ہے تو اس جرم میں کہ انہوں نے ایمر جنسی نافذ کر کے ملکی آئین کو توڑا اور جب کوئی حکمران ملکی خزانے میں خرد برد کا ملزم ٹھہرے تو دنیا کا وہ کون سا قانون ہے جو اس کے خلاف کاروائی سے روکتا ہے؟۔ یہ تو رسول خداﷺ کے اس فرمان کی یاد لاتا ہے کہ'' اس سے پہلے قومیں ا سلئے تباہ ہو ئیں کہ جب بھی ان کے طاقتور لوگ جرم کرتے تو انہیں کچھ بھی نہیں کہا جاتا تھا یاد رکھو کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کی مرتکب پائی جاتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹنے کا حکم دیتا۔۔۔۔کیا ہم سب رسول خداﷺ کا پیغام بھول جائیں ان کے احکامات سے منہ پھیر لیں اور یاد رکھیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کیلئے کہیں بھی پناہ نہیں ہو گی اور اس پر خاموش رہنے والی قوموں کیلئے کسی بھی قسم کی فلاح نہیں ہو گی ۔
پتھروں کے زمانے کا وہ چہرہ کسی کو بھولا تو نہیں ہو گا جب عوام ڈاکوئوں کو پکڑ پکڑ کر خود ہی مارنا اور جلانا شروع ہو گئے تھے پولیس اسٹیشن، عدالت، سرکار اور حکومت سب کچھ بے معنی ہونے لگا تھا گلیوں بازاروں اور سڑکوں سے ڈکیتیوں کے مجرموں کو زندہ آگ کے شعلوں کے حوالے کرنا ایک دلچسپ مشغلہ بنتا جا رہا تھا صرف ا سلئے کہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ ادھر کسی کو لوٹ مار کرتے، گولیا ں چلا کر قتل یا زخمی کرنے والے کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا جاتا تھا تو اگلے دن آنکھ کھلتے ہی سب سے پہلے اسی ڈاکو کی زہریلی ہنسی سے سامنا ہوتا ۔ پاکستانی تاریخ میں آج یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ قوم کو آزاد عدلیہ کے سائے تلے لانا ہے یا مصلحتوں اور نظریہ ضرورت کے تحت؟۔ قانون کی حکمرانی دینی ہے یا طاقتوروں کی لاٹھیوں سے ہانکنا ہے؟۔ آزاد عدلیہ ملکی سلامتی کو برقرار رکھنے کیلئے ایک ستون کا کام دیتی ہے ۔