مردم شماری کیلئے سول انتظامیہ کی مدد کیلئے متعین کئے جانے والے پاکستانی فوج کے ایک حوالدار سمیت چار جوانوں کو شہید اوردس افراد زخمی کر دیئے گئے جن کی ذمہ داری افغانستان میں مقیم تحریک طالبان کے گروپ نے بڑے فخر سے قبول کی ہے اور ہم جواب میں اپنے جوانوں کی لاشیں اور زخمی اٹھاتے ہوئے حسب معمول سوائے احتجاج کے اور کچھ نہ کر سکے ۔ جان لینا چاہئے کہ باجوڑ اور مہمند ایجنسی اس وقت پاکستان میں موت بانٹنے کے رستے بن چکے ہیں اور سب سے پہلے ان دو ایجنسیوں کی حدود پر کڑی نظر رکھتے ہوئے مضبوط اور مکمل آہنی باڑوں سے بند کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے اور باڑ نصب کرنے کے بعد شام پانچ بجے کے بعد ان میں برقی رو اور فلڈ لائٹس کا استعمال لازمی کرنا ہو گا۔ پاکستان کی فوج کے جوان اور افسر اس کے سپہ سالار کی نظروں میں اولاد کی طرح ہوتے ہیں اور یہ کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے کہ اولاد کی محبت اور ملک کی سلامتی تمام رشتوں سے زیا دہ عزیز ہوتی ہے ۔۔۔اس میں تو شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ یہ سب دہشت گرد اور ان کیلئے گولہ بارود سمیت ہر قسم کی کمک افغانستان سے سب سے زیا دہ باجوڑ اور مہمند ایجنسی کے رستوں سے پہنچ رہی ہے ۔
پاکستان میں ہونے والے پے در پے خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے بعد جب چند روز کیلئے پاک افغان بارڈر بند کیا گیا تو چاروں جانب ایک ہا ہا کار مچ اٹھی لیکن اس کے مستقل حل کی جانب توجہ دینے کی کوشش نہیں کی جا رہی جب کے مقابلے میں بھارت نے اپنی ملکی سلامتی کو تمام رشتوں سے مقدم سمجھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش اور نیپال کی سرحدوں کو کئی مقامات پر آہنی باڑ یںلگا کر مکمل بند کیا ہوا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان افغانستان سے ملنے والی اپنی سرحدوں کو آہنی باڑ لگانے سے ہچکچا تا رہا جہاں سے ہماری اولاد اور سلامتی آئے دن نشانہ بن رہی ہے۔ یہ اہم اور فوری نوعیت کا کام آخر کب تک التوا میں رکھا جا ئے گا سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ملکی سلامتی کے اسی پہلو کومد نظر رکھتے ہوئے کھل کر کہا تھا کہ افغانستان سے متصل سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے پاکستان کو آہنی باڑ لگانے کا اہم قدم اٹھانا ہی پڑے گا جسے اب جنرل قمر جاوید باجوہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ یاد رکھئے گا کہ اگر اس میں ذرا سی بھی سستی کی گئی تو افغانستان کے چپے چپے میں بکھرے ہوئے مختلف صورتوں اور گروپوں میں بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان کو اپنا سافٹ ٹارگٹ بناتے رہیں گے یہ وہی سدھائے ہوئے لوگ ہیں جن کے بارے میں سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اپنے دورہ اسلام آباد کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاتھا '' افغان فوج کی تربیت کے لیئے بھارتی فوج کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں‘‘۔ اور پھر امریکی چھتری کے نیچے حامد کرزئی کے دس سال دور میں یہی فوجی تربیت ہوتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت افغانستان کی فوج، سیکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کا ہم راز بننے کے ساتھ کرزئی اور اس کے ٹولے کا دمساز بھی بن گیا۔ افغانستان کی وزارت خارجہ اور داخلہ کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو حیرت ہو گی کہ بھارت سے میڈیا کے نام پر ایک پوری فوج کابل، قندھارا ور جلال آباد سمیت پکتیا اور خوست میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ ہمارے اداروں سے پوشیدہ نہیں ہونی چاہئے!!
افغانستان میں بے چینی اور قتل و غارت سے سینکڑوں میل دور بیٹھا ہوا بھارت خود تو محفوظ ہے اسے تو کوئی نقصان نہیں ہو رہا اس کی تو کوئی عمارت تباہ نہیں ہو رہی اس کے تو کوئی فوجی افسر اور جوان یاپولیس والے مارے نہیں جا رہے اس کا تو کوئی شہری دہشت گردی کا شکار نہیں ہو رہا اصل نقصان تو افغانستان اور پاکستان کا ہو رہا ہے۔افغانستان کا سرکاری ریکارڈ گواہ ہے کہ امریکہ کی مرضی سے کرزئی اور دوستم نے افغان پولیس، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی تربیت کیلئے ہندوستان کی خدمات حاصل کیں اور اسی آڑ میں دوستم ملیشیا کی ذاتی فوج کو بھی بھارتی فوج سے گوریلا اور دوسری جنگی تربیت دلوائی گئی بے شمار بھارتی عملہ جس میں بری ، فضائی فوج اور راء سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے افغانستان میں اہم جگہوں پر تعینات کرائے گئے اور انہوں نے کرزئی دور میںچن چن کر کمیونسٹوں کو فوج ' NDS ‘ جیسے خفیہ اداروں میں بھرتی کیا۔ یہی وجہ تھی کہ امریکہ کے سابق وزیر دفاع چیک ہیگل بر ملا زبان کھولنے پر مجبور ہو گئے کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی تمام کاروائیوں کیلئے بھارت افغانستان کی سر زمین استعمال کرتا چلا آرہا ہے ۔
امریکی میڈیا کو پاکستان کے خلاف دس سال سے مسلسل دھرائے جانے والے الزامات کی بجائے دیکھنا ہو گا کہ افغانستان سے ملحقہ باجوڑ اور مہمند ایجنسی سے پاکستان میں دہشت گردوں کی آمد روکنے کیلئے اگر امریکی افواج کوئی مشترکہ حل نہیں نکالتی تو پاک افغان سرحد پر فوری طور پر سات یا آٹھ مقامات پر 38کلومیٹر لمبی اور بلوچستان کی افغانستان سے ملنے والی 350 کلومیٹرکے قریب سرحد پر بھی باڑ لگانے میں عالمی طاقتوں کو پاکستان کی مدد کرنی ہو گی۔کسی بھی دوسرے ملک کی طرح پاکستان کو بھی اپنے دفاع کا پورا پورا حق ہے اور سوال اس وقت یہ نہیں کہ باڑ لگانے کی اجازت کسی سے ملتی ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ بھارت نواز تحریک طالبان کے ایجنٹوں کو تباہی بربادی پھیلانے والوں کی بے تحاشا آمد کو کیسے روکا جائے؟۔ پاکستان دس سالوں سے بھارت نواز دہشت گردوں سے حالت جنگ میں ہے اور اس کی فورسز اور پر امن شہریوں پر آئے روز کے خود کش حملے اور گوریلا کارروائیاں نا قابل برداشت ہو چکی ہیں کیونکہ بات اس وقت کسی کی خوشنود ی کی نہیں بلکہ پاکستان کی سالمیت کی ہے ۔اسرائیل کے وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی کے 70 ویںاجلاس میں جو بھی کہا اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اپنے ملک پر گرائی جانے والی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا اعلان کر تے ہوئے اس نے اپنی عوام کی نمائندگی کا حق ادا کر دیا ہے۔۔۔ تو پھر ہمیں بھارت کی افغان سر زمین پر بیٹھ کر برسائی جانے والی گولیوںاور بم دھماکوں کے سامنے بھیگی بلی بننے کی کیا ضرورت ہے؟۔
اگر اسرائیل کو اپنے تحفظ کیلئے غزہ اور دوسرے علا قوں میں باڑ لگانے کا حق ہے تو پھر پاکستان کو کیوں نہیں؟۔ اگر میکسیکو اور امریکہ کے درمیان باڑ لگ سکتی ہے تو وزیرستان اور بلوچستان میں کیوں نہیں؟۔ اگر بھارت آج سے 32 سال قبل پنجاب کی سینکڑوں کلومیٹر طویل سرحد پر آہنی باڑ لگا سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ ۔دسمبر2006 اور جنوری 2007 میں جب جنرل مشرف نے یہاں باڑ لگانے کی بات کی تھی تو اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار خان اور غلام احمد بلور نے شور مچا نا شروع کردیا تھاکہ دونوں طرف ہم پشتونوں کی رشتہ داریاں ہیں ہم یہ باڑ برداشت نہیں کریں گے۔ ملک کی سلامتی تمام رشتوں سے زیا دہ عزیز ہوتی ہے اسی لئے بھارتی حکومت نے اپنے دوست ممالک نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحدوں کو کئی مقامات پر آہنی باڑ لگا کر اگر بند کر دیا ہے تو ہم سوچوں میں کیوں گم ہیں؟