"MABC" (space) message & send to 7575

امریکہ مجبوری بھی،ضرورت بھی

امریکی فوج کے 19 ویں جائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوزف فرانسس ڈنفورڈ جونیئر نے 23 فروری کو بروکنگ ہائوس انسٹیٹیوٹ کے فورم سے خطاب میں موجود ہ سیا سی اور علا قائی صورت حال کو امریکہ کو درپیش چھٹے خطرے سے تشبیہ دی... لیکن افغانستان کے ٹی وی چینل TOLO News نے ان کے اس بیان کو اس طرح بریکنگ نیوز بناتے ہوئے نشر کرنا شروع کر دیا کہ'' جنرل جوزف نے بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے فورم سے خطاب کے دوران پاکستان کو امریکی سالمیت کیلئے چھٹا بڑا خطرہ قرار دے دیا‘‘۔جنرل جوزف اور امریکی پالیسی سازوں کو اچھی طرح علم ہے کہ انہوں نے بروکنگ ہائوس کے فورم میں کیا الفاظ استعمال کئے اور افغان میڈیا نے اسے کس طرح پیش کیا۔۔۔کیا امریکی حکام کا فرض نہیں بنتا تھا کہ وہ افغانستان سے اس غلط بیانی،صحافتی بد دیانتی اور بہتان تراشی کی وضاحت مانگتے؟۔کیا اس ایک واقعے سے امریکہ اور عالمی رہنمائوں کو یقین نہیں ہوا کہ پاکستان کے بارے میں افغانستان میڈیا کی پھیلائی جانے والی خبریں سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں؟۔بروکنگ انسٹیٹیوٹ کا فرض بنتا ہے کہ وہ'' ٹولو نیوز‘‘ کی اس شر انگیزی پر اس سے جواب دہی طلب کرئے اور اصل بیان کو دوبارہ ٹیلی کاسٹ کرنے کے لیے خط لکھے۔کیا امریکہ کو احساس نہیں ہوا کہ ان کے ایک اہم ترین جنرل کے بیان کو غلط انداز میں پیش کرنے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے؟۔ کیا اس بات سے بھی وہ بے خبر ہیں کہ ان کے اہم ترین جنرل کے اس طرح کے بیان کو توڑنے مروڑنے سے دنیا بھر میں امریکی اتحادیوں اور سفارت کاروں میں پاکستان کے بارے میں غلط تاثر پیدا ہو سکتا ہے؟۔ 
افغانستان کے سرکاری میڈیا میں بھارت کی وزارت خارجہ اور اور خفیہ ایجنسیوں کی یہاں تک بھر مار ہے کہ تمام اہم عہدے انہی کے پاس ہیں اور ان سب کی یہی کوشش رہتی ہے کہ جیسے بھی ہو امریکہ اور دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف بد گمانیاں پیدا کرتے ہوئے پاکستان کو عالمی امن کیلئے ایک خطرے کے طور پر پیش کیا جائے۔ پینٹاگان اور وائٹ ہائوس پرلازم تھا کہ ا پنے جنرل کو بد نام کرنے والے افغان میڈیا سے جواب طلبی کرتا؟ پاکستان اس کیلئے کبھی بھی خطرہ نہیں رہا بلکہ امریکہ کو درپیش بہت سے خطرات کوپاکستان نے اپنے سینے پر برداشت کیا۔ پاکستان اور امریکہ دشمن نہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضرورت بھی ہیں اور مجبوری بھی۔ امریکہ کو جب بھی پاکستان کی ضرورت پڑی پاکستان نے اس کا ساتھ دیا ۔
1962 میں جب چین بھارت کی لڑائی شروع ہوئی تو پاکستان کے پاس سنہری موقع تھا کہ بڑھ کر کشمیریوں کو بھارتی غلامی سے آزاد کرا لیتا لیکن صدر ایوب کو امریکہ اور پنڈت نہرو کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی کہ لڑائی ختم ہوتے ہی کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصوا ب رائے کرا دیا جائے گا۔۔۔۔صدر ایوب خان نے امریکہ اور بھارت کی اس یقین دہانی پراعتماد کر لیا جس کا نتیجہ کشمیری آج تک بھگت رہے ہیں ۔پاکستان روس کے افغانستان پر نا جائز قبضے کے خلاف عالمی جد وجہد کیلئے اقوام متحدہ کی منظور کی گئی قرار دادوں پر عمل کرتے ہوئے روسی جارحیت کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ بنا تو بھارت نے پاکستان کی اس جانب توجہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 1984 میں سیا چن پر قبضہ کر لیا جس پر اقوام متحدہ اور روس کے خلاف جنگ کرنے والے امریکہ سمیت اس کے تمام اتحادی ابھی تک بھارت کو سیا چن خالی کرنے پر تیار نہیں کر سکے۔۔۔ U2 کے بڈا بیر پشاور سے اڑنے کی وجہ سے روس سے دشمنی کی قیمت جس حد تک پاکستان نے ادا کی ہے وہ بھی امریکہ سے پوشیدہ نہیںہے۔
روز ویلٹ سے اوبامہ تک کے مختلف اوقات میں جتنے بھی امریکی صدور آئے ان کی عمومی عالمی پالیسیوں میں ایک بات نمایاں نظر آئے گی کہ امریکہ کی ہر انتظامیہ کیلئے پاکستان کا کردار اہم رہا ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات اور پالیسیوں میں سوائے چند وقفوں کے ہمیشہ گرم جوشی رہی بے شک دونوں ممالک میں تلخیاں بھی ابھرتی رہیں لیکن یہ سلسلہ کبھی بھی زیا دہ طویل نہ رہا ۔ ڈیمو کریٹس کے ا وبامہ دور میں امریکہ نے پاکستان سے سرد مہری دکھانی شروع کر دی ۔ان کے جانے کے بعد اب ری پبلیکن کے ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہائوس میں براجمان ہیں اور ری پبلیکن کا رویہ ہمیشہ سے ہی پاکستان سے ہمدردانہ اور دوستانہ رہا ہے شائد اس کی وجہ پینٹاگان اور ری پبلیکن کی آپس میں ذہنی یکجہتی ہے لیکن اس میں پارٹی ووٹ کے علا وہ بہت بڑا حصہ ٹرمپ کی ذاتی شخصیت اور نعروں کا رہا ہے، جو نعرے ٹرمپ لگارہے ہیں وہ کبھی بھی ری پبلیکن کی آواز نہیں رہی۔آج بھی پاکستان کو کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ امریکی کانگریس اور انتظامیہ کے کچھ انتہا پسند پاکستان کی بجائے اپنی تمام امیدوں کا محور اور مرکز بھارت کو سمجھ رہے ہیں اور یہ امریکی فیصلہ سازوں کی بہت بڑی غلطی ہے ۔پنڈت نہرو سے نریندر مودی تک بھارت کی تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو یہ فیصلہ کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگے گا کہ '' بھارت دنیا کا سب سے بے اعتبار ملک ہے ‘‘۔
پاکستان سے امریکہ نے معاشی، سما جی اور سائنسی اشتراک کے علا وہ فوجی امداد اور دیگر تعلقات کو قائم رکھا ہوا ہے۔پاکستان بھی اپنے جغرافیائی محل وقوع اور اہمیت کے ساتھ امریکہ کے ساتھ مستقل مزاجی سے وابستہ ہے۔امریکہ نے آنے والے وقت کیلئے ایشیا اور سینٹرل ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے جو بھی پلاننگ کر رکھی ہے وہ اپنی جگہ لیکن اسے یہ بات ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہئے کہ جس دروازے سے گزرنے کی امریکہ کو ہمیشہ سے خواہش رہی ہے اس کا رستہ پاکستان کے سوا کسی اور کے پاس نہیں؟۔۔۔۔!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں