مشہور دانشور اشفاق احمدمرحوم اکثر فرمایا کرتے تھے غور سے دیکھنا '' جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو چھوٹے آدمیوں کے سائے بڑے ہونے لگتے ہیں‘‘ جب بھی ان کی یہ بات سنتے تو ہمیں اپنا بچپن یاد آجاتا جب گائو ں میں اپنے دوستوں کے ساتھ شام کے وقت کھیل کود کے بعد گھروں کو لوٹنے لگتے تو اپنے سایوں کو خود سے کئی گنا بڑا دیکھتے ہوئے خوش ہوا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے اس پر باقاعدہ مقابلہ بازی ہوتی تھی کہ کس کا سایہ سب سے بڑا ہے۔ جب بڑے ہوئے ہیں تو اشفاق بابا کی باتوں کی سمجھ آنے لگی کہ انہوں نے یہ بات کس پیرائے میں کی تھی ، وہ ہمیں کیا سمجھانے کی کوشش کیا کرتے تھے...شائد اسی لئے کہا جاتا ہے کہ درویش کی ایک پل کی صحبت انسان کو برسوں کی دانائی کا سبق دے جایا کرتی ہے۔ ان کی اس بات کو آج یاد کرتا ہوں تو بہت سے کردار سامنے آ جاتے ہیں جو کچھ بھی نہ تھے لیکن ایک حادثے نے انہیں کیا سے کیا بنا دیا۔ ان میں سے دو یاد آتے ہیں۔ ایک کردار ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے نتیجے میںاور دوسرا کردار اسی ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کی اچانک شہا دت کے نتیجے میں آگے آگئے۔ سورج غروب ہونے سے پہلے دونوں کے سائے ان کے قد سے کہیں لمبے ہو چکے ہیں۔
آپ میں سے کسی نے کبھی سوچا ہے کہ دو صاحبان جلسوں اور ریلیوں میں تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کو صرف نیازی کہہ کر ہی کیوں مخاطب ہوتے ہیں؟ اپنی تقریروں اور تبصروں میں عمران خان کا نام لئے بغیر صرف نیازی ہی کے نام سے چہرے پر تضحیک آمیزمسکراہٹ کیوںلاتے ہیں؟ اپنی نجی محفلوں اور میڈیا سے متعلق اپنے بندوں کے درمیان بیٹھ کر وہ قہقہے لگاتے ہوئے کیوں کہتے ہیں کہ سولہ دسمبر کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے جنرل نیازی اور عمران خان کا تعلق ایک ہی قبیلے سے ہے‘ نیازی قبیلے سے۔ اس لئے عمران خان کو نیازی کہہ کر للکار نے سے ان کا مقصد لوگوں کو شاید یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ یہ شخص اس قبیلے کا ہے جس کے ایک جنرل نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے...بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد کے چند روز قبل ہونے والے دورۂ بھارت میں دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے‘ جس میں فیصلہ کیا گیا کہ سولہ دسمبر 2017 کو پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے اور بنگلہ دیش کی آزادی کے دن کو شاندار اور بین الاقوامی طور پر بھرپور طریقے سے منانے کیلئے دونوں حکومتیں مشترکہ طور پر ایک ڈاکو منٹری تیار کریں گی ،جسے دنیا بھر میں دکھایا جائے گا تاکہ عالمی رائے عامہ کی نظروں میں46 سال بعد ایک بار پھر شرمناک پروپیگنڈا کرتے ہوئے منظم طریقے سے نفرت کی دیوار کھڑی کی جائے۔ سورج غروب ہوتے وقت چند منٹوں کیلئے اپنے قد سے بھی لمبے نظر آنے والے، ذات پات کی غلیظ تقسیم میں بٹے ،باہم معاہدہ کرنے والے یہ سائے شائد بھول گئے ہیں کہ وہ ایک ہزار سال سے بھی زائدعرصہ مسلمانوں کے محکوم رہے۔ وہ وہی ہیں جنہیں مسلمانوں نے پے در پے ان گنت شکستیں دیں ۔وہ جو محمد بن قاسم کے ہاتھوں زمین بوس ہوئے‘ وہ جو محمود غزنوی کی یلغار کے سامنے ڈھیر ہوئے ، وہ اپنوں کی کوتاہیوں اور غداریوں سے ملنے والی ایک عارضی فتح کو مسلمانوں کی ہی تضحیک کیلئے بار بار استعمال کرتے ہوئے خوش ہو رہے ہیں اور یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اس عارضی فتح کیلئے بھی وہ مسلمانوں کے ہی محتاج رہے ۔سورج کے زوال پذیر ہونے کی وجہ سے لمبے ہونے والے یہ سائے اس فتح کو، جو ہندو نے اپنی طاقت اور اپنی فوج کی بہا دری سے نہیں بلکہ ہماری کوتاہیوں اور بنگالی مسلمانوں کی مدد سے حاصل کی، جشن کے طور پر منانے کیلئے شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی کو500 ملین ڈالر کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں ۔
ایک جانب بھارت پاکستان کے ایک ایک انچ کا دشمن ہے، ہماری سالمیت کا دشمن ہے، ہمارے وقار کادشمن ہے جو ہماری تضحیک اور ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا ،ہماری جانب بہنے والے پانی کو روکتا ہے تو دوسری طرف اسی دھرتی پر بیٹھ کراس پر راج کرنے والے ہیں جو اپنے ہی اداروں کی کِھلی اڑانے سے باز نہیں آتے۔ ان کے لیے عرض ہے کہ اگر آپ نیازی نام کے حوالے سے بضد ہیں تو پھر ان کے دور میں بھی تو کارگل برپا ہوا تھا ؟ وہ یہی کہتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اعلانِ لاہور کو سبوتاژ کیا تھا ،یہ معاہدہ واجپائی سے ہوا تھا تو حضور والا واجپائی کون ہے؟ کیا وہ اسی جنتا پارٹی کا حکمران نہیں تھا جس کا مودی ہے؟ خود ہی سوچئے کہ جب کارگل میں بھارت کی پانچ ڈویژن سے زائد فوج کو گھیرے میں لے لیا گیا تو آپ نہ جانے کیوں بھاگم بھاگ امریکہ جا پہنچے ، فائر بندی کروائی اور آج اسی فوج کو طعنے دیئے جا رہے ہیں...؟ ابھی کل ہی ان میں سے ایک نے فیصل آباد اور لاہور میں مختلف تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر نیازی صاحب میری نقل کرتے ہوئے اب پشاور میں میٹرو بس پروجیکٹ شروع کرنے لگے ہیں تو اس کیلئے وہ ان کی معاونت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اس پر ہمارے استاد گوگا دانشور نے عمران خان کو نصیحت کرنے کے انداز میں پیغام بھجوایاہے کہ یہ پیش کش کرنے والوں سے مشورہ ضرور لیںکیونکہ عقلمند کہتے ہیں کہ '' مشورہ دیوار سے بھی لے لینا چاہئے‘‘۔