"MABC" (space) message & send to 7575

بارود نہیں‘ پانی دو

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے حالیہ دورہ بھارت کے دوران بنگلہ دیش اور بھارت نے سول نیوکلیئر سپلائی سمیت 22معاہدوں پر دستخط کئے ہیںجن کے بارے میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مشترکہ پریس بریفنگ میں کہا کہ ان معاہدوں کو ایک یاد گار کے طور پر یاد رکھا جائے گا وہاں موجود ساتھ آئے ہوئے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا بھارتی عوام کی جانب سے بنگلہ دیش کی جنتا کیلئے یہ وہ تحفہ ہے جس کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔ اس معاہدے پر دونوں ملکوں کے سربراہوں نے خوشی خوشی دستخط تو کرد یئے ہیں لیکن بنگلہ دیش میں مجموعی طور پر اس معاہدے کو دونوں ملکوں کی عوا م کا ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی معاہدہ نہیں بلکہ حسینہ واجد اور نریندر مودی کے ذاتی معاہدے کا نام دیا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں اس معاہدے کے خلاف عوامی رد عمل سڑکوں پر احتجاج کی صورت میں سامنے آ رہا ہے اور ایک سروے کے مطا بق ایک غالب اکثریت کی رائے ہے کہ بھارت اگر واقعی بنگلہ دیش کی آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ایک خود مختار ریا ست کے طور پر کام کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے تو اسے بارود نہیں بلکہ ان دریائوں کا پانی ہی دے دے جو اس کا حق ہے اور جس کی اسے سب سے زیا دہ ضرورت ہے جبکہ بھارت بضد ہے کہ و و بنگلہ دیش کو پانی نہیں بلکہ بارود سے بھر ے گا بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا نے گلشن پارک میں واقع اپنے دفتر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت واقعی بنگلہ عوام کی خو شحالی کا خواہشمند ہے اور بنگلہ دیش کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتا ہے بنگلہ دیش کی زراعت اور صنعت کو پھلتا پھولتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان دریائے TEESTA کے پانی کا دیرینہ مسئلہ حل کر نا ہو گا اسے فرخا بیراج پر بنگلہ دیش کا اصولی موقف تسلیم کرنا ہو گا۔ اگر بنگلہ دیش کی زراعت کو نقصان پہنچتا ہے تو ہمیں بھارت کی تھانیداری کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے سے کوئی نہیںروک سکے گا۔ بھارت شائد بھول چکا ہے کہ بنگالی عوام جب اپنا حق لینے کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو وہ مانگے نہیں بلکہ اپنا خون دیتے ہوئے بڑھ کر چھین لیتے ہیں۔!! 
دفاعی تجزیہ نگاروں اور بنگلہ دیش کے سابق فوجی افسران کا کہنا ہے کہ جب بنگلہ دیشی فوج کے جوانوں اور افسروں کی تربیت بھارتی فوجی کرنا شروع ہو جائیں گے اور ستم یہ کہ بھارت کے ہی سائیکالوجسٹ ملٹری اکیڈیمی میں تعینات ہوں گے تو بات کہاں تک چلی جائے گی اس پر کچھ مزید کہنے کہ ضرورت نہیں '' اس دفاعی معاہدے کے ذریعے بھارت بنگلہ دیش کی فوج کے اندر تک گھس جائے گا اور پھر ہمارا کوئی راز راز نہیں رہے گا اور اس دفاعی معاہدے کا بنگلہ دیش کو کوئی فائدہ بھی نہیں ہو گا کیونکہ بنگلہ دیش کی کسی کے ساتھ دشمنی کا سوال ہی نہیں اس کی سرحدوں سے منسلک کسی بھی ملک کے ساتھ اختلافات نہیں کسی کے ساتھ بھی ہمارا کوئی سرحدی حدود کا تنازعہ نہیں اس طرز کے دفاعی معاہدے ہمیشہ خوف زدہ اور کمزور ممالک اپنے سے بڑے اور طاقتور ملک کی پناہ میں آنے کیلئے کرتے ہیں اور اس معاہدے سے تاثر پھیل جائے گا کہ وہ کمزور اور بھارت کے محتاج ہیں اور ہم جو اپنی حفاظت کرنے سے معذور ہوچکے تھے اب بھارت کو اپنا نگران اور محافظ مان لیا ہے۔ ایسا سوچنا بھی بنگالی عوام کی توہین ہے۔ نریندر مودی کی چالاکی اور حاکمیت دیکھئے کہ دورہ بھارت کے دوران بنگلہ دیشی فوج کی خواہش اور مرضی کے بغیر حسینہ واجد کو مجبور کر دیا کہ وہ 2021 کے سال کو افواج پاکستان کی بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی مارچ کے مہینے سے ہی تشہیرشروع کرتے ہوئے سارا سال بنگلہ دیش کی آزادی کی گولڈن جوبلی کے طور پر منانے کاا علان کرے جس کیلئے بھارت بنگلہ دیش کو پچاس کروڑ ٹکہ علیحدہ سے ادا کرے گا۔
بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اپو زیشن نیشنل پارٹی نے بھارتی فوج کی مدد سے اقتدار پر قابض حسینہ واجد ٹولے کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنگالی عوام کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ اس شرمناک معاہدے کے تحت بنگلہ دیش کو بھارت کی فوجی کالونی بنا دیا جائے۔بھارت کا بنگلہ دیش کے ساتھ وہی رویہ چلا آ رہا ہے جو سامراجی ممالک کا ہوتا ہے اگر ایک ہاتھ سے کسی ملک کو اپنی شرائط کے مطابق بھاری قرض فراہم کیا جاتا ہے تو دوسرے ہاتھ سے اسے واپس بھی لے لیا جاتا ہے اور اس کی ایک تازہ مثال بنگلہ دیش میں بجلی کے منصوبوں کی صورت میں سامنے آ گئی ہے ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے شیخ حسینہ واجد کی نئی دہلی موجود گی میں جب بنگلہ دیش کے ساتھ بائیس معاہدوں کا اعلان کیا تو ساتھ ہی بڑے فخر سے بتایا کہ بھارت نے بنگلہ دیش کی کریڈٹ لائن میں500 ملین ڈالر کا اضافہ کر دیا ہے لیکن۔۔۔یہ بات میڈیا سے خفیہ رکھی کہ چند گھنٹوں بعد بھارت دوسرے ہاتھ سے اپنی ABB کمپنی کیلئے بنگلہ دیش کی پاور گرڈ کمپنی سے کومیلا،مدھن گھاٹ میں گرڈ اسٹیشن اور سب اسٹیشنز کی مرمت اور اوور ہالنگ کے نام پر 178 کروڑ روپے کا ٹھیکہ حاصل کرنے کے معاہدے پر دستخط کرچکا ہے ۔
بھارت جس طرح افغانستان میں ترقیا تی کاموں اور دفاع کے نام پر اپنے پنجے گاڑتے کیلئے ہر پراجیکٹ او ر ادارے میں مشاورت کیلئے بھیجے جانے والے وفود میں RAW سے متعلقہ لوگوں کی بھر مار کئے جا رہا ہے وہی طریقہ اس نے کئی برسوں سے بنگلہ دیش میں اختیار کیا ہوا ہے اوریہ تواب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہا کہ افغانستان، نیپال اور میانمر کی طرح بنگلہ دیش بھی اب بھارتی راء کے علا قائی دفتر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بھارت کو اس وقت سب سے زیا دہ خطرہ بنگلہ دیش کی فوج اور سول سروس سے متعلق قوم پرست لوگوں سے ہے بھارت کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ ایک ایک کرتے ہوئے ایسے تمام لوگوں کو غیر اہم منا صب پر فائز کیا جائے جہاں وہ حکومتی پلایسیوں ، مذہبی رجحانات اور علا قائی سلامتی کے معاملات سے الگ تھلگ رکھے جائیں اور اس میں وہ کچھ کامیاب بھی ہو رہا ہے لیکن وہ خوف زدہ بھی ہے کہ مشرقی بنگال کے عوام غلامی سے نفرت کرتے ہیں چاہے کوئی ان کا بہت ہی قریبی کیوں نہ ہواور اسے ہر وقت خدشہ رہتا ہے کہ '' بنگلہ دیش کی فوج ، پولیس اور سول سروس میں ہیمنت کر کرے ‘‘ جیسے لوگ پیدا ہونے شروع ہو گئے تو اس کے سب منصوبے بے نقاب ہو جائیں گے بلکہ اسے اس سلسلے میں جو پریشانی لاحق ہو چکی ہے اور اس نے بھارتی سفارت کاروں کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے۔ بنگلہ دیش کی خفیہ ایجنسیوں نے بہت بڑانیٹ ورک بے نقاب کر دیا ہے جو مساجد اور مارکیٹس میں مختلف اسلامی گروپوں کے نام سے خود کش اور بم دھماکوں کے ذمہ دار ثابت ہو چکے ہیں اور ان کے ماسٹر مائنڈ کوئی اور نہیں بلکہ اجیت ڈوول کے سدھائے ہوئے داعش کے نام سے مشہور کئے جانے والے بھارت اور بنگلہ دیش میں مقیم انتہاپسندہی نکلے ہیں ۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں