پاکستان اور افغان کے سرحدی حکام کی میٹنگ میں ارضیاتی سروے رپورٹ نے کلی لقمان اور کلی جہانگیر کو پاکستان کا با قاعدہ حصہ ثابت کر دیا ہے اور اس سلسلے میں جیالوجیکل سروے رپورٹس اور جی پی آ رایس سے بھی ثابت ہو گیا ہے کہ یہ دونوں علاقے جن پر افغان فوجیوں نے سات روز قبل گولہ باری کی تھی نہ صرف پاکستان کا باقاعدہ حصہ چلے آ رہے ہیں بلکہ افغانستان کا باب دوستی اور سرحدی پوسٹ بھی افغانستان نہیں بلکہ پاکستانی حدود میں واقع ہے۔ ان رپورٹس کے بعد افغان فوجیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اوروہ دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ افغانستان کے اس گروپ کو جنہیں بھارت کی بالا دستی پر ہمیشہ اعتراض رہا ہے ان کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کے چین اور پاکستان کے سرحدی علا قوں پر تعینات فوجی افسران نے افغان فورسز کے کمانڈرز کو کلی لقمان اور کلی جہانگیر پر گمراہ کرتے ہوئے گولہ باری کی شہ دے کر کوشش کی ہے کہ پاکستان ا ور افغانستان کا محاذ گرم ہو جائے اور اس طرح دنیا بھر کو بھارت یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو سکے کہ اس کا ہمسایہ پاکستان صرف ہمارے ساتھ ہی نہیں بلکہ ایران کے بعد اب افغانستان پر بھی فوجی جارحیت کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں اشرف غنی جو کہ ایک کٹھ پتلی کی طرح حامد کر زئی کا کھیل رہا ہے اس کی کوشش ہے کہ جیالوجیکل سروے اورGPRS کو مسترد کر دینا چاہئے جبکہ عبد اﷲ عبد اﷲ پاکستان پر کی جانے والی اس گولہ باری کے مخالفین میں شمار کے جا رہے ہیں۔
چمن باب دوستی سے متصل پاکستانی علا قوں میں افغان فوجیوں کی جانب سے کرائی جانے والی گولہ باری کوئی اتفاقیہ یا کسی قسم کی لا علمی کی وجہ سے نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کیلئے ٹارگٹ بھی لاپروائی سے لئے گئے تھے بلکہ یہ گولہ باری با قاعدہ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کروائی گئی تھی اور جیسا کہ پہلے لکھا ہے کہ اس گروپ کواگلے روز ایران کے آرمی چیف کی جانب سے بلوچستان میں سرجیکل سٹرائیکس پر آنے والی دھمکی کی پہلے سے ہی خبر تھی اور اس طرح پاکستانی فوج کو عالمی سطح پر بدنام کرنے اور دبائو میں لانے کی یہ ایک باقاعدہ پلاننگ تھی ۔ لیکن بھارت کی بد قسمتی کہ پاکستان کے خلاف اس کا یہ منصوبہ ناکام ہو کر رہ گیا اور صورت حال اب یہ ہے کہ اس کا اظہار جی ایچ کیو راولپنڈی میں پانچ روز قبل افغانستان، پاکستان اور۔۔۔۔کے 2 Star جنرلز کی میٹنگ میں بھی ہو چکا ہے جہاں نقشوں کا باہمی تبادلہ کیا گیا تھا۔ چمن کے باب دوستی پر پاکستان کے سرحدی علا قوں میں کیا گیا حملہ اچانک نہیں بلکہ اس معاہدے کا ایک حصہ ہے جسے بھارت اور حامد کرزئی نے انتہائی خفیہ رکھتے ہوئے اکتوبر2011 میں سٹریٹیجک پارٹنر شپ کے نام سے کیا تھا اور یہ حالیہ حملہ اور پاکستان کے اندر تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے نام سے کی جانے والی دوسری دہشت گردانہ کارروائیوں کے بارے میں ایک ایک کر کے ثابت ہوتا جا رہا ہے کہ یہ سب اس کئے گئے معاہدے کے ہی مشترکہ آپریشن تھے جن میںبھارت اور اشرف غنی براہ راست شریک رہے۔ اشرف غنی اچھی طرح جانتا ہے کہ بھارت ٹی ٹی پی اور بلوچ لبریشن آرمی کے لوگوں کو سخت ترین گوریلا تربیت اور ہر قسم کا اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کر رہا ہے اور افغان حکومت کا یہ انتہا پسند گروپ اس بات پر خوش ہے کہ بھارت اپنے ہی سرمائے اور آدمیوں سے ان کی ''پراکسی وار ‘‘ لڑ رہا ہے۔
بھارت کی شرارتوں اور چالبازیوں کے نام سے کئے جانے والے اس معاہدے کے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کا ایک ہلکا سا مظاہرہ اشرف غنی کی افغان حکومت نے اس وقت کر لیا ہو گا جب پاکستانی فورسز نے کلی لقمان اور کلی جہانگیر پر کئے حملے کا جواب دیتے ہوئے افغان فورسز کے پچاس سے زائد لوگوں کو جہنم واصل اور115 سے زائد لوگوں کوزخمی کیا تھا ۔ افغانستان کی موجودہ عبد اﷲ عبد اﷲ اور اشرف غنی حکومت نے کرزئی کی جانب سے بھارت کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنر شپ کے نام سے کئے جانے والے اس معاہدے کو اگر فوری طور پر منسوخ نہ کیا تو آنے والے نتائج ان کیلئے بہت ہی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔افغان عوام اور ان کی حکومت کو چمن بارڈر پر پاکستان علا قے میں کی جانے والی گولہ باری جس سے 12 مرد خواتین اور بچوں کی شہا دتیں ہوئیں اور کئی لوگ زخمی کئے گئے اس کی ذمہ داری بھارت کے ان فوجی جاسوس یونٹس کے سر ہو گی جنہیں چین اور پاکستان سے متصل افغان سرحدوں پر کیڑوں مکوڑوں کی طرح پھیلا دیا گیا ہے۔ RAW-RAMA-NDS-IB-DIA یہ پانچوںنام بظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن پاکستان کے اندر اور باہر ان کے مشن ایک ہی ہیں کہ کس طرح پاکستان کو کمزور کرنا ہے اور اس وقت یہ پانچوں ادارے افغانستان میں کسی کے بھی کنٹرول میں نہیں رہے اور ان کی دسترس سے افغانستان کا بھی کوئی شعبہ محفوظ نہیں رہا۔ 2009 میں بھارت نے اجیت ڈوول کی ٹیکنیکل معانت سے افغانستان اور اس کی فوج کے منتخب کردہ لوگوں کو افغانستان کی خفیہ ایجنسی RAMA میں بھرتی کرتے ہوئے دو سال تک مسلسل چنے ہوئے کمیونسٹوں اور تاجکوں پر مشتمل خفیہ ایجنٹوں کی تربیت کے بعد بھارت نے کرزئی سے وہ سہولت مانگ لی جسے کسی بھی طریقے سے برداشت نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن کرزئی کی خواہشات اور کمزوریاں بھارت کے سامنے یوں سر بسجود ہو گئیں کہ اس نے اپنی ہی سر زمین کو چین اور پاکستان کے خلاف بھارت کے فوجی اڈوں کی شکل میں تبدیل کرتے ہوئے سٹریٹیجک پارٹنر شپ کے نام سے اکتوبر 2011 میں بھارت سے ایک معاہدہ کیا ۔۔۔ جس کی اس وقت کسی کو ذرا سی بھی بھنک نہ پڑ سکی اس معاہدے کے تحت افغانستان نے بھارت کو لاامتناہی اجازت نامہ دے دیا کہ وہ چین اور پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ جہاں بھی اور جس قدر چاہے اپنے فوجی انٹیلی جنس یونٹ تعینات کر سکتا ہے اس معاہدے سے بھارت کی در پردہ خواہش یہ ہے کہ ایک ایسی کمانڈو فورس تشکیل بنائے جو افغانستان سے سی پیک کو سبو تاژ کر ے۔
مشہور دانشور، تجزیہ نگار افغان نژاد موسیٰ خان جلال زئی کہتے ہیں کہ جب بھارت اور افغانستان کا یہ خفیہ معاہدہ ہونے جا رہا تھا تو انہوں نے اس کے اثرات سے امریکی انتظامیہ کو با قاعدہ آ گاہ کر تے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اس طرح ایک ایسا بیج بویا جا رہا ہے جو افغانستان میں امن اور ترقی کے تمام امکانات کو مسترد کرتے ہوئے نہ جانے کتنی دہائیوں تک اسے خطے میں عالمی مفادات کی جنگ کا اکھاڑا بناکر رکھ دے گا اور اس معاہدے کی بھارت نے ٹائمنگ اس طرح منتخب کی کہ اوبامہ انتظامیہ کے امریکی فوجوں کی واپسی کے اعلان کے بعد اس معاہدے سے بھارتیوں کوسرحدی علاقوں میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بھارت یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے ہاتھوں '' رام اور این ڈی ایس ‘‘ کے تربیت یافتہ اہلکار بھارت کے علا قائی مفادات کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بنیں گے اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی ذہنی تربیت اس انداز سے کر دی گئی ہے کہ وہ پاکستان کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے میں کسی شک و شبہ کا شکار نہیں رہتے ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ افغان حکومت کو یہ علم ہی نہ ہو کہ بھارت نے افغان سرحد سے چین اور پاکستان کے اندر اپنے فوجی کمانڈوز کو کرزئی سے کئے گئے معاہدے کے تحت جگہ جگہ ڈیپلائے کیا ہوا ہے۔۔!!