رمضان کی با برکت اور مقدس ساعتوں کی آمد آمد ہے۔ اس ماہ مقدس میں جہاں بھولے بھٹکے نجات کیلئے اﷲ سے رجوع کرتے ہیں، وہاں منزل کی جانب بڑھنے والے پہلے سے بھی زیا دہ خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ روزہ انسان کو بھوک اور پیاس کا احساس دلاتے ہوئے ان کی جانب متوجہ کرتا ہے جو اکثر بھوک اور پیاس کا شکار رہتے ہیں، پھر انسان کا ضمیر اسے غربا کی مددپر مائل کرتا ہے۔ قران پاک میں اﷲ تعالیٰ نے یہی حکم اپنے بندوں کو بار بار دیا ہے۔ قران پاک میں جہاں نماز کا ذکر آیا ہے وہاں زکوٰۃ کی ادائیگی پر بھی زور دیا گیا ہے۔ماہ صیام میں لوگوں کو جہاں بھی کسی مستحق کی خبر ملتی ہے وہ اس کی بھر پور مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،کچھ متمول حضرات تو برسوں سے باقاعدگی کے ساتھ مستحقین کی دل کھول کر مدد کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جس طرح ہم سب کے دل ان غریب اور لاچار لوگوں کی مدد کیلئے تڑپتے ہیں بالکل اسی طرح ہمارا جذبہ ایثار ان لوگوں کیلئے بھی مچلتا ہے جو کسی بھی نیک کام کیلئے میدان عمل میں ہیں۔مثال کے طور پر شوکت خانم کینسر ہسپتال یا ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ‘ جہاں سسکتی اور تڑپتی انسانیت کو سہارا ملتا ہے۔
پاکستان میں بد قسمتی سے پچھلی دو دہائیوں سے ایسے گروہ بھی زکوٰۃ حاصل کرنے میںمشغول ہیں جن کی سرگرمیاںملک و قوم کیلئے تباہ کن ہیں ۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں میں خفیہ آپریشنز کے ذریعے جو گروہ اب تک پکڑے گئے ‘ ان کے انکشافات اس قدر حیران کن اور خوفناک ہیں کہ سن کر انسان کا رواں رواں کانپ اٹھتا ہے۔تفتیشی اداروں کی جانب سے ان گرفتار دہشت گردوں سے جب ان کے ذرائع آمدن کے بارے پوچھا گیا تو سب نے یہی بتایا کہ وہ اپنے اوراپنے گھر والوں کے اخراجات ماہ رمضان میں زکوٰۃ و فطرانے کے ذریعے اکٹھے کرتے ہیں۔ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں ماہ رمضان کے فوری بعد دہشت گرد
تنظیموں کے سر پرستوں کے پاس نت نئی قیمتی گاڑیاں آ جاتی ہیں اور ساتھ ہی دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔سب سے حیران کن انکشافات ان لوگوں کے تھے جنہیں بم دھماکوں، خود کش حملوں اور اجتماعی قتل عام کے جرائم میں پکڑا گیا‘ وہ جنہوں نے فوج ، پولیس اور ایف سی کے جوانوں او ر افسروں کا قتل عام کیا، جو ایف سی کے جوانوں کے سر قلم کرنے کے بعد ان سے فٹ بال کھیل کر اس کی ویڈیوز بنا کر دنیا بھر کو دکھاتے رہے۔ وہ بھی کراچی، فیصل آباد ، ملتان ، راولپنڈی ، پشاوراور لاہور جیسے شہروں سے زکوٰۃ اکٹھی کرتے رہے۔رونا آتا ہے کہ اس زکوٰۃ کے پیسوں سے اسلحہ اور خودکش جیکٹس خرید کر پاکستان کی بیش قیمت دفاعی تنصیبات اور افواج پاکستان پر حملے کیے گئے، بچوںاور عورتوں کا اجتماعی قتل عام کیا گیا ، مسجدوں اور مزاروں کو مقتل بنایا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بقول حکومت تمام مشتبہ تنظیموں کے اکاونٹس فریز کیے جا چکے ہیں تو یہ آپریشنل کیونکر ہیں ۔اس کا جواب یہ ہے کہ خود وطن عزیز میں ان کے سہولت کار موجود ہیں جو ان تنظیموں کے لیے نہ صرف مالی امداد کا بندو بست کرتے ہیں بلکہ ان کو رہنے کی جگہ اور دیگر تمام معاونت بھی دیتے ہیں ،جس کے باعث یہ وحشی بے گناہ لوگوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ تنظیمیں نام تبدیل کر کے سر عام صدقات و عطیات اکٹھے کرتی ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں حالانکہ ملکی قانون کے مطابق کسی بھی قسم کا چندہ یا عطیات اکٹھے کرنے کے لیے انتظامیہ سے باقاعدہ
اجازت لینا ضروری ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلم دنیا میں کہیں بھی کوئی سانحہ رونما ہو تو چند جماعتیں متاثرین کے لیے عطیات اکٹھے کرنے کے لیے ملک بھر میں سٹال لگا لیتی ہیں ۔یہ عطیات برما کے روہنگیا مسلمانوں تک کیسے پہنچتے ہیں سب کو معلوم ہے! البتہ یہ ہے کہ ان تنظیموں کے حالات ضرور بہتر ہو جاتے ہیں ۔
ماہ رمضان کی آمد آمد ہے اور لوگ اپنی زکوٰۃ کا حساب کتاب کرنے میں مصروف ہیں۔ ان حضرات کو ایک عاجزانہ مشورہ ہے کہ اپنے ارد گرد رہنے والے ایسے لوگوں کی مدد کر دیں جو شرم کی وجہ سے اپنی حالت کسی سے بیان بھی نہیں کر سکتے جو قطاروں میں لگ کر کھڑے نہیں ہو سکتے‘ یہ سفید پوش نہ تو سڑکوں اور چوراہوں پر ہمیں گھسیٹتے ہیں اور نہ ہی اشیائے ضروریہ کی دکان اور مارکیٹ کے باہر اداکاری کرتے ہیں۔ در اصل یہی سب سے زیادہ مستحق لوگ ہیں جنہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے ۔
رمضان المبارک فطرانہ اور زکوٰۃ کی وصولی کے حوالے سے دہشت گردی میں ملوث انتہا پسند تنظیموں کیلئے سب سے زیادہ منا فع بخش وسیلہ بنتا جا رہا ہے اور اس کیلئے ان تنظیموں کے زیر زمین لوگ رمضان کی آمد سے ایک دو ماہ پہلے ہی بڑے ٹیکنیکل طریقوں سے اپنے رابطے اور تیاریاں شروع کر دیتے اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ رابطے اپنے مسالک کے لوگوں سے کئے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سوات میں ملا فضل اﷲ کی تحریک کو ہمیشہ سامنے رکھنا ہو گا ،جب اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر وہاں کی عورتوں نے اپنے زیورات تک اس کے فنڈ میں دے دیئے تھے اور نتیجہ یہ نکلا کہ اسی سرمائے کے استعمال سے نہ کسی کی عزت سلامت رہی اور نہ ہی گھر بار۔ ملا فضل اﷲکے ساتھ شامل جرائم پیشہ افراد نے سوات کی عفت مآب لڑکیوں اور خواتین کو جبراً اپنے نکاح میں لینا شروع کردیا‘ جو اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی تھی ۔ یہ وہ لوگ تھے جو اسلام کی بات کرتے لیکن اسلام سے ان کا دور تک کوئی واسطہ نہ تھا ۔
مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ہر سال رمضان المبارک میں کالعدم قرار دی گئی جہادی اور دوسری مذہبی تنظیموںکے کسی بھی قسم کی خیرات اور زکوٰۃاکٹھی پر پابندی عائد کی جاتی ہے اور لوگوں سے بھی کہا جاتا ہے کہ مشتبہ گروہوں اور تنظیموں کو فطرانہ یا زکوٰۃ نہ دیں ۔اس کے باقاعدہ اشہارات دیے جاتے ہیں اور اشتہار دے کر سمجھ لیا جاتا ہے کہ مسئلہ حل ہو گیا ۔تاہم ہوتا یہ ہے کہ کہیں پر نام بدل کر تو کہیں پر شخصیات کے ذریعے یہ زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے اور یہ سب کچھ غالباًحکومتوں کے نوٹس میں بھی ہوتا ہے کیونکہ اس کام کیلئے حکومت میں ہی شامل کچھ طاقت ور شخصیات کو الیکشن میں انہی گروہوں کی مدد کی ضرورت رہتی ہے۔لہٰذا سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ورنہ یہ تو ذرا سی فہم و فراست کے حامل فرد کے علم میں ہوتا ہے کہ یہ تنظیمیں یا ان کے ہمدرد اب کن ذرائع سے اور کن ناموں سے عطیات اور زکوٰۃ وصول کر رہے ہیں ۔فیصل آباد اور سیالکوٹ سمیت جنوبی پنجاب کے کم ازکم سات اضلاع میں اس وقت پانچ کے قریب فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیمیں ہر قسم کے عطیات وصول کرنے میں مصروف ہیں اور ماہ رمضان میں تو ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ مقامی مساجد اورمدرسوں کے مہتمم حضرات اور علاقے کے لوگوں کو تو اس کا علم ہو لیکن پولیس کو ان کا علم نہ ہو؟۔اس ماہ رمضان میں اپنی زکوٰۃ ضرور دیں لیکن یہ ضرور دیکھ لیں کہ اس کا مصرف کیا ہوگا؟