15 مئی کو دو روزہ وقفے کے بعد پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ کے احکامات اور ہدایات کی روشنی میں قائم کی جانے والی جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کا اجلاس شروع ہونے پر کمیٹی نے چند انتہائی اہم اقدامات اٹھائے۔ ان میں ایسے سو الات کی تیاری کا آغاز ہے جو پانامہ لیکس میں وزیر اعظم پاکستان اور ان کے خاندان سے پوچھے جائیں گے۔ یقینا ان سوالات کی تیاری ہی جے آئی ٹی کا وہ اہم ترین مرحلہ طے کرے گا ‘جس سے انصاف کی فراہمی میں کسی بھی فریق کو کوئی شک نہیں رہے گا‘ یہ وہ سوالات ہوں گے جن سے میڈیا سمیت فریقین کے وکلا اور سول سوسائٹی اندازہ کر سکے گی کہ اس کمیٹی میں شامل سرکاری افسران سوائے سپریم کورٹ کے کسی اور کو جواب دہ نہیں؟۔ یہ سوالات کیا ہوں گے کن معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کئے جائیں گے اس کا تمام تر دارومدار اس ٹیم پر ہے جیسے ہی جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے تیار کردہ یہ سوالات سامنے آئیں گے تو اسی سے اندازہ ہو جائے گا کہ '' یہ جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کیا چاہتی ہے‘‘ ان کی آفیشل کارکردگی کس قسم کی ہے ۔ کیا یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے طے گئے ایجنڈے کے مطا بق کام کر ے گی یا اس پر کسی بھی قسم کا بیرونی یا سرکاری دبائو اثر انداز ہو رہا ہے۔ اور جیسا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ ہر پندرہ روز بعد اس ٹیم کی کار کردگی اور شفافیت کا جائزہ لیتی رہے گی اس سے ٹیم کی کار کر دگی کی جانچ ہوتی رہے گی۔ وزیر اعظم اور ان کے خاندان سے کئے جانے والے سوالات کی تیاری کی خبر آنے کے بعدجے آئی ٹی کی جانب سے طلب کیے جانے والے چند متعلقہ کاغذات کے معاملات بھی سامنے آئے تو اس سے ان تمام اداروں میں کھلبلی مچ گئی‘ جن کا پانامہ کی تحقیق اور تفتیش سے کسی بھی قسم کا تعلق ہو سکتا ہے اس سے ان اداروں کو پانامہ لیکس پر کام کرنے والی ٹیم کی اجتماعی سنجیدگی کا اندازہ ہو گیا ہو گا ۔ ٹیم نے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت کی ہے کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کی متعلقہ تمام تقاریر اور انٹرویوز کا مکمل ریکارڈ کمیٹی کے حوالے کردیں تاکہ پتہ چلایا جا سکے کہ ان کے وقفے وقفے سے دیئے جانے والے بیانات اور انٹرویوز میں کس قدر اور کہاں کہاں تضاد ہے۔ لگ رہا ہے کمیٹی بغیر کسی قسم کی ملی بھگت یا لالچ اور دبائو کے انصاف کے معیار کو قائم رکھتے ہوئے اپنی رپورٹ تیار کرے گی۔ کمیٹی کے اجلاس میں الیکشن کمیشن ، سٹیٹ بینک اور نیب کی جانب سے موصول ہونے والی متعلقہ دستاویزات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا اس سلسلے میں ؛چنانچہ جے آئی ٹی کے نوٹس میں یہ بات لانا ضروری ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ ان کے پاس آنے والی دستاویزات کی سیکریسی برقرارر ہے کیونکہ شکوک و شبہات سامنے لائے جا رہے ہیں کہ کچھ ادارے بھی ان دستاویزات کی نقول حاصل کر رہے ہیں۔ جیسے جیسے جے آئی ٹی کی کاروائی آگے بڑھتی جا رہی ہے اس کے بارے میں اٹھائے گئے شکوک و شبہات اور بد گمانیوں کے تمام بادل چھٹتے جا رہے ہیںاور سپریم کورٹ کی قائم کی گئی اس جے آئی ٹی پر اعتماد اور بھروسے کا فخر چہروںپر پہلے سے زیا دہ روشن اور نمایاں ہو تا جا رہا ہے۔ ٹیم کے ماہرانہ اور دلیرانہ قسم کے چند ابتدائی فیصلوں اور چھان پھٹک سے ظاہر ہو گیا ہے کہ جے آئی ٹی کا فیصلہ انصاف کے معیار پر ہر حال میں پورا اترے گا۔سپریم کورٹ میں پاناما پر دیئے جانے والے فیصلے کی روشنی میں جے آئی ٹی نے جو بھی اقدامات کئے ہیں وہ ان کی تنظیمی اور تفتیشی صلاحیتوں کا مظہر ہیں‘ حدیبیہ پیپرز مل پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دیئے گئے اقبالی بیانات کو ریکارڈ کرنے والے احتساب بیورو کے ان تمام سابق افسران کو جے آئی ٹی کی معاونت کیلئے طلب کر لیا جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
ٹیم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم ا ور ان کے خاندان سے متعلق افراد کی تقاریر اور انٹرویوز کے ریکارڈز کو جے آئی ٹی کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اندازہ کر سکے کہ حقیقت کیا ہے۔ اس کاروائی کے اگلے ہی روز ایک اور اہم ترین خبر نے سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیا کہ جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے پانامہ لیکس پر شریف فیملی کی جانب سے پہلے سے سپریم کورٹ میں مہیا کی جانے والی دستاویزات کی جانچ پڑتال کیلئے برطانیہ کی ایک پرائیویٹ آڈٹ فرم کی خدمات حاصل کر نے کا ارادہ کر لیا ہے جو سپریم کورٹ کی اس معاملے میں معاونت کرے گی۔ جے آئی ٹی کے سربراہ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں سکیورٹی ایکسچینج کارپوریشن کے بلال رسول کو جو جے آئی ٹی کے رکن بھی ہیں برطانیہ کی کسی معتبر پرائیویٹ آڈٹ فرم کی خدمات مستعار لینے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ کمیٹی نے پندرہ مئی کو ہونے والے اجلاس میں اس بات پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے کہ NAB کی جانب سے ان کو فراہم کی جانے والی دستاویزات غیر تصدیق شدہ اور نا مکمل ہیں اور کمیٹی نے اپنے اس اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ کوئی بھی ایسی دستاویز جو تصدیق شدہ نہیں ہو گی اسے کمیٹی کے ریکارڈ میں کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا ۔
عوا م اور میڈیا کے حکومتی اداروں کی غیر جانب داری پر شکوک و شبہات بجا ہیں کیونکہ ان کے یہ شکوک اس وقت پختہ ہونے لگتے ہیں جب ملک کا انتہائی معتبر ادارہ ان تمام سرکاری اداروں کومردہ گھوڑے سے تشبیہ دیتا ہے۔اس وقت ملک کی تمام عدلیہ اور سیا سی جماعتوں سمیت عوام کی نظریں جے آئی ٹی کی کارروائی پر مرکوز ہیں اور ملک کا آزاد میڈیا اس کی تمام کارروائیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔مسلح افواج کی جانب سے بھی پانامہ لیکس بارے اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے وہ بھی عوام کی طرح سپریم کورٹ کی کارروائی کو انصاف کے تقاضوں کے مطا بق سمجھتی ہے۔
اس وقت ملک کی تمام عدلیہ اور سیا سی جماعتوں سمیت عوام کی نظریں جے آئی ٹی کی کارروائی پر مرکوز ہیں اور ملک کا آزاد میڈیا اس کی تمام کارروائیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔مسلح افواج کی جانب سے بھی پانامہ لیکس بارے اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے وہ بھی عوام کی طرح سپریم کورٹ کی کارروائی کو انصاف کے تقاضوں کے مطا بق سمجھتی ہے۔