کوئی دس برس قبل اپنے ایک آرٹیکل میں دشمن کی خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھنے والے پاکستان کے اہم ترین پانی اور بجلی کے منصوبے کالا باغ ڈیم کے خلاف ہر جگہ سے اپنے لوگوں کو استعمال کرتے ہوئے دھوئیں اور گردوغبار کی دیوار کھڑی کرنے پر مبارکباد د یتے ہوئے تسلیم کیا تھاکہ اس نے بہتر طریقے سے اپنے ایجنٹوں کو مختلف شکلوں میں استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور اس کے عوام کے سب سے اہم ترین منصوبے کو خاک چٹا کر رکھ دی ہے۔ جنگ کے میدان میں دشمن کی بہادری کی داد نہ دینا بزدلی کی علامت ہے۔ اس لیے بھارتی ایجنسیوں کی یہ بر تری تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس نے ہمارے ہی لوگوں سے ہمیں ہی ناکام کر کے رکھ دیا ‘اور اب ایک بار پھر بھارت وہی کھیل کھیلنے کیلئے دیا میر بھاشا ڈیم، گوادر پورٹ اور سی پیک کے خلاف سر گرم ہے اور اطلاعات کے مطا بق کالا باغ ڈیم کی طرز پر پاکستان میں اپنے مختلف ایجنٹوں میں تقسیم کرنے کیلئے اپنے قائم کردہ سیل کے لیے ایک کھرب روپے مختص کر دیئے ہیں۔ اس سیل کی سربراہی ایک میجر جنرل اور پچاس کے قریب اس کے سٹاف کے اراکین کر رہے ہیں۔پاکستان میں ان کی معاونت اور مدد کیلئے سوشلسٹ اور ترقی پسندی اور نام نہادلبرل چہرے سجائے میڈیا اور سول سوسائٹی کے بھیس میں گھسے ہوئے وہی خواتین و حضرات ہیں جو کبھی لاپتہ افراد تو کبھی انسانی حقوق کے نام پر پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے بارے میں نت نئی کہانیاں گھڑتے رہتے ہیں۔ ان کے چہرے پہچاننے ہوں تو چند سالوں سے گلگت بلتستان کے نام پر سوشل میڈیا پر مختلف خواتین و حضرات کے نام سے پھیلائی جانے والی وہ گمراہ کن رپورٹس دیکھ لیں‘ پتہ چل جائے گا۔
Sengi Hasnan Sering جس کے بارے میں کسی قسم کا شک ہی نہیں کہ وہ عرصہ دراز سے بھارت کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے پاکستان مخالف تحریک چلا رہا ہے اور جو خود کو گلگت بلتستان انسٹیٹیوٹ کا صدر کہلواتا ہے کالا باغ ڈیم پر اے این پی کے ولی خان گروپ کی طرح یہ گمراہ کن تاثر پھیلا رہا ہے کہ اگر سی پیک پر عمل ہوا تو سوست کی ڈرائی پورٹ تبدیل ہونے سے گلگت کے پندرہ سے بیس ہزار افراد بے روز گار ہو جائیںگے اور سی پیک کی طرح دیا مر بھاشا ڈیم کی تعمیر بھی گلگت بلتستان کے لوگوں کیلئے تباہ کن ثابت ہو گی۔۔۔یہ وہی الفاظ ہیں جو سندھ اور کے پی کے سے بھارت نواز قوتیں کالا باغ ڈیم کے بارے میں کہتی رہی ہیں ۔غور کیجئے الفاظ وہی ہیں صرف کردار بدلے گئے ہیں۔سنگ حسنان سرینگ کا تعلق مہاتما گاندھی انٹرنیشنلAISBL سے ہے جس پر پاکستان کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نام پریورپی یونین اورپاکستان کےGSP PLUS کو ہدف تنقید بنانے کا جنون سوار رہتا ہے۔
لاپتہ افراد کے نام کی کہانیاں ان کی جانب سے آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں لیکن جب گوادر میں سندھ کے دس دس غریب مزدوروں کو قطاروں میں کھڑا کر کے براہمداغ بگٹی اور بھارت کے اشتراک سے قائم دہشت گرد گروہ کی جانب سے شہید کیا جاتا ہے تو اس وقت ان کی زبانیں بند ہو جاتی ہیں ۔۔ بار بار ایک ہی قسم کے ۔جھوٹ بولنے اور گھڑنے میں یہ اس قدر بے شرم ہیں کہ ان کے استادوں کا بھی کہنا ہے کہ یہ مت سمجھو کہ تمہاری بات پر کوئی یقین کر رہا ہے بلکہ تم یہ سمجھتے ہوئے یہی لکھتے جائو کہ کوئی نہ کوئی اسے پڑھ ضرور رہا ہو گا اس لئے سوشل میڈیا کو دیکھنے والے یقیناََ با خبر ہوں گے کہ کالا باغ ڈیم اور بلوچستان کے بعد اب ان کا ہدف سی پیک ،گلگت بلتستان اور دیا مر بھاشا ڈیم بن چکا ہے اور اب یہی بھارت کا ٹارگٹ ہے۔۔۔نریندر مودی نے ایک جلسہ عام میں ایسے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ گلگت بلتستان کے جن لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے میں ان کی ہر ممکن مدد کروں گا۔۔۔۔اور اس نے اپنی مدد کا آغاز اس طرح کیا ہے کہ بھارتی میڈیا گلگت بلتستان کو متنازع بنانے کیلئے ہاتھ جھاڑ کھڑا ہو گیا ہے۔ ایک ماہ قبل سکردو میں کچھ لوگوں کی جانب سے کئے جانے والے جلسہ عام کی کوریج دکھاتے ہوئے تاثر دینا شروع کر دیا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ تو پاکستان سے آزادی چاہتے ہیں۔مقصد بھارت کا یہ ہے کہ نہ تو سی پیک پر کام ہو اور نہ ہی کالا باغ ڈیم کی طرح بھاشا ڈیم کی تکمیل کی جا سکے اور ا س کیلئے وہی نوشہرہ اور مردان والی کہانی سناتے ہوئے لوگوں کو فریب دیا جا ئے کہ آپ سب بے گھر ہو جائو گے آپ کے روزگار ختم ہو جائیں گے وغیرہ وغیرہ ؟۔ بھارت نے سی پیک کو ناکام بنانے اور اس کے خلاف مزاحمتی تحریک چلانے کیلئے بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس میجر جنرل کی سربراہی میں ایک سپیشل ٹاسک فورس تشکیل دے رکھی ہے جس میں بھارت کی تینوں مسلح افواج سمیت راء کے لوگ شامل ہیں اور اس ٹاسک فورس نے بلوچستان اور کراچی میں اپنے لوگوں کے ذریعے دہشت گردی کو معمول بنایا ہوا ہے۔
In Gwadar, The fisher folk don't want to leave کے خوبصورت اور متاثر کن عنوان سے لکھی گئی اس رپورٹ کو پڑھیں تو پہلا خیال یہ آئے گا کہ ہائے گوادر کی وجہ سے بے چارے ماہی گیروں کا روز گار چھن جائے گا؟۔ اندازہ کیجئے کہ کالا باغ ڈیم کی طرز پر ایسی رپورٹس اور بیانات کے ذریعے گوادر کے خلاف غیر محسوس طریقے سے شبہات کیسے پیدا کئے جا رہے ہیں اس بارے اوپر دی جانے والی رپورٹ دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے کہ دشمن کہاں کہاں اور کس طرح سے پاکستان پر حملہ آور ہے اور ایک ہم ہیں کہ اپنی ہی فوج اور اپنے ہی سکیورٹی اداروں کو فخریہ ادھیڑنے میں مصروف عمل ہیں ۔
داد کریم نامی ایک ماہی گیر کے حوالے سے اس رپورٹ کا آغاز کرتے ہوئے بتایا جا رہا ہے کہ ہمیں خفیہ ایجنسی والوں نے کہا ہے کہ گوادر پورٹ بن رہا ہے اس لئے آپ سب کو یہاں SUR بھیج دیا جائے گااس لئے یہ علا قہ خالی کر دو۔۔۔لیکن ہم یہ علا قہ خالی نہیں کریں گے کیونکہ اگر ہم سر جاتے ہیں تو وہاں صرف جون جولائی اور اگست تک مچھلیاں پکڑ سکیں گے کیونکہ ان تین ماہ کے بعد اس حصے میں طوفانی اور خطرناک لہروں کا راج ہوتا ہے جہاں مچھلی پکڑنے والے بیڑے نہیں جا سکتے۔
غور کیجئے گا یہ اسی قسم کے پیغامات دیئے جا رہے ہیں جیسے کالا باغ ڈیم کے خلاف دیئے جاتے تھے کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا مردان کا پانی ختم ہو جائے گا آدھا کے پی کے سیلاب کی نظر ہو جائے گا۔۔۔اور سندھ میں پلیجو اور قادر مگسی جیسے لوگوں نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا کہ سندھ کا پانی ختم ہو جائے گا سمندر خشک ہو جائے گا اور پانی نہ ملنے سے ہماری کچے کی زمینیں ناکارہ ہو جائیں گی۔۔۔۔!!