ذوالفقار علی بھٹو ، نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی عدالتوں میں پیشیاں نہیں ہوئیں؟۔یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بطور وزیر اعظم پیش نہیں ہوئے؟۔آصف علی زرداری عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے رہے؟۔جنرل پرویز مشرف کو دھکم پیل میں عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا؟۔ اگر یہ سب عدالتوں میں پیش ہو سکتے ہیںتو حسین نواز یا کوئی اور آسمان سے اترا ہوا تو نہیں ہے۔ اپنے ارد گرد ہی دیکھ لیں کہ روزانہ کتنے لوگ عدالتوں کے باہر دھکے کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آپ کراچی، حیدر آباد، نواب شاہ ،لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان ، پشاور، مردان، سوات، کوئٹہ، تربت، لورالائی جیسے کسی بھی ضلعی مقام یا تحصیل ہیڈکوارٹرز کی کچہریوں اور عدالتوں میں ایک دو گھنٹے کیلئے ہی چلے جائیں اوروہاں عدالتوں میں اپنے اپنے مقدمات کی پیشیاں بھگتنے کیلئے آئے ہوئے لوگوں سے پوچھیں کہ وہ کتنے عرصے سے عدالتوں میں اپنے مقدمات کی پیروی کیلئے آ رہے ہیں ان میںمدعی بھی ہیں اور ملزم اورگواہ بھی ۔۔۔۔ اب تک یہ بے چارے نہ جانے کتنی پیشیاں بھگت چکے ہیں اور نہ جانے کتنی اور پیشیاں بھگتیں گے۔ عدالتوں کے باہر سخت سردیوں اور کڑکتی دھوپ میں نہ جانے کتنی کتنی دیر انہیںانتظار کرنا پڑتا ہے ،کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ یہ سب اپنے اپنے مقدمات کی پیروی کیلئے کہاں کہاں سے اور کتنے بجے اپنے گھروں سے نکلتے ہوئے بسوں اور ویگنوں میں کتنے دھکے کھاتے عدالتی اوقات کے مطا بق صبح آٹھ بجے پہنچتے ہیں چاہے ان کی باری سہ پہر تین بجے ہی کیوں نہ آئے‘ انہیں اپنی بھوک پیاس مٹانے کیلئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں اور واپسی پر انہیں کتنی کتنی دیر تک بسوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور اگر کسی بس ویگن میں جگہ ملتی بھی ہے تو انہیں کس قدر تکلیف دہ صورت حال میں حبس اور گرمی میں یہ سفر کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں ہر روز پانچ لاکھ سے زائد افراد اپنے مقدمات کی سماعت کیلئے عدالتوں کا رخ کرتے ہیں ان میں کسان مزدور ہوتے ہیں توسرکاری اور پرائیویٹ ملازمتیں کرنے والے بھی اور انہیں ہر پندرہ روز بعد اپنے کام کاج چھوڑ کر یا اپنی ملازمتوں سے نہ جانے کس طرح رخصت لے کر آنا پڑتا ہے۔ ان میں کئی دکاندار ہوتے ہیں جنہیں اپنی دکانیں بندکرکے یا کسی اور کو وہاں بٹھا کر'' پیشیاں‘‘ بھگتنی پڑتی ہیںلیکن آج تک ان کی پیشیوں کی جانب کسی کی نظر نہیں گئی، کسی نے ان تیس سالوں میں ان کی حالت زار کا اندازہ نہیں کیا، کسی کو خیال نہیں آیا کہ عدالتوں کے باہر دھکے کھانے والے مرد و خواتین بھی گوشت پوست کے بنے ہوتے ہیں ۔ ہماری وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب شائد بے خبر ہیںکہ اب تین تین منزلہ عمارتوں میں عدالتیں قائم ہو چکی ہیں اور ان میں لفٹ کی کوئی سہولت نہیں، بوڑھے مرد و خواتین کو اپنی پیشی بھگتنے کیلئے نہ جانے کتنی بار ان سیڑھیوں سے اترنا چڑھنا پڑتا ہے۔۔۔تصور کیجئے کہ اس گرمی میں چاہے کسی نے روزہ نہ بھی رکھا ہوا ہو جب دو دفعہ تیسری منزل پر آنے جانے کیلئے سیڑھیوں کا استعمال کرنا پڑتا ہو گا تو اس کی کیا حالت ہوتی ہو گی؟ اس پر کیا گزرتی ہو گی؟۔۔۔نہیں جناب والا آپ کا ان چند پیشیوں پر شکوہ درست نہیں یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے سب اﷲ تعالیٰ کی رضا سے ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اﷲ نے آپ کو دکھایا ہو کہ تیس برسوں سے اس ملک پر راج کرنے والو:۔ آج تمہاری اولاد کو جو چند پیشیاں بھگتنا پڑی ہیں ان کا موازنہ ان ایک کروڑ سے زائد لوگوں کی پیشیوں سے کرو جو روزانہ عدالتوں اور تحقیقاتی ایجنسیوں کے دفاتر کے باہر دھکے کھاتے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان یا ان کے خاندان کے کسی فرد کو اب تک ان پیشیوں کا تجربہ نہیں تھا اس لئے جائنٹ انٹیرو گیشن ٹیم میں یہ چار پانچ پیشیاں ہی ان کی سیا ست کا روگ بن کر نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ وہ جو دس دس سالوں سے اپنے مقدمات کے فیصلے سننے کیلئے دھکے کھاتے ہیں ان کی کسمپرسی کی جانب اب تک کسی کا دھیان نہیں جا سکا شائد اس لئے کہ یہ بے چارے عام ووٹر ہیں۔ یہ حق رائے دہی استعمال کرنے والے وہ غریب لوگ ہیں جو اپنے ووٹوں سے ان لوگوں کو منتخب کرکے اقتدار کی مسند پر بٹھانے کے بعد پھر سے عدالتوں کے اندر اور باہر دھکے کھانے کیلئے آ جاتے ہیں۔
پاناما کیس پر جب سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا تو پنجاب بھر میں مٹھائی کی دکانوں پر آپ نے ہی ہاتھ صاف کرتے ہوئے جشن منائے تھے۔۔۔اور وزیر اعظم ہائوس سے پاناما فیصلے کے بعد سرکاری طور پر جو تصویر جاری کی گئی اس میں یہی دکھایا گیا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اپنے بڑے بھائی سے گلے ملتے ہوئے انہیں اس فتح پر مبارکباد دے رہے ہیں ۔پھر کیا ہوا کہ جیسے ہی جائنٹ انٹیروگیشن ٹیم تشکیل دینے کا وقت آیا تو ٹی وی چینل پر مسلم لیگ نواز کے ترجمان چہک چہک کر بول رہے تھے، الفاظ ان کے قابو میں نہیں تھے ۔۔۔اب یاد آ رہا ہے کہ پاناما کیس کے سپریم کورٹ سے فیصلے کے بعد عمران خان واحد سیا ستدان تھا جو کہہ رہا تھا کہ جے آئی ٹی میں سچ سامنے آ کر رہے گا آج مسلم لیگ نواز کے لوگ جتنی چاہے لڈیاں ڈال لیں لیکن جب تلاشی شروع ہو گی تو یہ سب سے زیا دہ بلبلائیں گے کیونکہ ان کا خیال یہ ہے کہ جے آئی ٹی میں ایسے لوگ بھیجے جائیں گے جو ان کی انگلیوں پر رقص کرنے والے ہوں گے ، یہ سوچتے ہوں گے کہ ا یف آئی اے اور ایف بی آر تو ہماری ہی گھڑی ہوئی مورتیاں ہیں جس رخ چاہیں گے ان کو بٹھا دیں گے۔۔۔لیکن قدرت ان کے ارادوں پر ہنس رہی ،تھی انصاف اپنی فتح پر مسکرا ئے چلے جارہا تھا۔
اگر خلیفہ وقت حضرت عمرؓ بن خطاب اپنے کرتے کا حساب دینے کیلئے قاضی کی عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں، اگر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ایک یہودی کی شکایت پر قاضی کے سامنے جواب دہ ہو سکتے ہیں تو پاناما لیکس کے کیس میں مطلوب لوگ عدالتوں کا سامنا کیوں نہیں کر سکتے؟۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پاناما لیکس سب جھوٹ ہے تو پھر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔۔۔پاناما لیکس کاایک کردار عمر چیمہ کی شکل میں آپ کے سامنے موجود ہے آپ اس پر ہتک عزت کا مقدمہ کر سکتے ہیں ۔عمر چیمہ عالمی شہرت رکھنے والا بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ صحافی ہے آپ اسے پکڑیں کہ بھائی تم نے یہ کیا جھوٹ کے پلندے لا پھینکے ہیں جن سے ہمیں جے آئی ٹی کے سامنے پیشیاں بھگتنی پر رہی ہیں؟۔ لیکن آپ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ سچ آپ بھی جانتے ہیں اور قوم بھی !