آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اوول کے میدان میں بھارت کی کرکٹ ٹیم کو شکست دینے والی قومی کرکٹ ٹیم کو عمرہ کی دعوت کس حیثیت سے دی ہے؟ یہ حق تو صرف وزیر اعظم پاکستان کو حاصل ہے جو ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ کیا آرمی چیف قومی کرکٹ ٹیم کو عمرہ کی سعادت اپنی جیب سے کرائیں گے؟ کسی آرمی چیف کو اس قسم کے اعلانات کرنے کا حق کس طرح پہنچ سکتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت مسلم لیگ نواز اور ان کے بھارت نواز ''ترقی پسند‘‘ اتحادیوں کی جانب سے میڈیا میں اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس گروہ کے بجائے میرے مخاطب وہ اکیس کروڑ سے زائد پاکستانی ہیں جن کو یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی یہی کرکٹ ٹیم جب سست روی کا شکار ہو چکی تھی‘ جب یہ فیلڈنگ اور بائولنگ میں تھکاوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گئی تھی‘ جب کھیل کے میدان میں ان سے برق رفتاری سے گیند کے پیچھے بھاگا نہیں جاتا تھا‘ تو یہی پاک فوج اور یہی قمر باجوہ تھے جنہوں نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ایبٹ آباد میں اپنے ان انسٹرکٹرز کے حوالے کیا تھا‘ جو ا س ملک کیلئے جان کی بازی لگانے والے جانبازوں کو تیار کرتے ہیں۔ ایبٹ آباد میں فوج کے فٹنس سینٹر اور کاکول اکیڈیمی میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے قومی کرکٹ ٹیم کے ان سپوتوں کو‘ جنہوں نے آج اوول کے میدان میں ملک و قوم کا نام سربلند کیا‘ اس سخت ترین تربیت سے سرفراز کیا جس نے ان کے بدن میں گھسی ہوئی سستی اور تھکاوٹ کو جڑ سے اس طرح اکھاڑ پھینکا کہ سب نے انہیں میچوں کے دوران گیند کے پیچھے چیتے کی طرح بھاگتے ہوئے دیکھا۔ ان میں وہ ڈسپلن پیدا کیا‘ ان میں وطن کی وہ محبت پیدا کی جس نے انہیں ہر لالچ سے آزاد کرتے ہوئے وطن کے سپاہی میں بدل دیا۔
18 جون کا دن جہاں پاکستان سے محبت کرنے والوں کیلئے خوشیوں کا پیغام لے کر آیا وہاں یہ ہمارے ملک کے لبرل اور فوج سے قدرتی بغض رکھنے والوں کیلئے روزِ ماتم بن گیا۔ بھارت کی تاریخ میں بھی یہ دن ان کیلئے مدتوں ایک سیاہ ترین دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ جن لوگوں کو بھارت کے ٹی وی چینلز دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے‘ وہ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ اس شکست پر پورا بھارت کس طرح بلبلا اٹھا ہے۔ میں نے بھارت کے سابق فاسٹ بائولر اور کیپٹن کپل دیو کو چیخیں مارتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر اس طرح روتے ہوئے دیکھا ہے جیسے اس کے گھر کا کوئی فرد مر گیا ہو۔ بھارت کے درجنوں کے حساب سے ٹی وی چینلز پر بیٹھے ہوئے اینکرز اور لیڈر ہمارے ہاں کے ترقی پسندوں کی طرح اس شکست کا سارا غصہ پاک فوج پر نکالنا شروع ہو گئے ہیں۔ اٹھارہ جون کو اوول میں پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی بد ترین شکست کے بعد اگر کسی کو ان کے مشہورزی ٹی وی سمیت دوسرے چینلز دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے‘ تو وہ ان کی عقل پرماتم کئے بغیر نہیں رہ سکے گا کیونکہ چیمپئنز ٹرافی کے اس میچ کی فتح کو بھی انہوں نے پاکستان کی آئی ایس آئی سے منسلک کر دیا‘ اور ان کے اینکرز اپنی قوم کو باور کرانے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ ان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حکم پر جب ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پاکستان کی فتح کے فوری بعد9:20 پر اپنے ٹویٹ میں پوری کرکٹ ٹیم کو آرمی کی جانب سے عمرہ کرانے کا اعلان کیا تو اس کے پیچھے کوئی خاص منطق ہے۔ اس سے پہلے تو کبھی ان کے آرمی چیف نے اس قسم کاا علان نہیں کیا تھا۔ ان عقل کے اندھوں کو کون بتائے کہ پاکستان کو اس قسم کی فتح بھی تو کئی سالوں بعد نصیب ہوئی ہے تو اس پر قوم کا ایک ایک فرد خوشی کا اظہار کیوں نہ کرے؟ یہ لوگ بھول گئے کہ جنرل ضیا کے دور میں جب بھی قومی ٹیم بھارت کو شکست دیتی تھی تو وہ پورے ملک میں عام تعطیل کا
اعلان کر دیا کرتے تھے۔ جب بھارت نے پاکستان کوچیمپئنز ٹرافی کے پہلے میچ میں شکست دی تو کیا ان کے آرمی چیف نے اپنی ٹیم کا حوصلہ نہیں بڑھایا تھا؟ کیا بھارت کی فوجی میسوں اور بیرکوں میں اس پر جشن نہیں منائے گئے تھے؟ کرکٹ ٹیم کی فٹنس کاکول اکیڈیمی میں کی گئی تو کیا ان کی اس فتح کا سہرا ان فوجی انسٹرکٹر کو نہیں جا سکتا جنہوں نے ان میں چیتے کی سی پھرتی پیدا کی‘ جنہوں نے انہیں اس ابدی مرض سے نجات دلائی جس سے ہر میچ میں دو چار کھلاڑی پٹھوں اور مسلز کی شکایت لے کر بیٹھ جایا کرتے تھے ۔ یہ سب ان کی محنت کا ثمر تھا۔ یہ ان کے تیار کئے گئے ان جوانوں کی کار کردگی تھی جس کا بھرم انہوں نے اوول کی گرائونڈ میں قائم رکھا۔
پاک فوج کے نقاد اتنی جلدی سابق کپتان مصباح الحق کے وہ پُش اَپس بھول گئے جو اس نے کاکول میں تربیت حاصل کرنے کے بعد چوالیس کی عمر میں سب کو کرکٹ گرائونڈ میں لگا کر دکھائے تھے؟ پاک فوج کے نقاد بھول کیوں جاتے ہیں کہ مردم شماری اگر فوج کے بغیر نہیں ہو سکتی‘ بجلی کے بحران کو دور کرنے کیلئے اگر فوج کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں‘بجلی چوری کو روکنے کیلئے اگر فوج کو آپ میٹروں کی چیکنگ پر لگا سکتے ہیں‘ گھوسٹ سکولوں کیلئے آپ فوج کو میدان میں اتارتے ہیں‘ سیلاب آنے پر جب فوج آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہوجاتی ہے‘ چھوٹو گینگ جب آپ کے قابو سے باہر ہوجاتا ہے تو اس وقت اگر فوج بلائی جاتی ہے‘ تو فوج کو قوم کی خوشیوں سے باہر کس طرح رکھا جا سکتا ہے... اور جنرل قمر جاوید باجوہ جیسا ایک ایسا آرمی چیف‘ جو اگر فوج میں نہ ہوتا تو اپنے وقت کا ایک بہترین کرکٹر بن کر سامنے آتا‘ اس قسم کے مشہور کھلاڑی کے دل سے وہ پرانا کرکٹر کس طرح نکالا جا سکتا ہے ؟اس کے اندر سے پاکستان کو کس طرح نکالا جا سکتا ہے۔
ضرب عضب کے بعد اب رد الفساد کے نام پر کیڑے نکالنے والا دانشوروں اور سیکولر کی گردان کرنے والے بھارت نواز ٹولے‘ جو کشمیر پر پاکستان کے موقف کو وقت کے ضیاع سے تشبیہ دیتے نہیں تھکتا‘ اور مودی کے یاروں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ کیا پاک فوج قومی کرکٹ ٹیم کو عمرہ اپنی جیب سے کرائے گی؟ان کے اس چھچھورے قسم کے اعتراضات کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ حکمران اگر جگہ جگہ لوگوں کو کئی کئی لاکھ روپے کے چیک بانٹتے پھرتے ہیں تو کیا یہ سب انہوں نے اپنی اپنی جیبوںسے اداکرنے ہیں؟ قومی کرکٹ ٹیم کیلئے جو ایک کروڑ روپے کا اعلان کیا گیا ہے‘ کیا وہ یہ سب رقم اپنی جیب سے اداکریں گے؟ کیا پاکستان کے کسی قانون یا آئین میں در ج ہے کہ پاک فوج کسی بھی آفت کے موقع پر اپنی ایک ایک دن کی تنخواہ وقف کرے گی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر فوج کی جانب سے کھلاڑیوں کو عمرہ کرانے کے اعلان پر اتنا واویلا کیوں؟