نواز لیگ نے شیشے کے گھر میں بیٹھ کر عمران خان پر جو پتھر پھینکا ہے اس وقت انہیں نظر نہیں آرہا لیکن یقین کیجئے پلٹ کر وہ پتھر انہیں ہی آ لگا ہے جس کا احساس انہیں جلد ہی ہو جائے گا۔ لاہور میں تحریک انصاف کے تیس اکتوبر کے تاریخی جلسہ عام نے جب نواز لیگ کی نیندیں حرام کر دیں تو ایک وفاقی وزیر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا '' میں عمران خان کی زندگی کے راز بے نقاب کر دوں گا‘‘ جس پرعمران خان نے چیلنج کیا کہ'' میرے سمیت نوازشریف اور شہباز شریف فیصل مسجد آئیں اور وہاں قران پر ہاتھ رکھ کر سب کے سامنے قسم کھائیں کہ '' شادی کے بعد ہم میں سے کسی نے بھی اپنی بیویوں سے بے وفائی نہیں کی‘‘ سب کو سانپ سونگھ گیا لیکن عمران خان آج بھی اپنے چیلنج پر کھڑا ہے کہ دونوں بھائی میرے ساتھ خانہ کعبہ یا مدینہ منورہ میں اس بات کی قسم اٹھائیں۔عائشہ گلالئی کو 2013 میںعمران خان کا ٹیکسٹ ملا اور اس کا غصہ وہ2017 میں نکال رہی ہے؟۔ لطیفہ ہے کہ لاہور کی مال روڈ پر کوئی جا رہا تھا کہ سڑک کی دوسری طرف سے ایک آدمی بھاگتا ہوا ا س کی جانب لپکا اوراُسے مارنا شروع ہو گیا دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ اُسے بڑی مشکل سے اس کے نرغے سے نکالا گیا۔ لوگوں نے پوچھا بھائی آپ کیوں اسے مار رہے ہو‘ کیا اس نے تمہاری کوئی رقم دینی ہے؟ اس نے تمہیں کبھی مارا تھا؟ تمہارا کوئی رشتہ دار ہے جس سے کوئی جائداد کا جھگڑا ہے؟ جب تمام سوالوں کے جوابات نفی میں ملے تو سب نے حیران ہو کر کہا کہ پھر تم نے اسے پیٹا کیوںہے؟جس پر وہ شخص کہنے لگا اس نے مجھے تین سال پہلے قبل گینڈا کہا تھا۔تمام لوگ حیران ہو کر اس سے پوچھنے لگے کہ اس نے تمہیں تین سال پہلے گینڈا کہا تھا تواسی وقت اس پر اپنا غصہ نکالتے تین سال بعد کیوں؟وہ شخص بولا میں آج چڑیا گھر گیا ‘وہاں پر میں نے ایک عجیب بد شکل اور بے ہنگم قسم کا جانور دیکھا جسے لوگ گینڈا کہہ رہے تھے یہ سنتے ہی غصے سے میری بری حالت ہو گئی کہ اس نے مجھے اس سے تشبیہ دی ہے چڑیا گھر سے نکلتے ہی یہ مجھے نظر آ گیا۔
لگتا ہے تین برس قبل عمران خان کے بھیجے گئے ٹیکسٹ کی سمجھ گلا لئی کو اب آئی ہے‘ جب اس کے اصل معنی سمجھ آئے ۔۔۔نواز لیگ اس قسم کی گھٹیا حرکات بی بی کے ساتھ بھی کرتی رہی ہے اور یہ گھٹیا ڈرامہ رچا کر گورنر کے پی کے اور نواز شریف نے پختون بیٹیوں کی عزت اور کلچر کی زبردست توہین کی ہے۔ 72-73ء میں جب ایئر مارشل اصغر خان چیئر مین تحریک استقلال کے نام کا کوچہ سیا ست میں اسی طرح طوطی بول رہا تھا جیسے آج عمران خان سیاست پر چھائے ہوئے ہیں تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی قیا دت میں پی پی پی پنجاب میں حکمران تھی۔ ایئر مارشل اصغر خان نے بد ترین تشدد کے با وجود پسپائی اور سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا تو طاہرہ بیگم جو بہاولپور کے ایک معزز گھرانے کی خاتون تھیں اور جن کے ہاں ایئر مارشل اصغر خان لاہور آمد پر اپنی تمام سیا سی مصروفیات کے پروگرام کیا کرتے تھے بیگم طاہرہ کو ہر طرح سے دبائو ڈالتے ہوئے کہا گیا کہ وہ ایئر مارشل کا ساتھ چھوڑ دیں لیکن وہ خاتون ثا بت قدمی سے ڈٹی رہی۔ جس طرح آج تمام سیا سی جماعتوں کا نشانہ عمران خان ہیں‘ اسی طرح اس وقت ایئر مارشل اصغر خان کی جماعت بھٹو کیلئے خطرہ بن چکی تھی اس وقت میاں نواز شریف بھی تحریک
استقلال میں شامل تھے جب تمام حربے استعمال کر لئے گئے تو طاہرہ بیگم کو بدنام کرنے کیلئے میڈیا میں خبریں شائع کرا دیں کہ ایئر مارشل اصغر خان کے بیگم طاہرہ سے ناجائز تعلقات ہیں( نعوذ بااﷲ) ۔ بیگم طاہرہ کو اس قدر بد نام کیا گیا کہ اس کے شوہر کو اس سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی۔شریف خاندان کے مردوں کی جانب سے گاہے گاہے مختلف عورتوں کے ذریعے سیا سی مخالفین پر گنداچھالنے کا جو سلسلہ شروع ہے وہ کوئی نئی بات نہیں۔ 1985-93 تک لاکھوں کی تعداد میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی شرمناک تصویریں بنا کر جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے پنجاب کے شہر شہر اور قصبہ قصبہ پر گرائی گئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جلا وطنی ختم کرتے ہوئے اپریل1986 میں پاکستان آئیں تو مرکز میں محمد خان جونیجو اور پنجاب میں میاں نواز شریف اقتدار میں تھے۔بے نظیر بھٹو کا واپسی پر تاریخی استقبال کیا گیا۔ ایئر پورٹ سے مال روڈ اور پھر داتا صاحب سے ہوتے ہوئے مینار پاکستان پر جلسہ عام کا انتظام تھا جہاں لاکھوں کی تعداد میں جیالے منتظر تھے مینار پاکستان پر جیسے ہی ان کو لئے ہوئے سجا سجایا ٹرک پہنچا تو دو کارروائیاں ایک ساتھ ہوئیں '' ایک عام سے شخص کو بی بی کے ٹرک پر سوار کرایا گیا جس نے پلک جھپکتے ہوئے قوم ایک عجیب حرکت کی جس کی تصویر اگلی صبح تمام اخبارات کے صفحہ اول پر نمایاں طور پر شائع کرائی گئی۔۔۔ آج بھی اس کی تحقیق کی جائے تو اس پولیس افسر اور مسلم لیگی کارکن کا نام سامنے آ سکتا ہے جسے پلاٹوں کی سیریل الاٹ کرنے کے علا وہ کئی سال تک بیش بہا انعامات سمیت لاہور ایئر پورٹ پر دکانوں کے تحفے دیئے گئے۔ عائشہ گلالئی کی کہانی کوئی نئی بات نہیں‘ن لیگی قائدین اور اس گروہ کی یہ پرانی عادت ہے جن کے نزدیک دولت کے ذریعے جس کی چاہیں پگڑی اچھا ل دیں کسی کو جیل میں بند کر کے اس کے ساتھ طوائف لا کر سلا دی گئی تو کسی کی خاتون خانہ پسند آنے پر اس کے ہنستے بستے گھر کو تباہ کر کے رکھ دیا۔
ٹی وی چینلز پر حنیف عبا سی فر ما رہے تھے کہ گلالئی آج سے میری بہن ہے کیونکہ مسلم لیگ نواز کے لوگ بہنوں اور بیٹیوں کا انتہائی احترام کرتے ہیں۔۔۔۔حنیف عبا سی جو شرافت اور تہذیب کے دعوے کر رہے تھے ان کے ہاتھوں کسی کی ماں بہن اور بیٹی کی عزت کتنی محفوظ ہے اس کا ثبوت ایک ٹی وی چینل کا 7اگست2014کا رات دس بجے والا ٹاک شو ہے جس میں عوامی تحریک کے ایک رہنما کے ساتھ وہ شریک تھے۔ اس کی ریکارڈنگ آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے اور اعلیٰ عدلیہ کو نوٹس لے کر اس کی ریکارڈنگ نکلوانی چاہیے اور حنیف عباسی کو دوسروں کی بہنوں کے بارے میں گھٹیا زبان کھلے عام استعمال کرنے پر کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ اس شو میںجب ما ڈل ٹائون کے قتل عام کی بات شروع ہوئی تو حنیف عبا سی نے گھٹیا اور با زاری زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ '' اس رہنما کی بہنیں اس وقت ... ... میں خود دیکھ کر آیا ہوں‘‘۔۔۔ سوچئے جو شخص نواز شریف کو خوش کرنے کیلئے ایک دینی جماعت کے شریف اور بے ضرر آدمی کی بہن اور بیٹی کے بارے میں اس قسم کی گھٹیا گفتگو کر سکتا ہے؟ کیا گلالئی ایسے شخص اور جماعت کی بہن بننے جا رہی ہے؟کنند ہم جنس با ہم جنس پرواز؟۔۔!!