"MABC" (space) message & send to 7575

کرنل حبیب کی رہائی کے لئے خط

'' میں کرنل حبیب کی اہلیہ ہوں۔ یہ میرا دوسرا خط ہے جو میں سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ اور UNHRCP کے نام لکھ رہی ہوں تو ساتھ ہی دنیا بھر کے تمام قابل احترام سفارتی اہلکاروں اور ان کی نگرانی میں کام کرنے والی ہیومن رائٹس کی تمام تنظیموں سے بھی اپیل کر رہی ہوں کہ میرے شوہر کرنل حبیب ظاہر کی بازیابی کیلئے بھارت پر دبائو بڑھائیں جس کی خفیہ ایجنسیوں نے اقوام متحدہ کے ایک پراجیکٹ میں کام کرنے کی شرائط طے کرنے کے بہانے میرے شوہر کو نیپال بلایا اور اس کیلئے Fake ویب سائٹس، ٹویٹر اکائونٹس اور کمپیوٹروں کے ذریعے ایسے موبائل نمبر استعمال کئے گئے جن کے بارے ثابت ہو چکا ہے کہ وہ بھارت میں استعمال ہوتے رہے۔ میرے شوہر کو اغوا کرنے کیلئے کی جانے والی تیار کی گئی سازش پر عمل در آمد کیلئے چیف سلیکٹر کی حیثیت سے مارک تھامپسن کے نا م سے خود کو متعارف کرانے والے شخص نے برطانیہ کے نمبر سے میرے شوہر سے رابطہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنی ملازمت کی شرائط طے کرنے کیلئے وہ کھٹمنڈو نیپال پہنچیں، اگلے ہی دن انہیں اطلاع دیتے ہوئے کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی فنڈنگ سے کام کرنے والے جس پراجیکٹ میں ملازمت کرنے کیلئے آپ کو کھٹمنڈو بلایا جا رہا ہے اس کیلئے آپ کو کھٹمنڈو سے لمبانی لے جایا جائے گا جہاں اقوام متحدہ کا مذکورہ پراجیکٹ واقع ہے ۔ میرے شوہر جن کی تمام ایئر ٹکٹیں یو این او کے نام سے متعارف کرائے جانے والے اسی ادارے نے چھ اپریل کو کھٹمنڈو اور پھر لمبانی پہنچایا ۔۔۔اور وہاں سے بھارتی خفیہ ایجنسی نے انہیں غائب کر دیا اور اب تک ان کا کوئی سراغ نہیں مل رہا ۔
اپنے اس خط کے ذریعے اقوام متحدہ سمیت دنیا کا ہر باشعور شخص ایک لمحے کیلئے سوچے کہ اگر اس قسم کی رسم چل نکلی اوردنیا بھر میں ایک دوسرے کے متحارب ممالک نے اسی طرح جعلی دستاویزات اور سازشوں کیلئے اپنے مخالف ملک کے لوگوں کو مختلف جگہوںسے اغوا کرانا شروع کر دیا تو پھر یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا؟۔ کیا اس طرح یہ آگ جو بھارت نے نیپال سے شروع کی ہے دنیا کے ہر گھر تک نہ پھیل جائے گی؟۔ کیا اس طرح کوئی ملک بھی محفوظ رہ سکے گا؟۔۔۔۔سوچئے کہ پاکستان یا کوئی بھی دوسرا ملک اور گروہ اگر بھارت کی کسی بھی فورس کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ لوگوں کو بھارت جیسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ ، برما، افغانستان ، بھوٹان یا کسی بھی افریقی یا دوسرے ملک سے اغوا کر انا شروع کر دے تو کیا کوئی بھی مہذب معاشرہ یا انسانی حقوق کے نام سے دنیا کے کسی بھی حصے میں کام کرنے والے اسے پسند کریں گے؟۔ دنیا کا کوئی بھی جمہوری معاشرہ اسے پسند کرے گا؟۔ ظاہر ہے کوئی بھی اس عمل کو پسند نہیں کرے گا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اقوام عالم کی بھلائی اور امن کیلئے کام کرنے والے اداروں سمیت امریکہ اور یورپی ممالک نے میری بار بار کی اپیلوں کے با وجود میرے شوہر اور تین بچوں کے باپ کے اغوا پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ 
پاکستان میں ورلڈ ہیومن رائٹس کے نام سے کام کرنے والی تنظیمیں جو پاکستان میں لاپتہ افراد کے نام سے آئے دن آسمان سر پر اٹھائے رکھتی ہیں بھارت کا نام آنے پرکرنل حبیب کے معاملے پر چپ سادھے بیٹھی ہیں۔ شائد اس لئے کہ اس طرح ان کے گاڈ فادر اجیت ڈوول ا ور نریندر مودی پر حرف آجائے گا ۔ نیپال کی معنی خیز خاموشی اور میرے شوہر کے اغوا پر کی جانے والی نیم خاموشی سے ظاہر ہو رہا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں نیپال کی رضامندی سے اپنی سر زمین کو بھارت کے ناپاک مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہیں جس پر نیپال کی اپوزیشن جماعتیں سراپا احتجاج بھی ہیں۔
2014 میں ریٹائرڈ ہونے والے میرے شوہر کرنل ظاہر حبیب پاکستان میں پرائیویٹ فرم میں ملازمت کر رہے تھے، اپنی ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصہ بعد میرے شوہرنے بہت سی انٹرنیشنل کمپنیوں اور اداروں کو اپناCV بھیج رکھا تھا ۔ایسا لگتا ہے کہ دشمن ملک نے کسی طرح میرے شوہر کی ان CVs تک رسائی حاصل کرتے ہوئے بہترین ملازمت کے بہانے انہیں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی سازش کی اور ا س کیلئے اقوام متحدہ کے ادارے کا نام استعمال کیا ۔ آج جب میں ایک بار پھر یہ خط لکھ رہی ہوں تو ان کے اغوا کو تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے با وجود ابھی تک ان کے بارے میں بھارت کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں، اس اغوا پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے نیپال سے باقاعدہ احتجاج کر رکھا ہے اور نیپال پر فرض بنتا ہے کہ وہ بھارت کو مجبور کرے کہ وہ میرے شوہر حبیب کو نیپالی حکومت کے حوالے کرے۔ 
اپنے اس دوسرے خط کے ذریعے اپنے تین بچوں کی جانب سے اقوام متحدہ میں بیٹھے ہوئے تمام انسان دوست خواتین و حضرات سے اپیل کرتی ہوںکہ میرے شوہر کرنل حبیب ظاہر جنہیں دھوکے سے ملازمت کیلئے انٹرویو دینے کے بہانے چھ اپریل کو نیپال بلایا گیا اور پھر ایئر پورٹ سے باہر آنے کے بعد حاصل کی جانے والی فوٹیج کے مطا بق وہ ان لوگوں کے ساتھ دیکھے گئے جنہوں نے انہیں ملازمت کیلئے وہاں بلایا تھا وہاں سے انہیںاس مبینہ کمپنی کے چیف سیلیکٹر مارک تھامپسن کے پاس لے جانے کیلئے LUMBANI پہنچایا گیا جس کے بعد انہیں وہاں سے اغوا کر نے کے بعد بھارت کی خفیہ ایجنسی کے سیف ہائوس لے جایا گیا جس کے بارے میں دنیا بھر کو معلوم ہو چکا ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی راء اور اجیت ڈوول کے لوگوں نے انہیں اغوا کرکے دہلی میں اپنے ایک محفوظ سیف ہائوس میں رکھا ہوا ہے۔‘‘
کرنل حبیب کے مجرمانہ اغوا اور ان کی بازیابی کیلئے ان کی اہلیہ اور ان کے تین بچوں کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اورUNHRCP کو تین ماہ قبل 18 اپریل کو لکھے جانے والے خط میں استدعا کی گئی تھی کہ وہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے بھارت کو مجبور کریں کہ وہ اقوام متحدہ کے قوانین جس پر اس نے دستخط کر رکھے ہیں، ان کی پاسداری کرتے ہوئے کرنل حبیب کوبازیاب کرائیں ۔۔۔۔۔۔لیکن ساڑھے تین ماہ قبل لکھے گئے اس خط کو جو باقاعدہ اقوام متحدہ کو موصول ہو چکا ہے، نہ جانے کیا ہوا کہ دنیا کے اس قابل احترام ادارے کے کسی ایک بھی ذمہ دار فرد کی جانب سے کرنل حبیب کی بازیابی تودور کی بات ہے مجھ سے اور ان کے تین بچوں کو اس خط کا جواب دینے یا رسمی سا رابطہ کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ 
کرنل حبیب کی اہلیہ کہتی ہیں کہ اقوام متحدہ جیسے ادارے کی جانب سے کسی قسم کا رابطہ نہ کرنے کے با جود میں مایوس نہیں کیونکہ مجھے یقین ہے انسانی حقوق کی دیکھ بھال کیلئے دنیا بھر میں کام کرنے والا معزز ادارہ اپنے اس مشن اور ایجنڈے کو سامنے رکھتے ہوئے بھارت پر عالمی دبائو بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا تاکہ میرے شوہر اور تین معصوم بچوں کے باپ کو بھارت کی جبری حراست سے آزاد کرایا جا سکے!!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں