کوئی اور جانتا ہویا نہ جانتا ہو لیکن نا اہل کئے گئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کو جبل علی کے اقامہ اور کمپنی سے دس ہزار درہم تنخواہ لینے پر کیوں تاحیات نا اہل کیا گیا ہے؟۔ا گر وہ اس بنیاد پر نا اہل نہ ہوتے تو پھرمیاں نواز شریف سمیت ان کے خاندان کے دیگر افراد نے وزیر اعظم ہائوس سے سیدھا جیل جانا تھا ، غلط بیانی، کاغذات میں ردو بدل اور کچھ بوگس دستاویزات کی تیاری سمیت ظفر حجازی کیس کے علا وہ کم از کم پانچ مزید فوجداری مقدمات بن سکتے تھے جن کی ضمانت نہیں لی جا سکتی تاہم یہ تلوار ان کے سر سے ابھی ٹلی نہیں۔ وہ نا اہل ہوئے ہیں تو اس کے بعد ان کے شکنے میں آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ نیب میں اگر ریفرنس گئے ہیں تو اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور اگر وہاں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بچوں کی تو اتنی پسلی ہی نہ تھی بلکہ والد نے پیسے خردبرد کئے اور انہی سے لندن فلیٹس لئے اور سارا کچھ بچوں کے سر تھونپنے کی کوشش کی تو پھر نواز شریف صاحب کے بچنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا اور وہ جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم بچ گئے ہیں ان کی غلط فہمی دور ہو جائے گی۔
ابھی منا سب نہیں سمجھتا کہ ہر بات کھول کر رکھ دوں صرف اتنا سا اشارہ ہی کافی ہے کہ بہت جلد یہ بات سامنے آ ہی جائے گی کہ مالدیپ میں تین روزہ قیام کس لئے کیا گیا وہاں کن کن سے رابطے ہوئے کیا باتیں ، شکائتیں اور درخواستیں ہوئیں وہ تاریخ کی کتب میں محفوظ ہیں اور رہیں گی۔۔۔ یہ فیصلہ پہلے ہی آجا نا تھا لیکن چونکہ وزیر اعظم نے مالدیپ میں اپنا قیام تین روز تک بڑھا رکھا تھا اس لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وزیر اعظم کی غیر حاضری میں ان کے خلاف کوئی فیصلہ سنادیا جائے کیونکہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر مالدیپ گئے تھے نہ کہ مسلم لیگ نواز کے وزیر اعظم کی حیثیت سے ۔ اس لئے اپنے ملک کی وزارت عظمیٰ کی عزت و حرمت کا پاس کرنے کیلئے یہ فیصلہ ان کی آمد تک موخر کیا گیا اور جیسے ہی انہوں نے پاکستان میں قدم رکھا تو اگلے ہی دن کیلئے کاز لسٹ جاری کرتے ہوئے پوری قوم کے اعصاب پر سوار پاناما کیس کے فیصلے پر رائے زنی اور چہ میگوئیوں کا خاتمہ کر دیا گیا ۔
بجائے اس کے کہ مسلم لیگ نواز والے اٹھائیس جولائی کو کئے جانے والے اس فیصلے کو تسلیم کرتے انہوں نے اپنی عادت کے مطا بق حسب معمول چند لمحے گذرنے کے بعد ہی ثابت کر دیا کہ وہ اداروں کی حرمت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔۔۔دور نہ جائیں جنرل ضیا کی قبر پر کھڑے ہو کر اس کا مشن پورا کرنے کی قسم کھانے والوں نے پیپلز پارٹی سے میثاق جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کرتے ہی اپنے اسی محسن کو دہشت گردوں کو پالنے والا اور آمر اور ڈکٹیٹر کہنا شروع کر دیا۔
خاقان عبا سی کی پوری کابینہ جو باتیں کر رہی ہے وہ اس قدر مضحکہ خیز ہیں کہ ان پر کسی قسم کا تبصرہ کرنا منا سب نہیں لگتا یہ بے خبر وزراء شائد اس طرح کا فیصلہ آنے پر خوش ہوتے کہ ان کے لیڈر اور ان کے خاندان کے لوگ اپنی ضمانتیں کرانے سے پہلے ہی گرفتار کر لئے جاتے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف پانچ مختلف ریفرنس دائر کرنے کیلئے نیب کو چھ ہفتوں کا وقت دیا ہے ۔سعد رفیق جیسے لوگ جنہیں صرف اپنے اقتدار اور پاکستان کے کسی بھی محکمے میں کام کرنے والے سرکار ی اہلکاروں کو اپنے ایک اشارے اور حکم پر نچانے کی لت پر چکی ہے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر یہ سب کچھ چھن گیا تو پھر وہی اہلکار ان کے ایک ایک عمل کا حساب لینے کیلئے ان کے خلاف کھڑے ہوں گے اس لئے وہ میاں شہباز شریف اور نواز شریف کو یہ بتانے کیلئے کہ وہ ان کا سب سے بڑا ساتھی ہے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مسلم لیگ نواز جان چکی ہے کہ قالین ان کے نیچے سے سرک رہا ہے ۔۔۔کیونکہ حدیبیہ پیپر کا مقدمہ جلد ہی کھلنے والا ہے اور یہ مقدمہ ایک دھماکے سے کم نہیں جیسے ہی یہ پھٹا سب کچھ اڑا کر رکھ دے گا۔۔۔۔مسلم لیگ نواز اور شریف فیملی کو سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ جس طرح وہ جائنٹ انٹیرو گیشن ٹیم کے ارکان کو اس لئے خوف زدہ یا خرید نہیں سکے کہ سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل بنچ ان ارکان کی مکمل نگرانی اور حفاظت پر مامور تھا اس لئے جے آئی ٹی کے ارکان نے بے خوفی سے اپنا کام مکمل کیا۔۔۔اسی طرح سپریم کورٹ نے چونکہ اپنے اٹھائیس جولائی کے تاریخی فیصلے میں ایک بار پھر لکھ دیا ہے کہ '' جو ریفرنس نیب کو بھیجے جائیں گے ان کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر ہو نا چاہئے اور نیب کی عدالتوں اور نیب کی کارروائی کی نگرانی کیلئے سپریم کورٹ کا ایک جج مقرر کیا جائے گا۔‘‘۔۔یہ دکھ شریف فیملی کو بے چین کئے جا رہا ہے کیونکہ اب نہ تو میاں شہباز شریف کا کوئی فون کام آئے گا اور نہ ہی سیف الرحمان کی کسی جج کو دی جانے والی دھمکی کسی کام آ سکے گی۔اب عدلیہ حقیقی طور پر آزاد ہو چکی ہے۔ جے آئی ٹی کے چھ ارکان نے جس ہمت و جرات کا مظاہرہ کیا وہ بھی ہمارے سامنے ہے حالانکہ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ شاید نواز شریف وزیراعظم ہوتے ہوئے ان پر دبائو ڈال کر ان سے مرضی کی تحقیق کروا لیں اور ان پر دبائو ڈالا بھی گیا جیسا کہ ایس ای سی پی کے معاملے میں ظفر حجازی نے کیا تاہم جے آئی ٹی کے یہ چھ دلیر افراد اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے ڈٹے رہے اور اپنا کام ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دیتے رہے۔ان کو پوری قوم سلام پیش کرتی ہے اور ان کی حفاظت کے لئے دعا گو ہے ۔ ان لوگوں نے صرف ایک رپورٹ مرتب نہیں کی بلکہ پاکستان کی تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوا دیا ہے اور یہ تاریخ آئندہ نسلوں کو ہمیشہ یاد بھی رہے گی۔
مسلم لیگ نواز نے زندگی بھر کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ کوئی ان کے سامنے جھکنے سے انکار کر نے کی ہمت اور جرأت کر سکتا ہے اسی لئے وہ لوگ جو مسلم لیگ نواز کے لیڈران کو ٹی وی پر باتیں کرتے ہوئے دیکھتے رہے ان کو یاد آ جائے گا کہ جب بھی ان کے خلاف ان کے کسی مخالف کی جانب سے کرپشن کی بات کی جاتی تھی تو وہ سینہ پھلا کر جواب دیا کرتے تھے کہ اگر آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو عدالت جائو ، ایسا اس لئے کہا جاتا تھا کہ ماضی میں ان کو عدالتوں سے ریلیف ملتا رہا ہے لیکن جب انہونی ہوتی ہے تو اس طرح ہو کر رہتی ہے کہ سپریم کورٹ کے جے آئی ٹی بنانے کے حکم پر پوری نواز لیگ ڈھولوں کی تھاپ پر لڈیاں بھنگڑے اور مٹھائیاں کھاتے اور بانٹتے ہوئے نظر آ تی ہے لیکن جب پتہ چلتا ہے کہ اس جے آئی ٹی کی نگرانی سپریم کورٹ کا تین رکنی معزز بنچ کرے گا تو '' کہا جانے لگا ہمارا جرم تو بتائو ؟۔۔۔۔۔سعید احمد، سعید شیخ، کاشف مسعود قاضی اور جاوید کیانی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا جو حکم سپریم کورٹ نے جاری کیا ہے ۔۔۔اس کے بعد شریف خاندان کی1985 سے اب تک کی تمام منی ٹریل سامنے آئے گی اور یہی وہ خوفناک طوفان ہے جسے اپنی جانب بڑھتا ہوا دیکھ کران کے اوسان خطا ہو چکے ہیں۔
جے آئی ٹی کے یہ چھ دلیر افراد اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے ڈٹے رہے اور اپنا کام ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دیتے رہے۔ان کو پوری قوم سلام پیش کرتی ہے اور ان کی حفاظت کے لئے دعا گو ہے ۔ ان لوگوں نے صرف ایک رپورٹ مرتب نہیں کی بلکہ پاکستان کی تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوا دیا ہے اور یہ تاریخ آئندہ نسلوں کو ہمیشہ یاد بھی رہے گی۔