نریندر مودی اور اس کا آرمی چیف بپن راوت توپ و تفنگ سے لیس پورا بریگیڈ لئے نتھو لال پاس سے چین کی سرحد سے منسلک دوکلام کی '' چمبی وادی ‘‘تک جس اکڑ فوں سے پہنچے تھے ،اسی طرح چپکے سے نظریں جھکائے اور بغیر کوئی آواز پیدا کئے وہاں سے کچھ یوں بھاگے ہیں کہ میڈیا تک کو خبر نہ ہونے دی کہ لوٹ کے بدھو گھر کو آرہے ہیں ۔جس تیزی اور افراتفری سے بھارتی فوج نتھو لال پاس سے کھسک رہی ہے وہ منظر دیکھنے کے قابل ہے اور اس وقت اس کے ایک بریگیڈ کی جگہ صرف پچاس بھارتی فوجی سفید جھنڈا لہرا کر سرحد سے بہت پیچھے ایک مورچے میں دبکے بیٹھے ہیں۔ کل تک مقامی اور بین لاقوامی میڈیا کے سامنے سینہ چوڑا کرتے ہوئے پاکستان اور چین سے بیک وقت نپٹنے کا عندیہ دینے والے نریندر مودی اور اس کے آرمی چیف جنرل بپن راوت بھیگی بلی بنے چینی فوج کے ہاتھوں جہنم واصل ہونے والے اپنے جوانوں کی لاشوں کا جلد از جلد کریا کرم کرانے میں مصروف ہیں۔ نارتھ ایسٹ میں ایک ڈویژن کی کمانڈ کرنے والے میجر جنرل گگن جیت سنگھ نے چینی فوج کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا'' ہم ثابت کرنے جا رہے ہیں کہ نہ صرف بھارت بلکہ بھوٹان کے ایک ایک انچ کا دفاع کر سکتے ہیں ...ہمارے لئے ضروری ہے کہ چینیوں کو یہاں روک دیں ایسا نہ کر سکے توThey will roll on to the chicken neck and cut off our North East. بھارت میں چین کے سفیر کو نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے دفتر بلا کر چہرے پر رعونت اور کرختگی لاتے ہوئے کہا گیا کہ یہاں سے واپس جاتے ہی اپنی حکومت کو پیغام دے دیں کہ وہ اگلے بارہ گھنٹوں میں اپنی تمام بھاری مشینری یہاں سے اٹھا لے اگر ایسا نہ کیا گیا تو وزیر اعظم نریندر مودی کا پیغام اپنے وزیر اعظم تک پہنچا دیں کہ
'' نریندر مودی کی چھاتی56 انچ چوڑی ہے‘‘ اورتین ہفتے بعد ہی اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر دُہائیاں دیتی سنائی دے رہی ہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور برازیل، روس، بھارت، چین اور سائوتھ افریقہ (BRICS) کے آئندہ اجلاس میں ہم چین سے بھوٹان کی سرحد سے منسلک یہ معاملہ باہمی گفت و شنید سے طے کرلیں گے ۔گلوبل ٹائمز نے اپنے تجزیئے میں کیا خوب بات کی ہے کہ نریندر مودی مغربی اور امریکی میڈیا کی نظروں میں خود کو ایشیا کا ٹارزن ثابت کرنے کیلئے چین پر حملہ آور ہونے کیلئے بڑھا تھا لیکن ایک ہی جھٹکے میں اپنی کلائی فریکچر کروا کر بھاگ آیا ہے شائد اسے معلوم ہو چکا ہے کہ چین پر زبانی چڑھائی ہی کافی ہے، اپنا رعب جمانے کیلئے پاکستان ہی کافی ہے۔
چین کی ایک کنسٹرکشن کمپنی بھارت اور بھوٹان کی سرحد سے منسلک ایک ایسے حصے میں سڑک تعمیر کر رہی ہے جس پر چالیس ٹن وزنی گاڑیاں سفر کر سکیں گی۔ جیسے ہی اس سڑک کی تعمیر کا چین کی نجی کنسٹرکشن کمپنی نے آغاز کیا تو بھارت میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ اس سڑک کی تعمیر سے جہاں بھارت کے اندر تک رسائی آسان ہو جائے گی وہیں بھوٹان تک چین کے رستے بہتر ہو سکتے ہیں جو بھارت کیلئے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں... اب بھارت کیلئے مضحکہ خیز بات یہ بن گئی ہے کہ اس نے بھوٹان کو ہر طرح کے حملے اور مدا خلت کا یقین دلاتے ہوئے اسے ایک طرح سے اپنی کالونی بنایا ہوا ہے ،جب بھوٹان نے چینی افواج کے ساتھ سڑک کی تعمیر کیلئے درکار مشینری اور سامان کو ڈیپلائے ہوتا دیکھا تو وہ بھا گا بھا گا بھارت کے پاس پہنچا کہ مہاراج آپ کے ہوتے ہوئے یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔اب نریندر مودی اور بھارتی فوج کے لیے یہ انا کا معاملہ بن گیا کہ وہ اگر چین کو نہیں روکتے تو اس کا اثر نیپال پر بھی پڑ ے گا اور سڑک بننے کی صورت میں اس کی فوج کی ساکھ خراب ہو جائے گی جس پر جنرل بپن راوت نے کشمیر میں اپنے ٹروپس سے خطاب کرتے ہوئے دھمکی دی کہ ہماری سینا چین اور پاکستان دونوں کو سبق سکھانے کی اہلیت اور طاقت رکھتی ہے۔ اور ساتھ ہی بھارتی فوج کا پورا بریگیڈ چین کو پسپا کرنے کیلئے بھیج دیا گیا ۔ چین نے جیسے ہی اپنے ''ون بیلٹ ،ون روڈ ‘‘منصوبے کا اعلان کیا تو سب سے پہلے بھوٹان اور بھارت نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے چین کو خبر دار کیا کہ اگر اس نے اپنے اس منصوبے کیلئے کسی پراجیکٹ پر کام کا آغاز کیا تو اسے سختی سے روکا جائے گا ...چین کیلئے یہ ایک امتحان تھا کہ اگر وہ بھارت کی گیدڑ بھبھکیوں کے سامنے ڈھیر ہو گیا تو پھر وہ پاکستان میں کس طرح رفتاری سے کام کر سکے گا؟چین کی جانب سے پاکستان کو یہ باور کرا نا بھی مقصود تھا کہ جس طرح پاک فوج نے سی پیک کی حفاظت کی ضمانت دی ہے اسی طرح چینی فوج بھی منصوبے سے مخلص ہے۔۔۔۔چین نے اس سڑک کیلئے کام کا آغاز کرتے ہوئے بھارت اور بھوٹان دونوں کا چیلنج قبول کرتے ہوئے کام کی رفتار تیز کر دی۔۔۔۔ بھارت نے واویلا مچا دیا کہ چین بھارت علا قے میں گھس آیا ہے لیکن چین اپنے اس دعوے پر قائم رہا کہ بھارت کا اس حصے پر دعویٰ بالکل جھوٹا ہے ۔کیونکہ وہ خود کو ایشیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھتے ہوئے جس ملک پر چاہے نہ صرف اپنا حق جتا نا شروع کر دیتا ہے بلکہ آگے بڑھ کر وہاں جس جگہ چاہے قابض بھی ہو جاتا ہے۔ اسی زعم میں اس نے چین کو للکارنا شروع کر دیا اور چینی سرحد کے اس حصے پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کیلئے بھارتی فوج کا پورا بریگیڈ بھیجنے کے علا وہ انڈین ایئر فورس کی SORTE شروع کرو ادیں لیکن پہلے ہی روز بھارت کے ایک مگ ستائیس زمیں بوس ہو گیا ۔سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے ایک صبح خبر دیتے ہوئے بتایا کہ بھارتی فوج چین کے علا قے میں داخل ہو کر مورچے کھودنے میں مصروف ہے اور اس سلسلے میں اس نے سیٹلائیٹ سے حاصل کی گئی کچھ تصاویر بھی شائع کر دیں۔
نقشے میں اس جگہ کو دیکھیں تو ہمالیہ میں چینی حدود میں یہ ایک ایسا علا قہ ہے کہ اگر چین یہاں پر بھاری ٹریفک کیلئے سڑک تعمیر کرلیتا ہے تو ایک طرف جہاں بھوٹان اور نیپال تک اسے آسانی ہو سکے گی تو دوسری جانب گوہاٹی تک چین کیلئے زمینی راستے بھی قریب ہو جائیں گے۔ فوجی زبان میں اس طرح کی حدود کو'' چکن نک‘‘ کہہ کر بھی پکارا جا تا ہے ۔۔۔ اردو میں ہو سکتا ہے کہ اس جغرافیائی پٹی کو آسان لفظوں بیان نہ کر سکوں
Chicken"s Neck-also known as the Siliguri Coridor-is a narrow strip of land, 24 km in width seperating India from its North east States. ۔
Siliguri Corridor جسے فوجی اصطلاح میںChicken Neck کے نام سے پکارا جاتا ہے فوجی لحاظ سے ہمالیہ میں بھارت، بھوٹان اور چین کی ایک ایسی تکون ہے جو اس قدر اہم ہے کہ ادھر سے چینی افواج کی نقل و حمل بھارت کی شمالی ریا ستوں کیلئے خطرے کی بہت بڑی علا مت جانی جاتی ہے۔۔۔۔!!