کوئی اور جانتا ہویا نہ جانتا ہو لیکن نا اہل کئے گئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کو جبل علی کے اقامہ اور ۔۔۔کمپنی سے دس ہزار درہم تنخواہ لینے پر کیوں تاحیات نا اہل کیا گیا ۔ا گر سپریم کورٹ کا فیصلہ اس بنیاد پر نہ سنایا جاتا تو پھرمیاں نواز شریف سمیت ان کے خاندان کے پانچ دوسرے لوگوں نے وزیر اعظم ہائوس سے سیدھا جیل جانا تھا۔ غلط بیانی، کاغذات میں ردّو بدل اور کچھ بوگس دستاویزات کی تیاری ‘ظفر حجازی کیس کے علا وہ کم از کم پانچ مزید فوجداری مقدمات جن میں ضمانت نہیں لی جا سکتی تھی۔ان کا اندراج سپریم کورٹ کی جانب سے لازمی تھا۔
یہ حکم کیوں جاری نہیں کیا گیا۔۔کوئی خاص وجہ ‘ یا رحم کیا گیا ؟ بس اس سے زیا دہ ابھی نہیں لکھ سکتا۔۔۔ ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے کئے گئے اس احسان کا بدلہ یوں اتارا جا رہا ہے کہ ۔ ان کی جماعت کے چھوٹے بڑے تمام لیڈران اور ہمنوا دانشو دن رات یہی ایک بات کئے جا رہے ہیں کہ'' دیکھو جی لندن کے فلیٹوں اور پاناما کی بات کرنے والوں نے سزا دی بھی تو اس بات پر جس کا پاناما میں ذکر تک نہیں تھا۔ حضرت علیؓ کا وہ مشہور فرمان یاد آ گیا کہ اگر کسی پر احسان کرو تو اس کے شر سے بھی بچو ۔ فیصلہ سنانے والوں کو اپنی اس نیکی کے بدلے میں اس قسم کی باتیں سننی پڑیں گی ۔ ابھی منا سب نہیں سمجھتا کہ ہر بات کھول کر رکھ دوں ۔صرف اتنا سا اشارہ کافی ہے کہ'' بہت جلد یہ بات سامنے آ ہی جائے گی کہ مالدیپ میں تین روزہ قیام کس لئے کیا گیا ۔وہاں کن کن سے رابطے ہوئے کیا باتیں ، شکائتیں اور درخواستیں ہوئیں ۔وہ تاریخ کی کتب میں محفوظ ہیں اور رہیں گی۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ پہلے ہی آجا نا تھا ۔وزیر اعظم نے مالدیپ میں اپنا قیام تین روز تک بڑھا رکھا تھا ۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ وزیر اعظم کی غیر حاضری میں ان کے خلاف فیصلہ سنادیا جائے ۔کیونکہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر مالدیپ گئے تھے نہ کہ مسلم لیگ نواز کے وزیر اعظم کی حیثیت سے ۔ اپنے ملک کی وزارت عظمیٰ کی عزت و حرمت کا پاس کرنے کیلئے ‘ فیصلہ ان کی آمد
تک موخر کیا گیا ۔ جیسے ہی انہوں نے پاکستان میں قدم رکھا ، اگلے ہی دن کیلئے کاز لسٹ جاری کرتے ہوئے پوری قوم کے اعصاب پر سوار پاناما کیس کے فیصلے پر رائے زنی اور چہ میگوئیوں کا خاتمہ کر دیا گیا ۔ بجائے اس کے کہ مسلم لیگ نواز اٹھائیس جولائی کو کئے جانے والے اس احسان پر سرتا پا شکر بجا لاتے ہوئے‘ احسان کرنے والوں کیلئے دعائیں دیتی ۔ اپنی عادت کے مطا بق حسب معمول چند لمحے گزرنے کے بعد ہی ثابت کر دیا کہ وہ خود پر احسان کرنے والے ہر فرد اور ادارے کو اپنی ٹھوکروں پر رکھنا وہ فرض سمجھتے ہیں۔۔دور نہ جائیں جنرل ضیا کی قبر پر کھڑے ہو کر اس کا مشن پورا کرنے کی قسم کھانے والوں نے پیپلز پارٹی سے میثاقِ جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کرتے ہی اپنے اسی محسن کو دہشت گرد پالنے والا آمر اور ڈکٹیٹر کہنا شروع کر دیاتھا۔
شاہدخاقان عبا سی کی پوری کابینہ جو باتیں کر رہی ہے وہ اس قدر مضحکہ خیز ہیں کہ ان پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ۔لگتا ہے یہ بے خبر وزراء شاید اس طرح کا فیصلہ آنے پر خوش ہوتے کہ ان کے لیڈر اور ان کے خاندان کے لوگ اپنی ضمانتیں کرانے سے پہلے ہی گرفتار کر لئے جاتے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف ‘پانچ مختلف ریفرنس دائر کرنے کیلئے نیب کو چھ ہفتوں کا وقت دیا ہے ۔سعد رفیق جیسے لوگ جنہیں صرف اپنے اقتدار اور پاکستان کے کسی بھی محکمے میں کام کرنے والے سرکار ی اہلکاروں کو اشاروں پر نچانے کی لت ہے‘ جانتے ہیں کہ اقتدار چھنا تو پھر وہی اہلکار ‘ان کے ایک ایک عمل کا حساب لیں گے۔ اس لئے وہ میاں شہباز شریف اور نواز شریف کو یہ بتانے کیلئے کہ وہ ان کے سب سے زیادہ وفادار ہیں ‘افواج پاکستان کے خلاف زہرا گلتے ہیں۔
مسلم لیگ نواز جان چکی ہے کہ زمین ان کے پائوں کے نیچے سے سرک رہی ہے۔ حدیبیہ پیپر کا مقدمہ جلد ہی کھلنے والا ہے ۔ یہ مقدمہ ایک دھماکے سے کم نہیں ۔جیسے ہی یہ پھٹا سب کچھ اڑا کر رکھ دے گا۔اس لئے وہ مسلم لیگ نواز اور شریف فیملی کو سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی کے ارکان کو وہ خوف زدہ نہ کر سکے‘ یا خرید نہیں سکے کہ سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل بنچ ان کی نگرانی پر مامور تھا ۔اسی طرح سپریم کورٹ نے چونکہ اٹھائیس جولائی کے تاریخی فیصلے میں ایک بار پھر لکھ دیا ہے کہ '' جو ریفرنس نیب کو بھیجے جائیں گے ان کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر ہو نا چاہئے مزید یہ کہ نیب کی نگرانی کیلئے سپریم کورٹ کا ایک جج مقرر کر دیا گیا۔یہ بندوبست شریف فیملی کو بے چین کئے جا رہا ہے کیونکہ اب نہ تو میاں شہباز شریف کا کوئی فون کام آئے گا اور نہ ہی سیف الرحمان کی کسی جج کو دی جانے والی دھمکی ۔
مسلم لیگ نواز نے کبھی تصور نہیں کیا تھا کہ کوئی جج ان کے سامنے جھکنے سے انکار کر سکتا ہے۔ایسی ہمت اور جرأت کر سکتا ہے ۔اسی لئے وہ لوگ جو مسلم لیگ نواز کے لیڈران کو ٹی وی پر باتیں کرتے ہوئے دیکھتے رہے ‘ان کو یاد آ جائے گا کہ جب بھی ان کے خلاف ‘ان کے کسی مخالف کی جانب سے کرپشن کی بات کی جاتی تھی ‘ وہ سینہ پھلا کر کہا کرتے تھے کہ اگر آپ اپنے دعوے
میں سچے ہیں تو عدالت جائو ۔ایسا ا س لئے کہا جاتا تھا کہ ہر جج ریٹائر منٹ کے بعد ان کے ادارے کے قانونی مشیر کے طور پر کام کر رہا ہوتا ۔ لیکن جب انہونی ہوتی ہے تو اس طرح ہوتی ہے ۔سپریم کورٹ کے جے آئی ٹی بنانے کے حکم پر پوری نواز لیگ ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتی اور مٹھائیاں بانٹتی نظر آ تی ہے ۔پھر جب پتہ چلتا ہے کہ اس جے آئی ٹی کی نگرانی سپریم کورٹ کا تین رکنی معزز بنچ کرے گا ۔تب کہا جانے لگا ‘ہمارا جرم تو بتائو ؟۔۔۔۔۔سعید احمد، سعید شیخ، کاشف مسعود قاضی اور جاوید کیانی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا جو حکم سپریم کورٹ نے جاری کیا ہے ۔۔۔اس کے بعد شریف خاندان کی1985 سے اب تک کی تمام منی ٹریل سامنے آئے گی ۔ یہی وہ خوفناک طوفان ہے‘ جسے جاتی امرا والے اپنی جانب بڑھتا ہوا دیکھ کر معزز عدالت پر کیچڑ اچھال رہے ہیں‘یہ کوئی نئی بات نہیں جس نے بھی ان پر احسان کیا ہے ‘اسے حضرت علی کرم اﷲوجہہ کا قول یاد کرنا چاہیے۔ جب بھی کسی پر احسان کرو...!
دور نہ جائیں جنرل ضیا کی قبر پر کھڑے ہو کر اس کا مشن پورا کرنے کی قسم کھانے والوں نے پیپلز پارٹی سے میثاقِ جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کرتے ہی اپنے اسی محسن کو دہشت گرد پالنے والا آمر اور ڈکٹیٹر کہنا شروع کر دیاتھا۔