میاں نواز شریف صاحب آج کل اداروں کے خلاف بہت زیادہ بات کر رہے ہیں۔ میں بھی ان سے کچھ سوال پوچھنا چاہوں گا۔
میاں صاحب! پنجاب کی وزارت خزانہ اور پھر وزارت اعلیٰ آپ کو کس نے اور کس طرح سونپی یہ سبھی جانتے ہیں ۔گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان نے وزیر خزانہ اور پھر جنرل ضیاالحق کی منظوری سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج آپ کے سر پر سجایا گیا‘اس لئے میاں نواز شریف صاحب ‘ان دو عہدوں کے بارے میں مزید کوئی بات کرنے کی بجائے 1990 سے آغاز کرتے ہیں جب آپ کو پہلی دفعہ وزیر اعظم کی حیثیت سے مسند اقتدار پر بٹھایا گیا اور اس کے بعد بھی مسند اقتدار آپ کو ملتی رہی۔
جناب نواز شریف آپ کو1990 میں جنرل مرزا اسلم بیگ نے وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھایا اور اس پر مزید کوئی روشنی یا ثبوت دینے کی بجائے سپریم کورٹ میں ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی پٹیشن کا حوالہ ہی کافی ہے جس میں پی پی پی کا مقابلہ کرنے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل ، مہران بینک کے یونس حبیب اور آئی ایس آئی سے لاکھوں روپے(1990 کے مطابق)وصول کئے گئے ۔۔۔۔آپ عدلیہ پر تو الزامات لگا رہے ہیں کہ مجھ پر جب کرپشن کا اسے کوئی ثبوت نہیں ملا تو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں نکال دیا ہے ۔۔۔جب آپ عدلیہ پر کیچڑ اچھالتے ہیں تو آپ سابق چیف جسٹس کے اس احسان عظیم کا ذکر کیوں نہیں کرتے کہ انہوں نے آپ کی نا اہلی کا حکم دینے کی بجائے مزید تحقیقات کیلئے اصغر خان کی پٹیشن کو کارروائی کیلئے ایف آئی اے کے پاس بھیج دیا۔۔۔آپ جے آئی ٹی پر جب الزامات کی بھر مار کرتے ہیں تو اس وقت کیوں نہیں سوچتے کہ اصغرخان والا کیس ایف آئی اے کے کون سے گڑھے میں دفن ہو چکا ہے کہ اس کا نام ہی سننے میں نہیں آ رہا صرف اس لئے جناب والا کہ ایف آئی اے آپ کے ماتحت ہے اس لئے ائر مارشل اصغر خان کی پٹیشن پر دیا جانے والا فیصلہ بھی کھوہ کھاتے جا چکا ہے؟۔
آپ اپنی تقریروں میںایک ہی بات کئے جا رہے ہیں کہ کروڑوں لوگ انہیں ووٹ دیتے ہیں جبکہ کبھی صدر کبھی جرنیل تو کبھی جج مل کر مجھے گھر بھیج دیتے ہیں میرے ساتھ یہ بار بار کیوں کیا جا تا ہے؟۔لوگو یہ سب باری باری آپ کے کروڑوں ووٹوں کی پرچیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیتے ہیں آپ کو میرے ساتھ مل کر تبدیلی لانی ہو گی تاکہ کسی وزیر اعظم کو گھر نہ بھیجا جا سکے۔میاں نواز شریف صاحب آپ کہتے ہیں کہ جرنیل مجھے ہر بار نکال دیتے ہیں مجھے کام نہیں کرنے دیتے۔۔۔کیا آپ کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ پانچ اگست1990 کو آپ نے جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل سے مل کر بے نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کرایا تھا۔ سوچئے کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کرانے کے بعد پنجاب ، سرحد، سندھ اور بلوچستان میں کون کون وزیر اعلیٰ اور گورنر مقرر کئے گئے۔۔۔غلا م حیدر وائیں مرحوم کا نام تو آپ نے سن رکھا ہو گا؟۔اس سے پہلے اسامہ بن لادن سے بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کرانے کیلئے بھاری رقم لی گئی۔
محترم نواز شریف صاحب!اکتوبر1993 میں جب ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں پی پی پی کامیاب ہو گئی توآپ نے مارچ1994 میں بے نظیر بھٹو کے حکومت سنبھالنے کے صرف چار ماہ بعد ان کے خلاف'' تحریک نجات‘‘ شروع کر دی۔۔۔جناب سوچئے آپ عمران خان پر الزامات دھرتے ہوئے لمحے بھر کو بھی چین نہیں لیتے کہ تین سال سے میری ٹانگیں کھینچی جا رہی ہیں کبھی دھرنے تو کبھی کنٹینر۔۔۔آپ کو یاد ہو گا اور اس وقت میڈیا سے متعلق لوگ بھی گواہی دیں گے کہ آپ لاہور سے گوجرانوالہ، لاہور سے فیصل آباد اسی طرح کئی کئی گھنٹے سڑکیں بند کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت کے خلاف ریلیاں نکالا کرتے تھے ۔میاں نواز شریف صاحب کیا یہ سب طریقے بعد میں آنے والے سیا ستدانوں نے آپ سے ہی نہیں سیکھے ؟
جناب نواز شریف! آپ کو یاد ہو گا جولائی1996 میں امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے جنوبی ایشیائی ڈیسک کی نگران مس رابل رافیل ملاقات کیلئے آپ کی رہائش گاہ مری پہنچیں جہاں انہوں نے دوپہر کا کھا نا آپ کے ساتھ کھایا ۔مسز رابن رافیل کوئی پانچ گھنٹے آپ کے ساتھ رہیں، جیسے ہی وہ جانے کیلئے آپ کی رہنمائی میں گاڑی میں بیٹھیں تو ان کے جانے کے چند لمحوں بعد آپ نے ساتھ کھڑے ہوئے مشاہد حسین سے کہا ''بس ہن شاہ جی تین مہینوں کی بات رہ گئی ہے‘‘ میاں صاحب میری اطلاع یہ ہے کہ رابل رافیل نے آپ کی صدر فاروق لغاری سے اپنے موبائل پر بات کرائی جس میں آپ دونوں سے کہا گیا کہ آپس میں رابطہ رکھیں کیا آپ اس بات سے انکار کر سکتے ہیں؟۔ میری اس بات کی گواہی بعد میں ایک معاصر اخبار کے کالم نگار نے بھی اپنے کالم میں یہ کہتے ہوئے دی کہ میرے سمیت پانچ صحافیوں کو میاں نواز شریف نے پی سی بھور بن میں کھانے پر بلاکر کہا ہم دوبارہ حکومت میں آنے والے ہیں آپ لوگوں کو اس لئے زحمت دی ہے کہ آپ پانچ لوگ ہم سے یہ وعدہ کریں کہ ہماری حکومت کے پہلے100 دن تک آپ کسی قسم کی مخالفت نہیں کریں گے۔
جناب نواز شریف! آئین کے مطا بق انتخابات بے نظیر بھٹو کی حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد دسمبر1998 میں ہونے تھے آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ اقتدار ہمارے پاس آنے والا ہے؟۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ جب یہ دعوے کئے جا رہے تھے تو اس وقت تک تو مرتضیٰ بھٹو کا کراچی کلفٹن میںقتل بھی نہیں ہوا تھا؟۔ کیا وجہ ہوئی مسز رابل رافیل کی مری ملاقات کے بعد صدر فاروق لغاری کے بے نظیر بھٹو سے تعلقات بھی کشیدہ ہو نا شروع ہو گئے؟۔ محترم نواز شریف صاحب اس کے بعد کیا ہوا کہ مرتضیٰ بھٹو کو پولیس کے ہاتھوں قتل کرا دیا جاتا ہے؟اور پھر6 نومبر 1996 کو صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کرانے کے بعد آپ کو تخت نشین کرا دیا جاتا ہے۔
مئی1993 کے انتخابات کیسے ہوئے‘ اس میں اس وقت کی امریکہ اور برطانیہ کے علا وہ دو سب سے بڑی اندرونی طاقتیں عمران خان کے خلاف کھل کر آپ کی مدد کر رہی تھیں۔ ان سے وعدے کئے گئے تھے کہ ایک کو صدر اور دوسرے کی مدت ملازمت میں مزید توسیع کر دی جائے گی۔۔۔اور آپ کو یاد ہو گا کہ مئی2013 کے انتخابات کیلئے ایک غیرملکی اربوں روپوں سے ان انتخابات کا انعقاد کروا رہا تھا جس کے نتیجے میں آپ کو حالیہ اقتدار ملا۔۔۔ اگر آپ تینوں میں سے کوئی بھی اس سچ کو جھٹلائے گا تو رقم کی مکمل تفصیل پیش کردوں گا ...ہمت ہے تو جھٹلا دیں !!