آصف علی زرداری کے خلاف نیب کا آخری ریفرنس بھی سوئس اکائونٹس کی طرح اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ احتساب عدالت کا اپنے فیصلے میں فرمانا ہے کہ اس کے سامنے فوٹو کاپیاں پیش کی گئیں ، جو قبول نہیں کی جا سکتیں ...عدالت کا کہنا درست ہے کیونکہ جب استغاثہ سوئس اکائونٹس کی طرح اس ریفرنس سے متعلقہ کاغذات ہی عدالت کے سامنے پیش نہیں کرے گا تو کسی کو مجرم ٹھہراتے ہوئے کیسے سزا دی جا سکتی ہے۔اصل کہانی ملاحظہ کیجئے کیونکہ یہ سب کچھ جاننا قوم کا حق ہے... محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کے آخری دنوں میں مسلم لیگ نواز کے دو اہم ترین افراد سوئٹزرلینڈ میں کچھ گم نام اکائونٹس کی معلومات لینے کیلئے لندن کے مختلف اداروں اور لوگوں سے رابطوں میں مصروف تھے، اسی دوران انہیں ''ایک شخص‘‘ کا پیغام ملاکہ اس کے پاس انتہائی اہم پاکستانی شخصیات کی منی لانڈرنگ اور اکائونٹس سے متعلق اہم ترین دستاویزات ہیں ۔پیغام ملتے ہی شریف فیملی کے یہ دونوںافراد اس شخص سے ملاقات کیلئے طے شدہ مقام پر پہنچ گئے۔ ان کے میزبان نے انہیں چند بینک اکائونٹس اور کچھ کمپنیوں سے متعلق لاکھوں ڈالر کی ایسی دستاویزات دکھائیں جن پر پاکستان کی چند اہم سیا سی شخصیات کے دستخط تھے ،اس شخص سے ان دو شخصیات نے ابتدائی معاہدہ کرنے کے بعد ان دستاویزات پر قانونی مشاورت کیلئے کراچی کی ایک اہم قانونی شخصیت خالد انور کو‘ جو بعد میں ان کے مرکزی وزیر قانون بنے‘ لندن بلایا۔خالد انور نے ان دستاویزات کے بغور مطالعہ اور معلومات فراہم کرنے والے شخص سے تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد ان دستاویزات کے مکمل درست ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا۔ ان دستاویزات کے مکمل درست ہونے کا سب کو یقین ہو گیا تو انہیں اگلے عام انتخابات تک کیلئے سنبھال لیا گیا لیکن ہوا یہ کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا خط لکھ دیا ،جس پروزیر اعظم نواز شریف اشتعال میں آ گئے اور انہوں نے چیئر مین احتساب سیل سیف الرحمان کو آصف زرداری کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایات جاری کر دیں ۔ سیف الرحمان، آئی بی اور وزارت اطلاعات فوراً حرکت میں آ گئے اور انہوں نے مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے بے نظیر بھٹو کے دور حکومت کے اعلیٰ افسران سلمان فاروقی، عثمان فاروقی، احمد صادق، سٹیل مل والے سجاد حسین،ایڈ مرل(ر) اکبر، نیر باری،اسد شیخ،سراج شمس الدین، رائے سکندر،ایم بی عباسی، یونس ڈالیا،جاوید پاشا، علی جعفری اور ماجد بشیر سمیت کئی سینئر بیوروکریٹس کو ایف آئی اے کی تحویل میں دے دیا۔ ان اکائونٹس کے بارے میںاگلوانے کیلئے بار بار سب کی تفتیش کی گئی، دورانِ تفتیش سخت ذہنی اور جسمانی تشدد کے ذریعے ان سے اعترافی بیانات پر دستخط لینے کے علا وہ ان کی ویڈیوز بھی بنائی گئیں، سلمان فاروقی پر جیل میں دوران تفتیش سیف الرحمان کی موجو دگی میں سب سے زیا دہ تشدد کیا گیا اور ان پر سخت پہرہ لگا دیا گیا تاکہ کوئی بھی ان سے ملاقات نہ کر سکے۔ اس کے بعد قانونی ماہرین کی مشاورت اور معاونت سے ان سب پر30 کے قریب فوجداری مقدمات بھی دائر کر دیئے گئے۔ دوسری جانب سوئس اکائونٹس کے بارے میں دستاویزات دینے والے شخص نے27-2-1995 کو جاری کئے گئے سوئس فارمA جسےA GOVT: REQUIRED BENIFICIAL OWNER ID FORM''کہا جاتا ہے کی مستند کاپی بھی فراہم کر دی جس پر کئے گئے تمام دستخط صاف اور واضح تھے ۔جب سب کچھ واضح ہو گیا تو وزیر قانون خالد انور اور سیف الرحمان نے15-7-1997 کو مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف سوئس اکائونٹس کے تمام ثبوت میڈیا کے سامنے پیش کر دیئے ...میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کی گئیں ان دستاویزات میں بومر فنانس کی25-4-1991 کی وہ دستاویز بھی شامل تھی جس کے مطا بق یہ معاہدہ سوئٹزر لینڈ میں ہوا لیکن پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق آصف علی زرداری اس تاریخ کو کراچی کی لانڈھی جیل میں بند تھے...آج تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان کے یہ دستخط لانڈھی جیل کی انتظامیہ کی باقاعدہ اجا زت سے ہوئے یا مدد سے؟
شریف برادران کے ''اس‘‘ شخص سے خریدے گئے تمام ثبوتوں کے بعد جب سوئٹزر لینڈ میں بے نظیر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو ابتدا میں عدالت کی جانب سے ان کے تمام اکائونٹس کو90 روز کیلئے منجمد کر دیا گیا جس کی مدت بعد میں عدالت کی طرف سے بڑھا دی گئی۔ جس کی تصدیق اس وقت پاکستان میں تعینات سوئٹزر لینڈ کے سفیرMarc-Andre Salamin نے بھی کر دی۔نواز حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری کے جن بینک اکائونٹس کی تفصیلات مہیا کی گئیں ان میں ان کے ایک معروف بین الاقوامی بینک کا فارم اے جو بینک اکائونٹ کھولنے کیلئے ضروری ہوتا ہے پیش کیا گیا ‘اس فارم میں بینک اکائونٹ کا نمبر342034 تھا جسےCAPRICORN TRADING کے نام سے کھولا گیا جس پر زرداری صاحب کانام اور ایڈریس بلاول ہائوس کراچی درج تھا اور فارم میں انہیں ہی اپنا یہ بینک اکائونٹ آپریٹ کرنے کا اختیار دیا گیا...نواز حکومت کی جانب سے محترمہ اور زرداری کے خلاف پیش کی گئی ان دستاویزات میں سے ایک سٹی بینک نیویارک کی تھی، جس کے مطا بق CAPRICORN کے کھاتے میں چارمئی1994 کو ریفرنس نمبر 3951238126 کے ذریعے 10, 204,326.27 ڈالر منتقل کرائے گئے۔
حکومت ِپاکستان کی جانب سے ملک کے اندردائر کیے گئے اس مقدمے کے ایک حصے کی بنا پر پاکستان کی عدالتوں نے اپریل1999 میں محترمہ اور آصف زرداری کو8.6 ملین ڈالر جرمانہ اور پانچ سال قیدکا حکم سنایا ،دوسری طرف چار سال بعد سوئس انویسٹی گیشن عدالت کے مجسٹریٹ نے اگست2003 میںمحترمہ اور زرداری صاحب کو پچاس ہزار ڈالر جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا کا حکم سناتے ہوئے فیصلے کے دوسرے پیرے میں حکم دیا کہ 11 ملین ڈالر کی یہ رقم حکومت پاکستان کو واپس کر دی جائے ،سوئس کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف محترمہ اور آصف علی زرداری اپیل میں چلے گئے۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا اور 2007 میں امریکہ اور برطانیہ کے حکم پر جنرل کیانی اور افتخارچوہدری کی درپردہ معاونت سے محترمہ بے نظیر بھٹو سے جنرل مشرف کا NRO ہوا تو اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم نے حکومت کی ہدایت پر سوئس حکومت کو خط لکھا کہ حکومت پاکستان یہ مقدمہ واپس لے رہی ہے اس پر مزید کوئی کارروائی نہ کی جائے...جس پر سوئس اٹارنیZappelli نے26-8-2008 کو حکومت پاکستان کو خط لکھتے ہوئے کہا کہ آپ کی طرف سے یہ مقدمہ واپس لینے کی بنا پر60 ملین ڈالر ( چھ سو کروڑ)کی رقم محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو واپس کی جا رہی ہے لیکن اس رقم میں سے39 ملین سوئس فرانک بطور کمیشن بحق سوئس حکومت کاٹ لیے گئے ہیں۔وہ شخص جس نے بھاری رقم لے کر یہ سب معلومات نواز حکومت کو فراہم کیں اس کا نامـ Schlegelmilch Jens ہے ۔۔۔۔اس شخص کو ملکی خزانے سے ادا کی جانے والی کروڑوں روپے کی رقم اور سوئس اکائونٹس میں پاکستانیوں کی دولت سب مک مکا میں دھواں ہو گئے۔۔۔یہ مکا مکا چپکے سے فارق ایچ نائیک کے بیک ڈور چینل سے کیسے ممکن ہو ا سکی تفصیل انشااﷲ بہت جلد بیان کروں گا ۔