"MABC" (space) message & send to 7575

ایل این جی‘ معاہدہ؟

ایک طویل اور تھکا دینے والے انتظار کے بعد پورٹ قاسم پر تعمیر کئے جانیو الے ایل ان جی ٹرمینل کا وزیر اعظم شاہد خاقان عبا سی نے افتتاح کر ہی دیا ۔جب قطر سے ایل این جی کی در آمد کا معاہدہ کیا جا رہا تھا تو ا س وقت ایل این جی کا عالمی مارکیٹ میں نرخ2.69 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تھا اور عالمی منڈی میں بیٹھے ہوئے ماہرین حیران ہو رہے تھے کہ پاکستان یہ معاہدہ سات ڈالر میں کیوں کر رہا ہے؟ جبکہ اس کی ٹرانسپورٹیشن اور اسے اصلی گیس کی شکل میں لانے کے اخراجات کے بعد اس کی قیمت سولہ ڈالر ہو جائے گی ؟ جب مسلم لیگ نواز نے اقتدار سنبھالا تو راقم الحروف نے اپنے ایک کالم '' گیس اور ایل این جی‘‘ میں انکشاف کیا تھاکہ ایران سے گیس پائپ لائن کا معاملہ ختم کیا جا رہا ہے اور اس کی جگہ قطر میں موجود ایک اہم شخصیت کے ذریعے پاکستان کو ایل این جی سے'' مستفید ‘‘کرانے کے معاملات طے ہو رہے ہیں اور یہ ایل این جی نومبر2014 سے پاکستان کو ملنا شروع ہو جائے گی اور اس کیلئے انرجی ٹرمینل پاکستان سے272,479 ڈالر روزانہ کے حساب سے،اگر اسے 365 سے ضرب دیں تا ایک سال میں یہ رقم100 ملین ڈالر تک جا پہنچتی ہے،پندرہ سالہ معاہدے کے تحت ہم ہر حال میں اس کمپنی کو ادا کرنے کے پابند ہیں‘ چاہے اس پر کام ہو رہا ہو یا بند ہو۔ اب پندرہ سال کودنوں سے ضرب دے کر دیکھ لیں۔
اس معاہدے کی خبر سے اس پر ہر طرف لے دے شروع ہو گئی او راس معاہدے پر عمل نہ ہو سکا لیکن پھر خاموشی سے اس پر دستخط کر دیئے گئے اور اس کی وجہ بہت جلد سامنے آنے والی ہے کیونکہ میاں نواز شریف کے نا اہل ہونے کے بعد اب حکومت میں بیٹھے ہوئے 
چند انتہائی اہم ترین ذرائع دبی دبی زبان میں کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ ایل این جی کیلئے جب امریکہ کی ایک کمپنی سے بات کی جا رہی تھی اور اس نے ساڑھے سات ڈالر فیmmbtu پر یہ قدرتی گیس دینے کی ہامی بھری تھی لیکن اس کو اس لئے موخر کر دیا گیا کیونکہ پاکستان تک اس کی ٹرانسپورٹیشن اور گیس کی شکل تک پہنچانے کیلئے کئے جانے اقدامات کے بعد اس کے نرخ چودہ ڈالر ہونے کا امکان تھا حالانکہ اس میں بھی ان بیورو کریٹس کی جانب سے مغالطے سے کام لیا جا رہا ہے کیونکہ اس میں ان کے بھی مفادات تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا قطر سے کیا جانے والا ممکنہ سترہ ڈالر والا معاہدہ عوام کے سامنے لایا جائے گا؟ آج جب یہ تحریر کر رہا ہوں تو ابھی تک اس کا معاہدے کے بارے میں مکمل معلومات سامنے نہیں لائی گئیں؟ ایران سے پاکستان اور انڈیا تک گیس پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے عرصہ اقتدار میں کیا گیا تھا لیکن امریکہ کی سخت ناراضگی کے باعث ابھی تک زیرالتوا ہے ۔ ایران نے اس پر اپنے حصے کا کام مکمل کر لیا ہے لیکن پاکستان نے ابھی تک اپنے حصے کا صرف کمیشن ہی کھرا کیا ہے اور کام پر ذرہ برا بر بھی توجہ نہیں دی اور یہ نیک کمائی پی پی پی کی سابق حکومت کے کھاتوں میں سے ہوتی ہوئی نہ جانے کہاں جا چھپی ہے۔ پی پی پی حکومت میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن جب پاکستان کے سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچی تھیں تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں صاف الفاظ میں پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ امریکہ IPI کے حق میں نہیں بلکہ اس کا سخت مخالف
ہے اور اس کی بجائے TAPI یا کسی اور ذریعے سے پاکستان کی ضروریات پوری کرنے کی کوششیں کی جائیں گی لیکن اب امریکہ اپنی کمپنیوں کی بجائے نہ جانے کیوں قطر سے کئے جانے والے معاہدے کی حو صلہ افزائی کر رہا ہے!! اگر قطر سے سترہ ڈالر میں سودا طے پایاہے تو کیاGasification بھی قطر کی ذمہ داری ہو گی یا پاکستان کی کیونکہ اس پر علیحدہ سے بھاری اخراجات ہوں گے؟
پاکستان کے پاس گیس کے حصول کے دو ذرائع تھے ان میں سے ایک ایران سے پائپ لائن کے ذریعے اور دوسر ا امریکہ کی مدد اور تعاون سے TAPI یعنی ترکمانستان سے افغانستان اور پاکستان تک۔ طویل فاصلے اور افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے تاپی منصوبے پر فوری عمل ممکن نہ تھا لیکن دو برس قبل ترکمانستان میں اس منصوبے کے شریک ملکوں کے ہاتھوں اس کا باقاعدہ افتتاح کر دیا گیا‘تاہم اس کیلئے ابھی طویل عرصہ اور سیا سی حالات کی بہتری درکار ہے۔کالم میں ، بتایا تھا کہ بے شک ایل این جی کا مقصد سستا ترین ذریعہ توانائی ہے لیکن اس وقت چونکہ تیل کی قیمتیں تیس ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے جا رہی ہیں اس لئے یہ کسی طور بھی فائدہ مند نہیں ،اس کے با وجود ہماری وزارت پٹرولیم اور وزارت خزانہ قطر سے ایل این جی17 ڈالرmmbtu کے حساب سے حاصل کر رہی ہے جبکہ امریکہ کی کمپنی Cheniere سے یہی ایل این جی بھارت10.50 ڈالر فیmmbtu خرید رہا ہے ! قوم یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ اس قدر فرق کیوں؟۔ جب اس پر تحقیق شروع ہوئی تو بات درست نکلی ہر کسی نے
دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں کہ بھارت دس ڈالر جبکہ ہم سترہ ڈالر کے حساب سے یہ ایل این جی کیوں خریدنے جا رہے ہیں؟ اگر زائد ادا کئے جانے والے سات ڈالرفی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے صرف ایک سال کا فرق سامنے لائیں تو اس سے پاکستان کو ہر سال پانچ کھرب ڈالر کا نقصان ہو گا۔ اس پر شور مچ گیا اور لوگوں نے اس معاہدے کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے جس سے یہ ہوا کہ معاملہ کچھ دیر کیلئے اس طرح کھٹائی میں ڈال دیا گیا کہ لوگ بھولنا شروع ہو جائیں لیکن اسی دوران ملک بھر میں گیس کی خوفناک قسم کی لوڈ شیڈنگ شروع کرا دی گئی تاکہ عوام یہ نہ دیکھیں کہ ایل این جی کہاں سے اور کس قیمت پر خریدی جا رہی ہے بلکہ وہ پکار اٹھیں کہ جہاں سے بھی ملے اور جس قیمت پر بھی ملے فوراََ لے لو ۔ اس طرح یہ معاہدہ ایک بار پھر فارماسسٹ مصدق ملک اور اسحاق ڈار کی محنت اور نگرانی میں پوری آب و تاب کے ساتھ میدان میں اتاردیا گیا۔۔۔۔۔مسلم لیگ نواز کی ہر حکومت میں دس سالہ منصوبوں کی ایک وزارت اور وزیر شامل کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر یہ معاہدہ ہو گیا تو اے اہل وطن اگلے دس برس یعنی2025 تک وطن عزیز کو 140 بلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ اس سے مستفید ہونے والوں کو روکے گا کون؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایل این جی کا جو'' معاہدہ ‘‘ ہو چکا ہے اس میں کچھ لوگوں کو کتنا فائدہ ہواہو گا، ان کی موجو دہ اور آنے والی نسلوں کیلئے دنیا کے کسی محفوظ ملک میں جمع کرائے گئے ڈالروں کی مالیت کتنی ہو گی؟ تو میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ کسی بھی پاکستانی کے وہم و گمان سے بھی بڑی رقم ہو گی ۔۔!! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں