عالمی میڈیا اور حکومت پاکستان کو Dr. ANNAN کی بحیثیت ایڈوائزری کمیشن برائےRakhine State کی 23 اگست کی وہ رپورٹ دنیا بھر کے سامنے لانی چاہئے جسے آنگ سان سوچی سب سے چھپا کر بیٹھی ہوئی ہے ۔۔۔ وہ سان سوچی جسے کل تک ایشیاء کی نیلسن مینڈیلا کے نام سے پکارا جارہا تھا وہ جو دود ہائیوں تک میانمار کی فوجی حکومت کے سامنے سینہ تان کر کھڑی رہی وہ جو ایشیا میں جمہوریت اور شہری آزادیوں کا نشان بن کر چمکتی رہی اور وہ جسے اس کے پرستار دیوی کا درجہ دیتے رہے اور خود کودیوی کہلوانے والی ، نیلسن منڈیلا کی ہم پلہ کہلوانے والی جمہوریت اور انسانی حقوق کی سب سے بڑی پرستار بن کر نوبل انعام حاصل کرنے والی اندر سے اندرا گاندھی اور حسینہ واجد جیسی ایک خون آشام ڈائن نکلی۔وہ مذہبی انتہا پسند وں کی سرخیل ثابت ہوئی ، چہرے پر جمہوریت اور انسانی آزادیوں کا نقاب اوڑھ کر اقتدار کی تلاش کیلئے بھاگنے والی روائتی سیا ستدان ہی نکلی، انسانی اور اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر سیکولرازم کا راگ لاپنے والی میں نے اس کے بارے میں 15-11-2016 کو اپنے کالم میں تیس سال بعد میانمر میں ہونے والے انتخابات میں مسلمانوں کے بارے میں ا س کے رویئے کو دیکھ کر اس کے سامنے ہی کہہ دیا تھا کہ'' آپ نے کسی بھی مسلمان کو اپنی جماعت کا انتخابی ٹکٹ دینے سے انکار کرتے ہوئے ثابت کر دیا ہے آپ کو نوبل انعام کی نہیں بلکہ ہیومن کونسلنگ کی ضرورت ہے‘‘ اس وقت کہے گئے میرے یہ الفاظ مجھے کس قدر مہنگے پڑے یہ میں ہی جانتا ہوں۔۔۔۔لیکن وہاں موجود میڈیا کو اپنی رپورٹس پر بتا دیا تھا کہ جلد ہیRakhine State میں روہنگیا مسلمانوں کو قیامت کا سامنا کرنا پڑے گا اور وقت نے ثابت کر دیا کہ اسی سٹیٹ میں قتل عام جاری ہے۔ مشہور زمانہ اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کو جب نومبر 2016 میں ہونے والے ملکی عام انتخابات کے مراحل طے کر نے پڑے تو اس نے پہلے ہی قدم پر اعلان کر دیا کہ وہ کسی مسلمان کو اپنی جماعت نیشنل لیگ برائے جمہوریت کا انتخابی ٹکٹ دے کر اپنا امیدوار نہیں بنائے گی؟۔جب میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا، ان کی عبادت گاہیں جلائی جا رہی تھیں تو اس نوبل انعام یافتہ کی مجرمانہ خاموشی جاری تھی کیونکہ اگر آپ ظلم دیکھتے ہوئے اس کو روکنے کی طاقت رکھتے ہوئے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی اس جرم میں برا بر کے شریک ہیں۔
سانگ سوچی کی پارٹی کا نام بظاہر تو نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی ہے لیکن جمہوریت کا وہ اولین اصول ہی اس نے اپنے پائوں تلے روند کر رکھ دیا جس میں تمام انسان برابر سمجھے جاتے ہیں جس میں شہری آزادیوں کی بندش اور مذہبی تفریق انتہائی قابل نفرت سمجھی جاتی ہے۔ بی بی سی کا نمائندہ جو وہاں موجود تھا اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اس کے ساتھی میڈیا کے لوگ اور بہت سے عالمی نمائندے حیران ہو رہے ہیں کہ ایک ایسی عورت جو1990 سے2000 تک فوجی جرنیلوں کا ڈٹ کا مقابلہ کرتی رہی ہے اس نے کس طرح انتہا پسندوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں؟۔میانمار کی مقامی طلبا تنظیمیں ،بیرونی میڈیا کے ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے بے بس نظر آ رہی تھیں جن میں ان سے پوچھا جارہا تھا کہ آنگ سان سوچی جیسی لبرل لیڈر کی جماعت میں مسلم امیدواروں کا داخلہ ممنوع کیوں رکھا جا رہا ہے؟ یہ کیسی پارلیمنٹ ہو گی جس میں اقلیتوں کیلئے ایک بھی نشست نہیں ہو گی وہ مسلمان جو کل تکNLD کے شانہ بشانہ جمہوریت کی جنگ لڑتے رہے آج سان سوچی کی جمہوریت میں اچھوت کیوں بنا ئے جا رہے ہیں ؟۔
جب ہم نے سیتھو مانگ سے اس بارے سوال کیا تو اسے کوئی جواب نہیں سوجھ رہا تھا کیونکہ اسے تو پورا یقین تھا کہ سانگ سوچی اسے اپنی جماعت کی طرف سے اپنا امیدوار ضرور بنائے گی وہ ایک مشہور سٹوڈنٹ لیڈر ہونے کی وجہ سے کئی مرتبہ سوچی کی قید کے خلاف جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند رہا 2007 کی انقلابی ریلیوں میں بھر پور شرکت کرتا رہا ،سیتھو نے اپنے انتخابی حلقے کیلئے رنگون کی مشہور شہری نشست کا انتخاب کیا ہوا تھا جہاں پر مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت ہے لیکن سانگ سوچی نے سیتھو کو ٹکٹ دینے سے معذرت کرتے ہوئے اس نشست سے ایک انتہا پسند اور مسلم دشمن بدھسٹ کو اپنا انتخابی ٹکٹ جا ری کر دیا کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ وہ کسی مسلمان کو اپنی جماعت کی جانب سے امیدوار بنا کر میانمار کی مسلم مخالف آبادی کی نارا ضگی مول نہیں لے سکتی۔
سیتھو کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس نے سوچی کی نیشنل لیگ برائے جمہوریت کیلئے جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ان سے پورا میانمار واقف ہے لیکن اب اسے ایسا لگ رہا ہے کہ یا تو اس نے ایک نوبل انعام یافتہ پر غلط اعتماد کیا ہے یا نوبل انعام دینے والوں نے غلط فہمی کی بنیاد پر ایک انتہا پسند دہشت گرد شخصیت کا انتخاب کیا ہے‘‘۔سیتھو نے میانمار کی فوجی حکومتوں کے خلاف سان سوچی کی سیا سی جدو جہد کا ساتھ دیتے ہوئے بار بار قیدو بند کی سختیاں برادشت کیں لیکن اب وہ اسے اپنے قریب لانے سے گھبرا رہی ہے کہ مبا دا انتہا پسند مسلم دشمن تنظیم Ma Ba Tha ناراض نہ ہو جائے ۔ میانمار کی مسلم آبادی بھی سوچی کی اس روش پر پریشان ہو کر رہ گئی تھی کہ انتخابی مرا حل شروع ہوتے ہی سانگ سوچی اندر گاندھی، حسینہ واجد جیسے ایک بالکل نئے انداز میں مسلم دشمن نظریات لے کر سامنے آ گئی ہے جس کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا یہ کیسے ممکن تھا جمہوری اور شہری آزادیوں کیلئے طویل قید کاٹنے والی سانگ سوچی مذہبی انتہا پسندوں کے آگے گھٹنے ٹیک دے گی۔ مسلم آبادی اس خوف میں مبتلا ہوتی جا رہی تھی کہ نوبل انعام یافتہ سان سوچی نے اپنا انتہا پسندانہ چہرہ تو انتخابات سے پہلے ہی دکھا دیا ہے جب اسے اقتدار ملنے گا تو مستقبل میں اس کا مسلمانوں کے بارے میں روا رکھا جانے والا رویہ نہ جانے کیسا ہو گا؟۔مغرب کے ہیومن رائٹس گروپس سان سوچی کے بیانات اور میانمار کی روہنگیا آبادی کے بارے میں اس کے موجودہ اقدامات کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔سان سوچی کے اندر چھپی ہوئی اصلیت کا تو اسی وقت اندازہ کر لیناچاہئے تھا جب مونک لیڈر آشن وراتھو نے اقوام متحدہ کی نمائندہ یانگی لی کو دنیا بھر سے آئے ہوئے میڈیا مبصروں کے سامنے گالیاں دیتے ہوئے اسے ''Bitch اور whore کہہ کر پکارا تھا اور سان سوچی نے یہ سب کچھ سننے کے باوجود اس کی مذمت میں ایک لفظ کہنے کی بھی ہمت نہ کی کہ مبا دا اس کے ووٹر زناراض نہ ہو جائیں ۔ میڈیا نے اسی وقت لکھ دیا تھا کہ آج عوام کے ووٹوں کیلئے اس کی یہ حالت ہے تو کل کو اپنی پالیسیاں مسلط کرانے کیلئے انہی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے انتہا پسند مسلم دشمن ارکان پارلیمنٹ کا دبائو کیسے برداشت کر سکے گی؟۔
نوبل انعام یافتہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی چیمپئن سان سوچی نے اپنی پارٹی کی ٹکٹ پر1,151 امیدوار ریجنل اور نیشنل انتخابات کیلئے نامزد کیئے تھے لیکن۔۔۔ان میں سے ایک بھی مسلمان نہیں تھا جب یہ فہرست میڈیا اور عوام کے سامنے آئی تو اس وقت سب نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں کہ یہ سب کیا ہے کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ نوبل انعام یافتہ اور خود کو لبرل، سیکولر اور ترقی پسند کہلوانے والی سوچی کی سوچ اس قدر متعصبانہ بھی ہو سکتی ہے؟۔ نیشنل لیگ برائے ڈیمو کریسی کے بانی رکن یو تن او بھی اس معاملے میں بے بس دکھائی دیئے ان کا کہنا تھا کہ ہم سیکو لر اور جمہوریت پسند ہیں لیکن مسلمان کو اپنا امیدوار بنا کر ہم RAWسے کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔ ۔۔!!