18-12-2015 کے دنیا نیوز میں شائع ہونے والے '' مسلم لیگ نواز اور ایم کیو ایم کا میثاق جمہوریت‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں انکشاف کیا تھا کہ مسلم لیگ نواز اور ایم کیو ایم کی لندن میں درونِ خانہ دوستی ہو گئی ہے ۔ اسے ایک بے پر کی سمجھتے ہوئے اس کا تمسخر اڑایا گیا لیکن میں ناقابل تردید شواہد کی بنا پر اپنی اس خبر پر قائم رہا۔کوئی ایک ہفتہ قبل ملک کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر بریکنگ نیوز آنا شروع ہو ئیں کہ ایم کیو ایم الطاف کی رابطہ کمیٹی کے دو انتہائی سینئر اراکین سے میاں نواز شریف کی لندن میں ملاقات ہو ئی ہے تو ایک دفعہ پھر بے یقینی کی سی کیفیت پیدا ہونے لگی کہ کیا یہ سچ ہے؟ بتایا یہ جا رہا ہے کہ رابطہ کمیٹی کے دو ارکان بیگم کلثوم نواز کی عیا دت کیلئے ہسپتال پہنچے جہاں ان کی میاں نواز شریف سے بھی ملاقات ہو ئی...لیکن بات یہیں تک محدود نہیں ہے ؟۔ چونکہ یہ خبر کسی ایک ٹی وی چینل نے نہیں بلکہ بہت سے چینلز کی سٹوری بن چکی ہے چنانچہ اس کی صداقت کا اس لئے بھی یقین کرنا پڑا کہ ابھی تک دونوں جماعتوںکی طرف سے اس کی تردید یا تائید نہیں کی گئی ۔ لندن میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ نواز کی اعلیٰ قیا دت کی ملاقات کی کہانی لاکھ چھپانے کے با وجود منظر عام پر آ ہی گئی۔ اس ملاقات کا انتظام میاں نواز شریف کے لندن پہنچنے سے قبل ان کے کسی کو نہ نظر آنے والے بچپن کے بلکہ گلی کے دوست سجاد شاہ کر چکے تھے...ایک نہیں درجنوں لوگ اس بات کا دم بھرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نواز شریف کے دوست ہیں لیکن سجاد شاہ وہ شخص ہے جس کے متعلق نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ میرا دوست ہے ۔اسحاق ڈار کو میاں محمد نواز شریف کا سب سے قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے لیکن ڈار صاحب سجاد شاہ کی نسبت کچھ بھی نہیں ۔ اگر کسی کو یاد رہ گیا ہو تو دسمبر 2015 کے پہلے ہفتے میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی برطانوی ہائی کمشنر سے خصوصی ملاقات ہوئی تھی اس ملاقات کے بعد انہوں نے فرمایا تھا کہ ان کا حالیہ دورہ برطانیہ بہت ہی کامیاب رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں برادران کا دو سال قبل کا دورہ برطانیہ نہیں بلکہ دورہ لندن بہت کامیاب رہا تھا ،جہاں بہت سے لوگوں سے میاں برادران کی عام اور خفیہ ملاقاتیں ہوتی رہیں، اس دورے کی اہم ترین خبر یہ تھی کہ 2006 میں رحمان ملک کی رہائش گاہ پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان طے پانے والے '' میثاق جمہوریت‘‘ کی مدت پوری کرتے ہوئے ،برطانوی خفیہ ادارے اور ان کی وزارت داخلہ کو مطلع کیا گیا کہ وہ اس معاہدے کو اب متروک قرار دیتے ہوئے آصف زرداری کو مرکز میں اگلی باری دینے پر تیار نہیں... وہیں میاں برادران نے اپنے تمام ضامنوں کو یہ بھی بتا دیا کہ ان کی خواہش پر اب یہ میثاق جمہوریت ایم کیو ایم لندن سے کیا جائے گا۔
لندن میں موجود اپنے ذرائع کے حوالے سے میں پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں کہ نیا میثاق جمہوریت مسلم لیگ نواز اور متحدہ قومی موومنٹ لندن کے درمیان انہی طاقتوںکی جانب سے طے کرا دیا گیا ہے ،جس کے مطا بق مستقبل کی سیا ست کے باہمی دوست نواز شریف اور ایم کیو ایم لندن ہوں گے اور جناب اسحاق ڈار اس کی با قاعدہ گارنٹی بھی دے چکے ہیں اور برطانوی حکومت نے امریکہ سے منظوری لینے کے بعد اس پر اپنی مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری جو دوبئی میں سمٹے بیٹھے تھے یہ اطلاع ملتے ہی بغیر کسی پروگرام اچانک پاکستان پہنچ گئے ۔میثاق جمہوریت کے ضامنوں سے مایوس ہونے کے بعد اب زرداری صاحب جان گئے ہیں کہ لندن میں یہ بات طے کرا دی گئی ہے کہ ملک میں ہونے والے مستقبل کے انتخابات کے نتیجہ میں سندھ میں نواز لیگ اور ایم کیو ایم کی حکومت ہو گی ،جہاںیہ ایک دوسرے کے اتحادی ہوں گے ۔21 ارب کی کراچی، حیدر آباد کو خصوصی گرانٹ، گورنر زبیر کی فاروق ستار کے پاس جا کر ملاقات اور نائن زیرو کی حوالگی، وہ ثبوت ہیں جن کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ۔ شاہد خاقان عبا سی وزیر اعظم کیلئے ووٹ اور اس سے قبل ہر بل کی منظوری کیلئے ایم کیو ایم کی کھلم کھلا سپورٹ بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے...اگر آپ ٹی وی چینلز دیکھیں تو آپ کو ایم کیو ایم کا وہ گروپ تحریک انصاف پر تابڑ توڑ حملے کر تا ہوا نظر آئے گا۔ دو برس قبل کا وہ منظر یاد کیجیے جب مسلم لیگ نوازکراچی میں مزار قائد پر آتش بازی کر رہی تھی تو نائن زیرو پر لوگ اس انتظار میں تھے کہ نہال ہاشمی نائن زیرو سے آتش بازی کا مظاہرہ کرے گا ؟۔میرے کراچی کے دوست اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن ٹھٹھہ میں شیرازی برادران اور کراچی کے ملیر اور مغربی حصوں میں نواز لیگ کے چند امیدواروں کی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی ایم کیو ایم کی خصوصی شفقت کی مرہون منت ہے اوریہ اس عہدو پیمان کا با قاعدہ حصہ تھا جو آنے والے وقتوں میں سندھ میں نواز لیگ اور ایم کیو ایم کی مشترکہ حکومت کا نقطہ آغاز بنے گا۔
کراچی ،حیدر آباد سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایم کیو ایم حقیقت بن کر ایک بار پھر سامنے آ گئی ہے اور اس کا یہ مینڈیٹ ظاہر کر رہا ہے کہ الطاف حسین کی مقبولیت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا ۔ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس دفعہ ان کے حاصل کردہ ووٹوں کا تنا سب وہ نہیں جوماضی میں تھا، اس سے ایم کیو ایم بھی یقیناََ آگاہ ہو گی؟۔نہ صرف ملک بھر سے ایم کیو ایم کے ووٹر، ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے کراچی پہنچے بلکہ مڈل ایسٹ اور دنیا بھر سے کراچی پہنچنے والی فلائٹس اس بات کی گواہ ہیں کہ ایم کیو ایم کے ہمدرد ہزاروں کی تعداد ا میںاپنی جماعت کو سپورٹ کرنے کیلئے کراچی آئے۔کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے بعد ایک ٹی وی چینل پر عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید،جن کی جماعت ایک نشست جیتنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکی، اس بات پر خوش ہو رہے تھے کہ ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کو کراچی میں چاروں شانے چت کر دیا ہے ...حالانکہ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ کراچی میں عمران اسماعیل جیسی قیا دت پی ٹی آئی کی لٹیا ڈبونے کیلئے کافی ہے؟۔ تحریک انصاف میں '' درشنی گروپ‘‘ نے عمران خان کو گھیرا ہوا ہے ،یہ گروپ ہر وقت عمران خان کے گرد بیٹھا اسے اپنا چہرہ دکھانے میں مصروف رہتا ہے لیکن مجال ہے کہ کبھی انہوں نے اپنے حلقوں میں جا کر رتی برا بر کام بھی کیا ہو۔۔۔کون نہیں جانتا کہ تحریک انصاف کراچی میں دوسری بڑی پارٹی کی صورت میں سامنے آ چکی تھی لیکن وہاں کے ''درشنی گروپ ‘‘نے اسے ایک کونے میں لگا کر رکھ دیا ہے۔۔۔غضب خدا کا کہ اہم ترین اپو زیشن جماعت میں آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ کس کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ پی ٹی آئی میں ہر ایک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنائی ہوئی ہے ۔یاد نہیں پڑتا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی ورکنگ کمیٹی کا کبھی کوئی اجلاس ہوا ہو جبکہ ان کی سب سے بڑی مد مقابل جماعت نے اپنے انتخابی عمل کا 80 فیصد سے زائد عمل مکمل کرتے ہوئے امیدواران اسمبلی کو اگلے انتخابات کیلئے ٹکٹ کنفرم کر سکے انتخابی مہم چلانے کا حکم بھی دے دیا ہے، جس کیلئے صوبے اور ضلع کی انتظامیہ ان کے ا حکامات کی تعمیل کر رہی ہے...!!