پانچ ستمبر کو افغانستان کے صوبہ پروان میں امریکہ اورنیٹو افواج کے جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے گرائے جانے والے اشتہارات نے ہر جانب ایک آگ سی لگا دی ہے ۔ طالبان کی وہ طاقت جو کم ہو رہی تھی اسے یک دم عوامی ا ور مذہبی حمایت ملنا شروع ہو گئی ہے ۔یہ اشتہار کیا ہے؟ بس یہ سمجھ لیں کہ گویا یہ طالبان فورس میں بھرتی کا اشتہار ہے جسے دیکھنے کے بعد ہر عمر کا افغانی جوق در جوق طالبان کی جانب کھنچا چلا آ رہا ہے۔امریکہ کی جانب سے گرائے جانے والے ان اشتہاروں نے صوبہ پروان اور اس سے ملحقہ صوبوں میں امریکہ او ر اشرف غنی کی افغان حکومت کے خلاف نفرت کی جو لہر اٹھائی ہے اس نے گورنر پروان کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ طالبان اب ایک ایسی طاقت بن کر ابھریں گے، جسے روکنا اب ہمارے بس کی بات نہیں ہو گی۔گورنر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ اشتہار ایک آتش فشاں ہے ،جس کے شعلے افغانستان بھر میں جنگل کی آگ کی طرح ہر جانب لپک رہے ہیں۔
امریکی فوج کی طرف سے گرائے جانے والے ان اشتہار ات میں ،ایک جانب طالبان کا جھنڈا ہے جس پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے اور دوسری طرف طالبان کو اپنے اس جھنڈے کے ساتھ ایک کتے کی شکل میں پرنٹ کرکے اس کے پیچھے ایک ٹائیگر کی تصویر بنائی گئی ہے جو طالبان کا پیچھا کر تے ہوئے للکار رہا ہے کہ تمہیں چیر پھاڑ دیں گے۔ افغان عوام جو افغان حکومت کے ٹیلی ویژن اور اخبارات سمیت ریڈیو کی کسی خبر پر یقین کرنا گناہ سمجھتے ہیں ،وہ ان کی جانب سے دی جانے والی صفائیوں پر یقین کرنے کو قطعی تیار نہیں ہو رہے کیونکہ یہ اشتہارات ان کے سامنے امریکی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے صوبے بھر میں پھینکوائے گئے ہیں اور کوئی بھی شخص یہ تو کسی طور بھی ماننے پر تیار نہیں کہ امریکہ نے ان اشتہارات کو بے خبری میں شائع کروا کے افغانستان کے پہاڑوں ، وادیوں اور آبادیوں میں گرایا ہو گا؟کون یہ ماننے کو تیار ہوگا کہ امریکیوں کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ اس اشتہار کے دونوں جانب کیا تحریر کیا گیا ہے؟دنیا کا سب سے بیوقوف اور لا علم انسان بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہو سکتا کہ امریکی جانتے ہی نہیں کہ ان اشتہارات میں طالبان کا جو پرچم پرنٹ کروایا گیا ہے اس پر مسلمانوں کے ایمان کی پہلی منزل کلمہ طیبہ تحریر ہے۔
امریکی، طالبان کو ان کے جھنڈے کے ساتھ کتے کی شکل میں پینٹ کر کے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ شیر ان کے تعاقب میں ہیں جو ان کو چیر پھاڑ دیں گے لیکن مسلمانوں کے ایمان کی اولین بنیاد کلمہ طیبہ کی اس طرح توہین کرنے کا انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا تھا جبکہ وہ جانتے بھی تھے کہ اس کلمے کا احترام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ اس اشتہار کے ساتھ طالبان کے جھنڈے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جس نجس جانور کی تصویر لگائی گئی ہے اس پر مسلمانوں کا رد عمل کیا ہو سکتا ہے اور خاص طور پر کسی پشتون معاشرے میں اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟۔بغیر کسی شک کے کہا جا سکتا ہے کہ امریکیوں نے جان بوجھ کر اس قسم کے اشتہارات چھپوائے اور پھر انہیں افغان آبادیوں میں جہازوں کے ذریعے گرایا...تاکہ ان اشتہارات کو دیکھنے کے بعد افغانستان کے عوام میںامریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف نفرت اور غصے کی شدید لہر ابھرئے اور امریکہ سمیت اس سے منسوب کئے جانے والے اتحادیوں کے خلاف مذہبی جذبات کی آگ اس طرح بھڑک اٹھے کہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان اور تحریک طالبان سمیت داعش اور اس قسم کی تمام دہشت گرد تنظیموں اور گروپوں کی جانب زیا دہ سے زیا دہ لوگ مائل ہوں اور ان کی جانب سے رد عمل کے طور پر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ تا کہ امریکہ دنیا بھر کو یقین دلا سکے کہ خطے میں امن و امان کیلئے ان کی فوجوں کی افغانستان میں موجودگی بہت ضروری ہے ۔
ہیلی کاپٹروں اور جہازوں سے گرائے گئے ان اشتہارات کے اثرات صرف افغانستان ہی نہیں، بلوچستان اور کے پی سمیت فاٹا ، پاکستان اور دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی پھیلیں گے اور پھر یہ لہر امریکہ سمیت دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی سرایت کرے گی جہاں کمپیوٹر اور سیٹلائٹ کی سہولیات سب سے زیا دہ ہیں۔اس وقت افغان فوج اور پولیس میں یہ اشتہارات سب سے اہم موضوع بن چکے ہیں اور یہ خدشہ پیدا ہونے لگا ہے کہ امریکہ سے کلمہ طیبہ کی توہین کا بدلہ لینے کیلئے کہیں افغان فوجی اور دوسری سکیورٹی فورسز کے لوگ طالبان سے رابطے نہ شروع کر دیں؟۔
گورنر پروان نے اپنے دفتر سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اسے'' امریکہ کا نا قابل معافی جرم قرار دیا ہے‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا افغانی اس سے مطمئن ہو جائیں گے؟۔کیا افغان حکومت اور امریکی فورسز بھول گئی ہیں کہ جب2012 میں ایک افغان سینٹری ورکر کے قبضے سے بگرام ایئر بیس سے قرآن پاک کے جلائے گئے اوراق بر آمد ہوئے تھے تو افغانستان بھر میں پر تشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جن میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے تھے...پھر اسی2012 میں امریکی فوجیوں نے ایک اور قبیح حرکت کرتے ہوئے ایسی تصاویر اخبارات اور رسائل میں چھپوا ئیں جن میں امریکی فوجیوں کو مارے جانے والے طالبان کی لاشوں پر پیشاب کرتے دکھایا گیا تھا...ان تصاویر نے افغانستان سمیت پاکستان کے پشتون علا قوں میں بھی نفرت کی فضا پیدا کر دی تھی ...جب امریکی فوجیوں نے رات کے وقت افغان شہریوں کے گھروں پر چھاپے مارنے شروع کر دیئے تو اس وقت بھی ہر جانب سخت مزاحمت شروع ہو گئی تھی کیونکہ رات کے وقت کسی بھی افغانی کے گھر پر چھاپہ اور تلاشی انتہائی قبیح حرکت سمجھی جاتی ہے جس کا انتقام لینا وہ اپنی زندگی کا اولین مقصد بنالیتے ہیں ۔
کیا امریکی میڈیا ،افغان اور پشتون معاشرے میں اس سے پیدا ہونے والے شدید اثرات سے بے خبر ہو سکتا ہے؟۔ جواب نفی میں ہے تو پھر وہ اپنے عوام کو ایک پر امن ماحول دینے اور افغانستان سمیت دنیا بھر میںبسنے والے مسلمانوں کے جذبات کو اشتعال انگیزی سے بچانے کیلئے امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ کو یہ کیوں نہیں سمجھاتے کہ آپ کی اس قسم کی حرکات سے افغانستان سمیت دنیا بھر کے امن کو نقصان پہنچ سکتا ہے...اس اشتہار سے بھڑک اٹھنے والی نفرت پھیل کر اس افغان فورس میں بھی سرائت کر سکتی ہے جو آپ کے ارد گرد موجود ہے اور کل کو کسی بھی وقت ان فورسز میں شامل مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے کسی بھی قسم کا رد عمل سامنے آ سکتا ہے...؟
اس لئے امریکیوں کو پانچ ستمبر جیسے بد ترین اقدا مات سے گریز کرنا ہو گا اور وہ آگ جو پروان صوبے سے شروع ہو کر اس وقت افغانستان بھر میں پھیلتی جا رہی ہے، آگے بڑھ کر اسے کسی احسن طریقے سے کنٹرول کرنا ہو گا ورنہ افغانستان میں امن کے قیام کی خواہش کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے...اور شائد یہی وجہ ہے کہ میڈیا کا ایک بہت بڑا حصہ یہ کہنے پر مجبور ہو رہا ہے کہ'' امریکہ نے یہ قبیح حرکت، اس کے خطرناک نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے جان بوجھ کر کی ہے کیونکہ وہ اپنی اور نیٹو فورسز کیافغانستان میں مدت میں توسیع چاہتا ہے کہ افغانستان میںطالبان کی کارروائیاں زور پکڑیںتاکہ وہ افغانستان سمیت خطے میں اپنی موجود گی کو پہلے سے مضبوط کر سکے اور اسی لئے آگ کا شعلہ انہوں نے ان اشتہارات کی شکل میں بھڑکا دیا ہے...!!
'' منیر احمد بلوچ ‘‘